الاثنين، سبتمبر 08، 2014

القاعدہ ، مسلمان اور ہندوستان
ثناءاللہ صادق تیمی ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی
    آئے دن ایسی خبریں اور واقعات لگاتار رونما ہورہے ہيں جن سے امت مسلمہ کی بے چین اور ڈانواڈول زندگی میں اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔ کبھی بوکو حرام کا مسئلہ سامنے آتا ہے تو کبھی داعش کی فتنہ پروری ، کبھی انڈین مجاہدین کا شوشہ تو کبھی القاعدہ کی بربریت ۔ اور ان سب کے سامنے آنے سے اور کچھ تو نہيں ہوتا ہاں اس امت کی شبیہ بگڑتی ہے ۔ سیدھے سادھے مسلمانوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنی پڑتی ہے ۔ دینی اور دعوتی سرگرمیوں کے لیے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں ۔ دنیا ایک خاص مشتبہ اور مشکوک نگاہوں سے مسلمانوں کودیھکنے لگتی ہے اور پوری امت خوف کی نفسیات کا شکار ہو جاتی ہے ۔
     القاعدہ کو عالمی سطح پر ایک شدت پسند اور دہشت گرد تنظیم کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد سے لے کر اب تک یہ تنظیم بطور خاص عتاب کا شکار رہی ہے اور عالمی سطح پر دہشت کی کاروائیوں کے سرے اس سے جوڑے گئے ہیں ۔ اس قسم کے بعض اقدامات کو اس نے خود بھی اپنا کارنامہ مانا ہے ۔ ایسے جب پوری دنیا میں دہشت گردی اور اسلام کو ایک ساتھ ملا کر دیکھا گیا ہے تب بھی عام طور سے یہ بات مانی گئی ہے اور اسے سراہا بھی گيا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان دہشت گردانہ تنظیموں سے رابطہ نہيں رکھتے ۔ یہ امن پسند اور صلح جو ہیں اور ہندوستان کی مشترکہ تہذيب اور رواداری کے اصولوں کو مضبوط کرتے ہيں ۔ ایسے میں ابھی جب القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی طرف سے ایک ویڈیو جاری کیا گیا ہے اور اس کے اندر یہ دھمکی دی گئی ہے کہ القاعدہ ہندوستان کے مختلف صوبوں بشمول گجرات میں اپنی شاخ کھولے گا اور اب ہندوستان کو باضابطہ ٹارگیٹ کرے گا تو عالمی سطح پر ایک پریشانی کی کیفیت دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ ملک عزیز کے سمجھدار لوگوں نے حکومت کو چوکسی برتنے اور خفیہ ایجنسیوں کو پوری طرح ہوشیار رہنے کے مشورے دینے شروع کردیۓ ہیں ۔ حکومت نے بھی اس مسئلے کو بڑی سنجیدگی سے لیا ہے اور لگ بھگ کاروائی شروع ہوگئی ہے ۔ اس بیچ اس دھمکی کے آنے کے فورا بعد ہندوستانی مسلمانوں کے سب سے بڑے دینی مرکز دیوبند نے کڑے لفظوں میں اس کی مذمت کی ہے اور یہ کہا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان القاعدہ کے ذریعہ پھیلائی گئي گمراہیوں کے شکار نہیں ہونگے ۔
  اس سلسلے میں ہندوستان کے لیڈنگ نیوز پیپرز نے اس کو اپنے ایڈیٹوریل کا موضوع بنایا ہے اور لگ بھگ سارے معتبر انگریزی کے اخبارات نے جہاں اس دھمکی کو سنجیدگی سے لینے کی بات کہی ہے وہيں حکومت اور خفیہ ایجینسیوں سے یہ گزارش بھی کی ہے کہ دیش کے ایک خاص طبقہ ( ظاہر ہے کہ ان کا اشارہ مسلمانوں کی طرف ہے ) کو اس معاملے میں ناجائز طور پر نہ گھسیٹا جائے ۔ اس بات کا خاص خیال رکھاجائے کہ کوئی بے گناہ نہ پھنس جائے ۔ اس اعلان کے بعد ملک کے مسلمانوں کے اندر بطور خاص سراسمیگی پائی جارہی ہے ۔ ظاہر ہے کہ ان کے اس خوف کو بے وجہ بھی نہیں قراردیا جا سکتا ۔ پچھلے کئی سالوں کے تجربات ہندوستانی میڈیا ، خفیہ ایجینسی اور پولیس محکمہ کے  متعصب رویے کی چغلی کھاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں اب تک لے دے کر ایک عدلیہ کا ہی معاملہ تھوڑا بہت تشفی بخش نظر آتا ہے جہاں سے مسلمانوں کو انصاف کی امید بھی رہتی ہے اور وہ عدلیہ کی طرف اسی نگاہ سے دیکھتے بھی ہیں ۔
   مسلمانوں کے اندر خوف اس لیے بھی تھوڑا زيادہ گہرایا ہوا ہے کہ ابھی مرکز میں آرایس ایس کے زير نگرانی چل رہی بی جے پی کی حکومت ہے جو عام حالات میں مسلمانوں کے بارے میں بہت اچھے خیالات کی حامل نہیں سمجھی جاتی ۔ نریند مودی کی قیادت میں چل رہی موجودہ حکومت نے جہاں مختلف ممالک سے تعلقات قائم کرنے اور اقتصادی صورت حال کو بہتر بنانے کی سمت کچھ اچھے اقدامات کیے ہیں وہيں یوگی آدتیاناتھ جیسے متنازع فیہ لیڈر اور امت شاہ جیسے ملزمین کو پارٹی میں معمول سے زیادہ اہمیت دے کر ملک کی اقلیت کو عجیب و غریب قسم کی پریشانی میں ڈال دیا ہے ۔ یوپی کے اندر جس طرح سے لو جہاد کا شوشہ چھوڑا جارہا ہے اور پورے ملک کو فرقہ وارانہ خطوط پہ جس طرح بانٹنے کی کوشش ہورہی ہے اس نے ملک کے سیکولر اور سمجھدار طبقہ کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے ۔ ہر چند کہ بی جے پی نے لو جہاد کے ایشو کو باضابطہ طور پر اپنے ایجینڈا میں شامل نہيں کیا ہے لیکن ایک خاص طبقے کی طرف سے ایک خاص کمیونٹی کی لڑکیوں کو پھانسنے جیسی بات در اصل لو جہاد کی اصطلاح سے بچنے کے لیے ہی کہی گئی ہے ورنہ پارٹی کے ایجینڈے میں کوئی فرق نہيں آیا ہے ۔ پورے دیش میں بڑھ رہے فرقہ وارانہ جنون پر وزیر اعظم مودی کی خاموشی بھی کافی معنی خیز ہو تی جارہی ہے ۔ سیکولرزم کی بجائے ہندوستانی پارلیمنٹ سے اس آواز کا بلند ہونا کہ ہندتوا اس دیش کی پہچان اور فخر ہے ، کم بڑی تشویشنا ک صورت حال کا غماز نہیں ۔ اس پر سے بھارتی جنتا پارٹی کے سربراہ امت شاہ کا یہ بیان بھی پارٹی کے کئی خفیہ ارادوں کی قلعی کھولتا ہے کہ اگر یوپی میں فرقہ وارانہ صورت حال اسی طرح برقرار رہی تو آئندہ حکومت ان کی ہی بنے گی ۔
اس پوری صورت حال میں اگر القاعدہ کی طرف سے اس قسم کا کوئی ویڈیو جاری کیا جاتا ہے جس کے اندر اس ملک کے امن و امن کو سبوتاژ کرنے کی بات کہی جاتی ہے تو اسے کئی زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت کا احساس ہونے لگتا ہے ۔ ہر باشعور آدمی جانتا ہے کہ اس قسم کے واقعات کے بعد ہنوستان کے کمزور ، بے بس اور بے گناہ مسلم نوجوان پر ہی غازہ گرتا ہے ۔ اس لیے اگر سے عالمی صہیونی شازش کے طور پر اگر کچھ لوگ دیکھ رہے ہیں تو اسے اتنا بعید ازقیاس بھی نہیں کہا جاسکتا ۔ جبکہ یہ معلوم بات ہے کہ ہندوستان کے شدت پسند فسطائی طاقتوں کا صہیونیوں کے ساتھ سانٹھ گانٹھ بھی رہا ہے اور ایسا کرکے کئی سارے صوبوں میں اقلیت کے خلاف اکثریت کا ووٹ حاصل کیا جاسکتا ہے جس کا ایک تجربہ حالیہ لوک سبھا انتخابات میں ہو بھی چکا ہے ۔
اس انتہائی گمبھیر صورت حال میں جہاں حکومت کی حکمت عملی بہت اہمیت رکھتی ہے وہیں امت کے باشعور اور سربرآوردہ طبقے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جہاں نوجوانوں کے اندر سے خوف کی نفسیات کو کھرچنے کی کوشش کریں وہيں ایسے تعمیری اقدامات بھی کریں جن سے پیشگی طور پر امت کے افراد کو ان منحرف افکار و خیالات کے مالک آرگنائزیشنس سے بچایا جاسکے ۔ وہیں پوری جوانمردی اور مکمل اعتماد کے ساتھ کسی بھی قسم کے  غیر منصفانہ رویے کے مقابلہ کے لیے  ملک کے جمہوری اور سیکولر ڈھانچے کے مطابق خود کو تیار رکھیں ۔ یاد رہے کہ اقلیتوں کو اپنی شناخت ، حقوق اور وجود کی حفاظت کے لے نہ ختم ہونے والی جد و جہد کرنی ہی پڑتی ہے ۔ ہميں اللہ سے دعا بھی کرنی چاہیے کہ اللہ اس ملک کے امن و امان کو قائم رکھے ۔ دہشت پسندوں کے برے ارادوں پر پانی پھیرے اور عالمی سطح پر پریشان امت مرحومہ کی حفاظت کا سامان کرے آمین ۔





ليست هناك تعليقات: