الجمعة، يناير 16، 2015

دہشت گردی...عالمی نظریہ...اسلام

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیف الرحمان حفظ الرحمان تیمی
جامعہ اسلامیہ, مدینہ منورہ


موضوع گفتگو حد درجہ حساس ہے, معاملہ صرف بنی بنائی اسلامی دہشت گردی کا نہیں ہے, دہشت گردی تو بہر صورت دہشت گردی ہی ہے, اس کا کوئی مذہب, دین, دھرم اور جنسیت وشہریت نہیں, آج عالم تو یہ ہے کہ پورا عالم اس دہشت گردی کی مختلف شکلوں
سے جوجھ رہا ہے,انفرادی دہشت گردی, اجتماعی تشدد, تنظیمی انتہا پسندی, یہ سب  دہشت گردی کی مختلف نوعیتیں ہیں, امریکہ, یورپ, افریقہ, ایشیا, ملیشیا,آسٹریلیہ,ہر جگہ دہشت ہی دہشت ہے,دہشت کے اسباب مختاف ہیں ,نتیجہ سب کا ایک ہے,جہاں بھی انتہا پسندی ہو, جس جگہ بھی اس کا مظاہرہ کیا جائے, نتیجہ قتل وغارت, خوں ریزی اور سفاکیت کی شکل میں ہی ظاہر ہوتا ہے,یہ نتیجہ بتاتا ہے کہ دہشت مذہب کا حصہ نہیں ہو سکتا, اور نہ ہی مذہب دہشت کا محرک اور پیامبربن سکتا ہے_سچ تو یہ ہے کہ دہشت گردی کا بنیادی مصدر صرف اور صرف ظلم ہے, ظلم کے کوکھ سے ہی ساری انتہا پسندی جنم لیتی ہے,جس سے زندگی میں فساد, بے چینی اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے,ایک انسان جب دوسرے انسان پر ظلم کرتا ہے خواہ جہاں بھی کرے, جس وقت بھی کرے, یہ ایک انسان کے ذریعہ دوسرے انسان کی زندگی کو بے کل کرنے اور اسے سکون وامان سے محروم کرنے کے ہم معنى ہے.....کتنے ایسے انسان ہیں جو اپنے ہی جیسے انسان کے ظلم, نا انصافی, انتہاپسندی کے سبب قتل ہوئے,انکا خون ہوا, زندگی سے محروم کردئے گئے,خواہ یہ جنگ کی حالت میں ہوا ہو, عام معمول کی زندگی میں ہو,شب وروز کے کسی پل میں ہو,روئے زمین کے کسی گوشے میں ہو, کوئی بھی دین نہ تو قاتل کو اس ظلم کی تحریک دلاتا ہے, اور نہ اس کے لئے مقتول کے خون کو حلال قرار دیتا ہے...قاتل بھی انسان,مقتول بھی انسان... حق کو باطل اور باطل کو حق کہ دیں تو حق کی حقانیت کسے ملے...؟معرکہ پھر باطل اور باطل کے درمیان ہی رہ جائیگا...؟پھر باطل کے بطلان کا کیا معنی...؟سچائی یہ ہے کہ حق وہ ہے جس میں کسی قسم کا ظلم نہ ہو..!باطل ہر وہ چیز ہے جس میں ظلم اپنی کسی بھی قسم اور شکل کے ساتھ موجود ہو..!آسمانی مذاہب..انبیاء ورسل کے پیغامات..منزل من اللہ کتابیں..ان تمام کا مصدر وماخذ صرف حق اور صداقت ہوتا ہے...یہ حق اس ذات باری سے منسوب ہے جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں..."وخلق اللہ السموت والأرض بالحق"(جاثیہ: ۲۲)باطل کا منبع تو بہر صورت ظلم ہوتا ہے...!اللہ نے خود اپنی ذات پر ظلم کو حرام قرار دیا ہے اور بندوں کو بھی ہر قسم کے ظلم سے منع فرمایا ہے,اب ظلم کا نہ تو کسی آسمانی دین سے سروکارہو سکتا ہے, اور نہ کسی ربانی پیغام ورسالت سے...ظلم فقط" ذلک بما قدمت أیدیکم" ہمارے کئے کا نتیجہ ہوتا ہے..."وإن اللہ لیس بظلام للعبید" اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا_"إن اللہ لا یظلم الناس شیئا ولکن الناس أنفسھم یظلمون"(یونس:۴۴)چونکہ ظلم اور ظالم دونوں کا انجام خوفناک بتایا گیا ہے,اس لئے قیامت کے روز بھی سب سے دردناک عذاب انہی ظالموں کو دیا جائیگا..."ولو أن لکل نفس ظلمت ما فی الأرض لافتدت بہ وأسروا الندامۃ لما راووا العذاب وقضی بینھم بالقسط وھم لایظلمون"(یونس:۴۵)بلکہ منادی یہ نداء لگائے گا کہ ان ظالموں پر اللہ کی لعنت ثابت ہو چکی ہے" فأذن مؤذن بینھم أن لعنۃ اللہ على الظالمین"(اعراف:۴۴)ظلم خواہ اپنی حیثیت اور کیفیت میں رائی کے دانے کے برابر ہی کیوں نہ ہو, بہر صورت ظلم ہے"إن اللہ لا یظلم مثقال ذرۃ"(نساء:۴۰)کوئی بھی اچھا بھلا انسان ظلم کو روا نہیں سمجھ سکتا, آپ ظلم, ظلم کے اسباب اور اسکے نتائج پر غور کرلیں, بآسانی سمجھ سکینگے کہ زندگی کے بیشتر مسائل اور مشاکل صرف اسی ظلم اور اس کی مختلف نوعیتیں کے سبب وجود میں آتے ہیں...ظالم ہمیشہ خود کو حق پسید سمجھتا ہے,اس کی اسی غلط فہمی کے سبب زمین بگاڑ سے اٹ جاتی ہے, اور وہ خود کو حق کا پرستار ہی گردانتا رہتا ہے" وقال فرعون ذرونی أقتل موسى ولیدع ربہ إنی أخاف أن یبدل دینکم أو أن یظھر فی الأرض الفساد" (غافر:۲۶)ظالم فرعون نے بھی سیدنا موسى علیہ السلام کو یہ الٹا اتہام دیا تھا کہ آپ ہی فساد اور بگاڑ کی وجہ ہیں...!ایسی ہی دوہری غلط فہمی کے سبب فساد برپا ہوتا ہے, اور قابل غور بات ہے کہ دہشت پسندی اور تشدد سب سے بڑا فساد ہے, جو ظلم کے بطن سے جنم لیتا ہے"ظھر الفساد فی البر والبحر بماکسبت أیدی الناس لیذیقھم بعض الضی عملوا لعلھم یرجعون"(روم:۴۱)لوگوں نے ظلم کی انتہا کردی...نتیجتا تشدد کی انتہا ہوگئی... سارا جہاں فساد, بےجینی وبے کلی, بدامنی اور انارکی سے جوجھنے لگا...جب ظلم اور عناد کا سلسلہ تھمیگا...دہشت اور تشدد بھی عود کرجائیگا...فساد کا خاتمہ تب ہی ممکن ہو پائیگا...کاش ایسا ہی ہوتا!جنگ وقتال ظلم ہے, لوگوں کا مال غصب کرنا ظلم ہے,پراپرٹی ہڑپنا ظلم ہے,اراضی اور جائیداد پر قبضہ جمانا ظلم ہے,لوگوں پر ظلم کرنا ظلم ہے,زمین پر برتری دکھانا ظلم ہے,جھوٹی گواہی دینا ظلم ہے, افترا پردازی ظلم ہے,کمزوروں کے خلاف ظلم اور جرم گڑھنا ظلم ہے,خوف ودہشت پھیلانا ظلم ہے,عتاب وعقاب برسانا ظلم ہے,بم وبارود سے آبادیاں سنسان کرنا ظلم ہے, امانت میں خیانت ظلم ہے, عہد ومیثاق کی خلاف ورزی ظلم ہے,بری بات تک ظلم ہے, بڑی بات تو ہے ہی...لوگوں کو حقیر جاننا ظلم ہے,بد گمانی ظلم ہے,انسان اپنے ہی بھائی پر ظلم کرے, یہ ظلم ہے, بلکہ سب سے بڑا ظلم تو یہی ہے, جو دراصل دہشت گردی کی بنیاد اور انتہا پسندی کی جڑ ہے...!آج جو دہشت گردی افق عالم پہ چھائی ہوئی ہے اور فضاء کائنات جس کے گندہ سے مکدر ہو رہی ہے...کسی بھی دین دھرم اور آسمانی پیغام وپیام سے اسکا دور کا بھی رشتہ نہیں...کیونکہ مذہب ظلم کی مخالفت کانام ہے..جبکہ انتہا پسندی کا اصل نام ہی ظلم ہے...!جب حقیقت اس طرح ہے تو یہ دہشت گرد ہیں کون...جبکہ وہ بھی خود کو مذہبی کہتے اور دنیا بھی اسے مذہب سے جوڑتے نہیں تھکتی...؟دہشت گرد در اصل ہر وہ انسان ہے جو لوگوں پر ظلم کرتا ہے,سرکشی روا رکھتا ہے,نوعیت جو بھی ہو, شکل جیسی بھی ہو...صرف ظلم ہے تووہ دہشت اورتشدد ہے..!مظلوم وہ ہے جو دہشت,ظلم, تشدد کانشانہ بنے, انصاف کو دربدر نگر نگر بھٹکے اور مایوس لوٹ آئے..تھک ہار جائے.. ٹوٹ پڑے..پھوٹ پڑے..جسے کہیں سے بھی  دلاسا اور دل آشا نہ ملے...وہ اپنا دفاع کرنا چاہے..اپنے بچاؤ کا اپائے کرے پھر بھی ظالم کہلائے...موجودہ عالمی منظر نامے پہ یہی دوہرا پیمانہ غالب سے غالب تر ہوتا دکھائی دے رہا ہے, ظالم کا ظلم مضبوط تر ہوتا جارہا ہے, تباہی اور بربادی کے وسائل وسیع تر ہوتے جارہے ہیں...دوسری طرف مظلوم کی آہ وفغاں تیزتر ہوتی جارہی ہے, کسک بڑھ ہی رہا ہے, اس کا دفاعی اقدام , وسائل اپنانے کی کوشش, اور انتقامی جذبہ کے اظہارکو بھی انتہا پسندی کہا جارہا ہے,مظلوم کے اس دفاعی انتظام کو اس کے مذہب سے جوڑ کر, اسے باغی اور انتہا پسند مذہب کا پیروکار ہونے کا ملزم قرار دیکر, زمانے کی نظر میں اسے مجرم بتایا جارہا ہے...یہ سب کھلے عامزمانے کی پھٹی آنکھوں کے سامنے دن کے اجالے میں سرعام سر مجلس ہو رہا ہے....ایسا مظلوم جب تمام اسباب زیست سے تہی دست ہوجاتا ہے, دنیا اس کے سامنے اندھیری ہوجاتی ہے,پھر جب وہ عقل سے بھی معذور ہوجاتا ہے, زندگی اور موت اس کے لئے برابر ہوجاتے ہیں, تب وہ موت کا مزید انتظار کرنا بے سود سمجھتا ہے...موت کی طرف خود بڑھنے لگتا ہے...؟ اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا گلہ گھونٹ دیتا ہے, موت کا جام گھونٹ لیتا ہے..اس وقت یہ مظلوم بھی بظاہر ظالم ہوتا ہے.. اسے اس ظلم پر اسکا پہلا ظالم مجبور کرتا ہے,یہ ظلم بھی اسی کو عود کرتا ہے..دوہری دہشت گردی کا یہ مجرم پھر بھی زمانے کا ہنر مند انٹلکچوئل کہلاتا ہے, بدستور دندناتا پھرتا ہے, اورظلم بالائے ظلم کہ  دنیا کو وہی امن پسندنظر آتا ہے...؟!انہی مصالح کی حفاظت کے لئے اسلام نے جنگ وقتال سے منع فرمایا ہے, اس کی اجازت اسی صورت میں دی گئی ہے جب ظلم پنپنے لگے,ظالم کا سر ضرورت سے زیادہ اٹھنے لگے اور مظلوم کی مظلومیت ظاہر وباہر ہوجائے : أذن للذین یقاتلون بأنھم ظلموا وإن اللہ على نصرھم لقدیر"(حج: ۲۹)نیز اسلام کے نظریئہ حرب کا ایک اہم حصہ یہ بھی ہے کہ جنگ وجدال اسی کے خلاف جائز ہے جو بذات خود ظلم کا مرتکب ہو, جو قتال وجدال پر آمادہ ہو..."وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولاتعتدوا إن اللہ لا یحب المعتدین"(بقرۃ:۱۹۰)یہی دین اسلام ہے, یہ عالمگیر رحمت ومودت کا پیامبر ہے" وما أرسلناک إلا رحمۃ للعالمین"جب اسلام اس قدر انسانیت نوازی, رحم دلی, بہی خواہی اور باہمی رواداری کا مذہب ہے تو عالمی دہشت گردی جیسے انسانیت مخالف جرم کو اسلام سے جوڑنے کی فکر کہاں سے نمودار ہوئی...؟کون ہے اس کا اصل محرک...اس بھیانک غلط فہمی کا اصل مجرم کون ہے...؟ پس دیوار کوئی تو ہے جو اس عظیم منصوبہ کا جال بن رہا ہے...کہیں دور سے ڈورے ڈال رہا ہے...؟آپ غور فرمائیں!پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی مسلمانوں کے خلاف مظالم ہورہے ہیں, ان سب کو خانہ جنگی کانام دیا جارہا ہے, ملکی بغاوت سے موسوم کیا جارہا ہے, آپسی منافرت سے تعبیر کیا جا رہا ہے...ان مظالم کو مسلمانوں کے خلاف دشمنوں کی منظم انتہا پسندی کیوں نہیں کہا جا رہا ہے...برسرزمانہ انسانیت سوزی,خوں ریزی,قتل عام, نسل کشی...پھر بھی دہشت گردی نہیں...اس کے بالمقابل ۹/۱۱ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گردانہ حملہ...؟وجہ ظاہر ہے...اسلام تمام قسم کے ظلم کے خلاف شمشیر بے نیام ہے, اسلام دین الہی ہے جو اس روئے زمین پر ذرہ برابر بھی ظلم کو روا نہیں دیکھنا چاھتا,اس کی نظر میں ظلم ہر حال میں ظلم ہے, خواہ مظلوم کافر ہو یا مسلم...اللہ تعالى کسی کے خلاف بھی ظلم کو قبول نہیں کرتا...ایمان اورکفر کی تفریق سے پہلےبیان فرمادیا گیا "من اھتدى فإنما یھتدی لنفسھ ومن ضل فإنما یضل علیھا" اور فرمایا" من کفر فعلیہ کفرہ ومن عمل صالحا فلأنفسھم یمھدون" نیز ارشاد ہوا" قد جائکم بصائر من ربکم فمن أبصر فلنفسھ ومن عمی فعلیھا" جو جیسا کریگا, وہ ویسا ہی پائیگا!ایمان وکفر انسان کے لئے اختیاری امور ہیں...دین میں کوئی زور زبردستی نہیں" قل الحق من ربکم فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر"(کھف:۲۹) حق اپنی حقانیت کے ساتھ نازل ہو چکا ہے, جو چاہے ایمان لاکر نجات حاصل کرلے , جوچاہے کفر پر راضی رہے اور تباہی وبربادی کو مقدر بنالے!چونکہ اسلام نظریئہ عدل اور قانون انصاف کا قائل ہے, اس لئے ادنی  سے ادنی ظلم بھی اس کی نظر میں عدوانیت, سرکشی اور جاں سوزی کے ہم مثل ہے,اسی لئے دنیا کے تمام ظلم رواں اور عالمی مجرمین اسلام سے کڑھتے ہیں , اپنے ظلم کا بازار گرم رکھنے اور انسانیت کا استحصال جاری رکھنے کے لئے اسلام کا قلع قمع کر دینا چاھتے ہیں...یہی وہ ظلم پسند, انتہا پسند, اور تشدد پسند لوگ ہیں جو عالمی دہشت گردی کے حقیقی ذمہ دار ہیں...کیا اس سے بھی بڑا کوئی ظلم ہو سکتا ہے کہ لوگوں سے انکے گھرچھین لئے جائیں, اگر مظلوم اپنے حق کو بازیافت کرنا چاہے تو اسے دہشت گرد باورکراکر دوہرے ظلم کا نشانہ بنایاجائے..اگر وہ اس پھ مصر ہو تو اسے زندگی سے بھی محروم کردیا جائے,,پھر اسی کے خون سے اسی کی زمین لالہ زار کردی جائے...یہ مظلوم فلسطین کی داستان ہے جو اسرائیلی اور صہیونی دہشت گردی کا  معمولی مظہر ہے" الذین أخرجوا من دیارھم بغیر حق"( حج: ۴۰)اسی جیسے ظالمانہ مقاصد کی باریابی کے لئے یہودی اور صہیونی لابیاں اسلام کو بیخ وبن سے اکھیڑ دینا چاہتے ہیں تاکہ مظلوم کی نصرت ومدد اور ظالم کی گرفت کی آواز اٹھنی بند ہوجائے, اور اپنی زمین ہموار ہوتی رہے... اسی نظریہ کی تکمیل کے لئے اسلامی دہشت گردی کی اصطلاع وضع کی گئی..اسلامو فوبیا کو وجود بخشا گیا..حقیقی ظالموں سے نظر پھیر کر دنیا کی نظر میں اسلام اور مسلمان کو اصل دہشت گرد باور کرایا گیا,اس کے لئے انہوں نے بھولے بھالے مسلم نوجوانوں کو اپنی مکاری سے اپنے دام میں پھنسایا, انکی برین واشنگ کی, انہیں خود کش بمباری کے لئے باضابطہ تیار کیا, انکی جماعت بندی کی گئی, انکے ذہن و فکر کو یہودیت سے بھر دیا گیا, انکے جسم پر ظاہری شکل وصورت مسلمانوں کی سی بنائی گئی, ظاہری خول کے اندر پورا پورا یہود تیار رکھا گیا, تاکہ وہ یہود ساختہ اسلامی دہشت گردی کا عملی نمونہ بن سکیں, اور دنیا کو یہ باور کرانا آسان ہو جائے کہ دہشت گرد کی اصل شکل یہی ہے, عالمی دہشت گردی کا حقیقی ذمہ دار مسلمان ہی ہیں جن کی صورت ان کے چہرے پہ عیاں ہے....ہائے مکاری...دساسی...ہائے انتہا پسندی کہ جس کی حد ہو گئی!زیادہ تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ دنیا ان سب حقائق سے اب تک دانستہ یا نادانستہ آنکھیں موندے وہی رٹ لگائے جارہی ہے جو یہود انکی زبان سے ورد کروانا چاہتا ہے...اس سے بھی زیادہ افسوس ان نام نہاد مسلمانوں پر ہے جو دشمنان اسلام کی ان سب ریشہ دوانائیوں کے شواہد قرآن وحدیث میں تلاشتے ہیں اور خود ہی اپنے خلاف گڑھے گئے جرم کا ثبوت ڈھونڈ نکالنے کی مذموم کوشش کرتے نظر آتے ہیں...!اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سےمسلمانوں  کی کثرت آج سمندر کے جھاگ کی مانند ہے, انکی حقیقت جانوروں کے اس جھنڈ کی طرح ہے جو باہم منتشر ہوں, اور انکا شکار شکاری کے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل جیسا ہو...بعینہ مسلمانان عالم کی بھی اپنی کوئی طاقت نہیں رہ گئی,اب انکے خلاف جو کچھ بھی کیا جائے, وہ روا رہے, وہ جو کچھ بھی کریں, دہشت گردی کہلائے...یہاں تک کہ دہشت گردی ایک ایسا لفظ سمجھ لیا جائے جس کے بولتے سنتے ہی ایک عربی انسان اور مسلم شکل وصورت ذہن ودل میں مرتسم ہوجائے... خواہ اس کا تعلق جس جگھ, جس وقت اور جس پس منظر سے بھی ہو...؟!یہی وہ نقطہ ہے جو عالمی صہیونی کا ہدف ومرام اور مقصد مدام ہے, جس میں وہ پورے طور پر نہیں تو تقریبا پورے کامیاب ہو چکے ہیں..معاملہ بالکل الٹ دیا گیا ہے, تصویر کا رخ بدل دیا گیا ہے, اصل چہرہ اب تک پردہ پوش ہے, جو نظر آرہا ہے, وہ ہو نہیں رہا ہے, جو ہو رہا ہے, وہ نظر نہیں آرہا ہے...!سچ ہے کہ جو اپنے لئے رسوائی کو قبول کرلیتا ہے, غیروں کے لئے ذلت پر راضی رہنا اس کے لئے اور آسان ہوجاتا ہے...!"اللہ المستعان وعلیہ التکلان"

ليست هناك تعليقات: