السبت، أغسطس 30، 2014

غزل



ساگر تیمی
دن نہ آے مگر رات بدل سکتی ہے
روشنی گاؤں کے حالات بدل سکتی ہے
ميں نے مانا کہ تیرے حسن میں حدت ہے بہت
سوچ کیا یہ میرے جذبات بدل سکتی ہے
اتنی روشن بھی نہیں تیرے مقدر کی لکیر
وہم مت پال کہ اوقات بدل سکتی ہے
کچھ عجب رشتہ ہے قربت سے وفاداری کا
تھام لے ورنہ وہ سوغات بدل سکتی ہے 
یہ خبر تھی کہ تیرا نام تو رسوا ہوگا
کب خبر تھی کہ تیری ذات بدل سکتی ہے
تھی اکڑ اس کی دولہا کار ہی لے گا پہلے
دلہن بولی کہ یہ بارات بدل سکتی ہے
موت جب کھول کے جبڑے چلی آئی ساگر
زندگی بول چلی ، ساتھ بدل سکتی ہے
L

ليست هناك تعليقات: