الاثنين، سبتمبر 01، 2014

غزل


ساگر تیمی

ہو ا ہے تیز تو پھر کیا ہوا ہوا ہی تو ہے
خفا ہے  کیا ہوا محبوب کی جفا ہی تو ہے
بھڑکنا ٹھیک نہیں ہے ،نہیں بہتر ہے نو میدی
سزا ہے کیا ہوا ، کٹ جائیگی ، سزا ہی تو ہے
کسی کو آج بھی امید ہے دعا دینگے
بخیلی چھوڑیے ، دیجے دعا ، دعا ہی تو ہے
یہی کچھ کم نہیں آنکھوں میں ہے حیا باقی
قبول کیجیے ، حسن نظر ، حیا ہی تو ہے
زباں ہے اور ہے قوت کہ بولتے جائيں
مٹےگا  ظلم کہ قوت یہی صدا ہی تو ہے
اٹھاکے پھینک دی شیشی غریب بچے نے
دوا کیا کروں ، اہل نظر ، دوا ہی تو ہے
مگر اک آپ ہيں ساگر کہ چپ نہيں رہتے
بہت مت بولیے باتوں  کا کیا ، نوا ہی تو ہے


ليست هناك تعليقات: