السبت، يناير 24، 2015

فضول خرچی اور پان

آصف تنویر تیمی


قرآن وحدیث میں فضول خرچی اور اسراف کو ناجائز قرار دیا گیا ہے.اللہ تعالی نے تو ایک جگہ اسراف کرنے والے کو شیطان کا بہائی ٹہرایا ہے.اور پیارے بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع سے ارشاد فرمایا:"اگر تم بہتے چشمہ کے پاس بہی ہو تو پانی کم بہاو".اور یہ حکم ایک نیک اور مباح عمل وضوء کے تعلق سے دیا، تو ایسے اعمال کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے جو سراسر حرام یا ناجائز ہوں،یقینا یہ قابل غور بات ہے.
آئیے اب ذرا اپنے گہر سے نکلیں اور اپنے اور اپنے بہائیوں کی فضول خرچیوں کا جائزہ لیں.

سورج اپنی لالی کے ساتہہ رات کی تاریکی کے بعد روشن ہونا چاہتا ہے، لوگ اپنے بستروں سے اٹہہ رہے ہیں، کسی کی زبان پر کلمہ ہے، کسی کی زبان پر گالی تو کوئی گانے اور صبح کی عالمی خبروں سے اپنے جنرل نالج میں اضافہ کرنا چاہتا ہے.صبح کی روشنی میں تو سب نہارہے ہیں، مگر بہ حیثیت مسلمان عمل میں فرق سب کے ہے.فجر کی نماز کی بات تو میں نے اس لیے نہیں کہی کہ ڈر ہے کہ کہیں میرا بہی نام اس بلیک لسٹ میں نہ آجائے.ایسے بہت کم اللہ والے ہیں جو اپنی صبح کا آغاز فجر کی باجماعت نماز سے کرتے ہیں، اور ان کا نام اللہ کے حضور پیش کیا جاتا ہے.

خیر یہ باتیں تو ہم سب اپنے میاں مولوی صاحب سے بلاناغہ جمعہ اور دیگر دینی محفلوں میں سنتے رہتے ہیں.اور ان بے چاروں کا کام بہی اس کے علاوہ کیا ہے، ان سے کہانا بہی کہاتے ہیں اور ضرورت پڑی تو گالیوں کا سوغات بہی ملتا ہے.بہائی آپ مولوی برادری کو مظلوم مانیں یا نا مانیں لیکن میں تو آئندہ اسمبلی الیکشن میں اس کو اپنا مدعا ضرور بناوں گا ہوسکتا ہے، میں اس کے ذریعہ پارلیمنٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاوں.اور ویسے بہی ہماری برادری کے بہت سارے لوگ سیاست کی سیڑہیوں پر پہلے سے موجود ہیں.

اوہ! میں بہی کہاں سے کہاں چلاگیا، بات تو گئی ہی، مگر آپ بہی کتنے بہولے بہالے اور کتنے پورانے ہیں کہ میرے ساتہہ خاموشی سے اب تک لگے ہوئے ہیں.

خیر صبح ہوئی اگرچہ دیر سے ہوئی، یہ میاں کالو سویرے سویرے اپنے کلے میں پان دبائے نکلے چلے آرہے ہیں، موسم تو ٹہنڈی کا ہے ہی، شال وسویٹر میں ڈہکے چہپے اپنے منہ کی سرخی سے سورج کی سرخی کو مات دینا چاہتے ہیں.کلی پر کلی کررہے ہیں، ان کے پان کے شوق نے زمیں کے ایک حصے کو بدنما کردیا ہے، ان کے چہینٹوں سے کئی کے کپڑے خراب ہوچکے ہیں، ان کے منہ اور دانٹ کا تو مت پوچہئے رات کی سیاہی بہی اس کے سامنے پہیکی ہے، پیسے اور وقت کا نقصان اس کا اعتراف تو چچا کالو بہی کرتے ہیں.پان کی بہی مختلف قسمیں ہیں جیسے بازار میں انواع واقسام کی سبزیاں ملتی ہیں اسی طرح پنواڑی کے پاس پان اور اس کے مصالحے، یہ نشہ آور پان ہے، یہ سادہ پان ہے، یہ اس کی جڑی بوٹیاں ہیں،جڑی بوٹیاں اس تعداد میں ہین کہ اگر میرے جیسا کمزور حافظے کا کوئی طالب اس کے حفظ کا امتحان دے تو فیل ہوجائے اور دنیائے پان سے بے دخل کردیا جائے (ویسے پہلے سے ہی اس سے محرومی کا غم برداشت کررہا ہوں).

پان کی قیمت کی راز افشا نہیں کروں ورنہ ہوسکتا ہے پان والوں کے گہر انکم ٹکس آفیسر کل صبح ہی پہنچ جائے، اور ٹکس کا مطالبہ کر بیٹہے.پانچ روپئے میں نارمل پان ہے، جس کو غریبوں کا پان کہا جاتا ہے، اس کے آگے کی کوئی حد نہیں پانچ پانچ سو روپئے کا بہی پان موجود ہے.پہر بہی لوگوں نے کہا دکان پر بہیڑ ہوتی ہے، لوگ اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں.

اگر آپ مجہہ جیسے کم علم سے یہ سوال کریں کہ جناب آپ تو پان کہاتے ہی نہیں پہر اس کی اتنی تفصیل کیسے معلوم ہے؟ اور اس کے فوائد کیا ہیں آپ کو کیا پتہ؟ تو جناب! اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ آج تک میں نے کوئی ایسی کتاب، مضمون، کوئی تقریر ایسی نہیں سنی جس میں مقرر، مصنف اور کسی مضمون نگار نے پان کی فضیلت وافادیت کو بیان کیا ہو، اگر واقعی اس کے کوئی خوبی ہوتی تو کہیں تو کچہہ ہوتا.

تو عقلمندی اسی میں کہ ہم اپنے پان کا پیسہ بچا کر کسی رفاہی تنظیم کو دیں جس سے ہماری دنیا بہی سنورے اور آخرت میں بہی کام آئے.

ليست هناك تعليقات: