السبت، أغسطس 09، 2014

"سدا ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ"

 اردو قالب:سیف الرحمان حفظ الرحمان تیمی

۱-نماز عید کے لئے پاکی صفائی کا اہتمام اور نئے ونفیس کپڑوں کا التزام:امام مالک نے مؤطا میں حضرت نافع سے روایت کیا ہے این عمر رضی اللہ عنہ عید الفطر کے دن عیدگاہ جانے سے پہلے غسل کیا کرتے تھے"(اسکی سند صحیح ہے)
ابن قیم رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:این عمر جو سنت کی پیروی میں شدت سے کام لیتے تھے ,ان سے ثابت ہے کہ وہ عید کے دن عیدگاہ جانے سے پہلے غسل کرتے تھے"
ابن حجر لکھتے ہیں:ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے صحیح سند سے روایت کیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ عید کے روز نفیس ترین لباس زیب تن کیا کرتے تھے"(فتح الباری)
۲-عبد الفطر کی نماز کے لئے  نکلنے سے پہلے چند(۳ یا ۵) طاق کھجور کھانا مسنون ہے:حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت  اسکا بین ثبوت ہے "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے روز بغیر کھجور کھائے ہوئے نہیں نکلتے تھے,اور آپ بے جوڑ کھجورکھاتے تھے"(بخاری)
۳-عید کے روز (جہری آواز میں مردوں اور سری آواز میں عورتوں کے لئے)اللہ اکبر اللہ اکبر کی ندا لگانا سنت ہے,گھر سے نکلتے ہوئے تکبیر پڑھنی شروع کی جائیگی اور عید گاہ پہنچنے تک اس کا ورد کیا جائیگا,اس سلسلے میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہماری رہنمائی کرتی ہے:نبی صلی اللہ علیہ  وسلم عیدین کے لئے جب نکلتے تو بلند آواز سے تکبیر وتہلیل (اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الااللہ.....)پڑھا کرتے تھے (صحیح)
حضرت نافع سے مروی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ جب عید الفطر اورعید الأضحی کو عیدگاہ کے لئے نکلتے تو بلند آواز سے تکبیر پڑھتے ہوئے نکلتے,جب عیدگاہ پہنچ جاتے تب بھی یہ عمل جاری رھتا یہاں تک کہ امام تشریف لاتے اور جماعت کھڑی ہوتی (اسے دارقطنی نے صحیح سند سے روایت کیا ہے)
ابن مسعود سے تکبیر کے جوکلمات اور صیغے منقول ہیں ,وہ اس طرح ہیں:اللہ أکبر,اللھ أکبر,لا إلہ إلا اللہ,واللہ أکبر,اللہ أکبر,وللہ الحمد" (ابن أبی شیبۃ نے اسے صحیح سند سے روایت کیا ہے)
۴-مسنون طریقہ یہ ہے کہ انسان عیدگاہ کے لئے پاؤں پیدل جائے,حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے,وہ گویا ہیں:عید گاہ کے لئے پاؤں پیدل جانا سنت ہے"(ترمذی, حسن بشواھدہ)
۵-یہ بھی نبوی طریقہ ہے کہ عیدگاہ جس راستے جائیں , لوٹتے ہوئے وہ راستہ بدل لیں,حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید کے روز راستہ بدل کے آتے جاتے تھے"(بخاری)
۶-سورج طلوع ہوکر جب بلند ہوجائے تب عید کی نماز ادا کرنا مشروع ہے,نماز عید کے لئے نہ تو اذان دی جائیگی اور نہ ہی اقامت کہی جائیگی,عید کی نماز دورکعتیں ہیں,پہلی رکعت میں سات تکبیرات اور دوسری میں پانچ تکبیرات پڑھی جائینگی,سنت ہے کہ امام جہری قراءت کے ساتھ پہلی رکعت میں سورئہ اعلی اوردوسری رکعت میں سورئہ غاشیہ کی تلاوت کرے, یا پہلی رکعت میں سورئہ ق اور دوسری میں سورۃ القمر پڑھے, عیدین کا خطبہ نماز کے بعد دیا جانا مسنون اور مشروع ہے ,نیز عورتوں کا عیدگاہ آنا متاکد طور پر ثابت ہے,دلائل حسب ذیل ہیں:
۱-اما عائشہ فرماتی ہیں:نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر عید الأضحی کی نمازوں میں پہلی رکعت کے اندر سات اور دوسری میں پانچ تکبیرات پڑھاکرتے تھے( ابوداؤد نے حسن سند سے روایت کیا ہے)
۲-نعمان بن بشیر سے مروی ہے کہ: آپ صلی اللہ علی وسلم عیدین میں سورئہ اعلی اور سورئہ غاشیہ کی تلاوت فرماتے تھے"(مسلم)
۳-عبید اللہ بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ عمر بن الخطاب نے ابوواقد اللیثی سے دریافت کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عیدین کی نماز میں کیا پڑھا تے تھے؟تو انھوں نے نے کہا:آپ عیدین میں "ق والقرآن المجید" اور "اقتربت الساعۃ وانشق القمر" کی تلاوت فرماتے تھے"(مسلم)
۴- ابن عطیہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں :ہمیں عیدگاہ جانے کا حکم دیا جاتا تھا ,چنانچہ آزاد, غلام اور کنواری سب کے سب عید گاہ جاتی تھیں , حیض والی عورتیں بھی مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ جاضر ہوتیں اورانکی دعائوں میں شریک رھتیں,تاہم وہ عید گاہ سے الگ رہتی تھیں"(بخاری ومسلم)
۵-ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے نبی پاک,ابو بکر,عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ عید الفطر کا دوگانہ اداکیا , وہ سب کے سب خطبہ سے پہلے نماز ادا کرتے تھر"(مسلم)
۷-جب عید اورجمعہ ایک ساتھ جمع ہو جائیں تو عید کی نماز پڑھنے والے سے جمعہ کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے,ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا :آج کے دن دو عیدیں جمع ہو گئیں ہیں , جو چاہے اس کے لئے عید کی نماز ہی جمع کے لئے بھی کافی ہے, اور ہم عید اور جمعہ دونوں ادا کرینگے انشاء اللہ"(ابن ماجہ نے اسے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے)
۸-جب زوال(جس وقت سورج بالکل سر کے اوپر معلوم ہو) کے وقت لوگوں کو معلوم ہو کہ کل گزشتہ ہی ہلال عید نمودار ہوچکا ہے اور آج ہی روز عید ہے تو ایسی صورت میں اگلے دن صبح دم عید کا دوگانہ ادا کیا جائیگا,سنن اربعہ اور سنن بیہقی کی روایت ہے کہ ایک قافلہ آپ کے حضور حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ہم نے کل عید کا چاند دیکھ لیا ہے,تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ روزہ توڑلیں اور کل جب صبح کریں تو عیدگاہ تشریف لے جائیں"
۹-عید کے دن باہم گلا گیر ہو کر ایک دوسرے کو یہ دعا دینا چاہئے کہ"تقبل اللہ منا ومنک"(اللہ ہمارے اورآپ کے اعمال کو قبول فرمائے),محمد بن زیاد کی روایت ہے کہ میں ابو امامہ باہلی اور دیگر صحابہ کے ہمراہ تھا , وہ جب عیدگاہ سے لوٹتے تو ایک دوسرے پر یہ گلدستہ دعا نچھاور کرتے جاتے "تقبل اللہ منا ومنک" (امام احمد نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے)
۱۰-روز عید دراصل روز سعید ہے,روز مسرت وشادمانی اور روز وسعت وفراخی ہے,حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے نزدیک سال کے دودن ایسے تھے جن میں وہ کھیل کود کیا کرتے تھے,آپ نے دریافت کیا :یہ دودن کیسے ہیں؟انہوں نے جواب دیا:ان دنوں کے اندر ہم زمانہ جاہلیت میں لہو ولعب کیا کرتے تھے"آپ گویا ہوئے:اللہ نے تمہیں انکے بدلے ان سے بہتر دو دن عطا کئے ہیں: عیدالأضحی اور عید الفطر"(امام احمد نے اسے صحیح سند سے روایت کیا ہے)
۱۱-برادران اسلام!شریعت کی مخالفت اور دین کی خلاف ورزی سے آگاہ اور متنبہ  رہئے,کیونکہ عید کی خوشی میں کچھ لوگ اس قدر بدمست ہوتے ہیں کہ انہیں حلال وحرام تک کی تمیز نہیں رہتی اور لباس وٍپوشاک اور خوردونوش ہر طرح سے معصیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں , ایسے لوگوں کے لئے عید روز سعید نہیں روز وعید قرار پاتی ہے,یہ لوگ اظہار مسرت میں اس قدر مبالغہ کے شکار ہوتے ہیں شرعی حدود اور مذہبی قیود کی ذرا بھی پرواہ باقی نہیں رہتی,میوزک بازی,اختلاط مردوزن , خواتین کی حسن نمائی,رقص وسرود,شراب وکباب اور طاؤس ورباب کی محفلیں یہ سب ایسے جذباتی جارئم ہیں جنکا انسان خوشی کے مواقع پر ہی عموما مرتکب ہوتا ہے,اس لئے :

کر بلبل وطاؤس کی تقلید سے توبہ

بلبل فقط آواز ہے طاؤس فقط رنگ
اور یہ کہ:
خزاں ہو کہ بہار
سدا ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ



ليست هناك تعليقات: