الاثنين، سبتمبر 15، 2014

سیاست کیجیے لیکن سنبھل کر
ثناءاللہ صادق تیمی ، ریسرچ اسکالر جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی
   اناؤ سے لوک سبھا کے ممبر پارلیامنٹ جناب ساکشی مہاراج نے الزام لگایا ہے کہ مدارس کے اندر صرف دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ اگر یہ مدارس حب الوطنی سکھاتے ہیں تو ان پر ترنگا کیوں نہیں لہرایا جاتا ؟ ساتھ ہی انہوں نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ ہے لو جہاد کے لیے مسلم ممالک یہاں کے نوجوانوں کو مالی مدد فراہم کرتے ہیں ۔ انہوں نے تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ سکھ لڑکیوں سے شادی کرنے کے لیے 11 لاکھ روپے ، ہندو لڑکی سے شادی کرنے کے لیے 10 لاکھ روپیے ، جین لڑکیوں سے شادی کرنے کے لیے 8 لاکھ روپیے اور دیگر برادری کی لڑکیوں سے شادی کرنے کے لیے 6 لاکھ روپیے دیئے  جاتے ہیں ۔
   ابھی یوپی کی صورت حال انتہائي درجے میں پریشان کن ہے ۔ پورا ملک بالعموم اور اترپردیش بالخصوص آگ کے شعلوں پر کھڑا ہے ۔ بی جے پی کے بڑے بڑے نیتا گمراہ کن اور بھڑکیلے بیان داغ رہے ہيں ۔ ان کو معلوم ہے کہ اسی طرح سے ووٹ حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ ووٹ کی اس سیاست میں البتہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی بولتی نہ جانے کیوں پوری طرح بند ہے ۔ ہمارے دیش کے نئے وزیر اعظم جنہیں اپنے بارے میں ایک پر ایک خوش گمانیاں ہيں ،اچھے دن لانے والے  وکاش پرش اس پوری صورت حال پر نہایت سمجھداری سے خاموشی کی چادر تانے ہوئے ہيں ۔ لیکن یہ کس کو معلوم ہے کہ کل کے پیٹ میں کس کے لیے کیا مقدر ہے ۔ اقتدار کا نشہ اتنا بھی نہ چھاجائے کہ آدمی آدمی ہی نہ بچے ۔
اس سے پہلے مرکز میں جب بی جے پی کی حکومت تھی تب اس وقت کے وزیر خارجہ ایل کے اڈوانی، جنہیں آج کل کسی قابل نہیں سمجھا جاتا ، نے بھی مدارس کو اپنے گمراہ کن اور لچر تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اپنی ساری مکارانہ سیاست کے باوجود مدارس کا کچھ بگاڑ نہیں پائے تھے ۔ بی جے پی کے لوگوں کو شاید یہ بات نہیں معلوم کہ اگر مدارس دہشت گردی کے اڈے ہوتے تو پھر اس پورے ملک کا کیا ہوتا ! ساکشی مہاراج اگر ایک دن بھی ایک مدرسے کے اندر چلے جائیں اور وہاں کچھ پڑھ لکھ نہ بھی سکیں صرف وہاں کے ربانی اور روحانی ماحول ، پدارنہ شفقت ، بے مثال محبت اور انسانیت نوازي کا مشاہدہ کرلیں اور ان کے سینے میں دل بھی ہو تومارے شرم کے پانی پانی ہو جائیں کہ انہوں نے کیا کچھ کہ دیا لیکن سوال تو یہی ہے نا کہ نفرت کی سیاست کرنے والوں کے سینے میں دل ہوتا کب ہے ؟ کل اڈوانی جی بھی جانتے تھے اور آج ساکشی مہاراج اور دوسرے وہ نیتا بھی جانتے ہیں جو نفرت اور تفریق کی سیاست کرتے ہیں کہ مدارس کی چہار دیواری میں  قرآن وسنت کی تعلیم دی جاتی ہے ، انسانیت نوازی اور صبر و تحمل کے اسباق پڑھائے جاتے ہیں ، خدمت خلق کی ٹریننگ دی جاتی ہے ، ایمانداری اور صالح اقدار سے بچوں کو لیس کیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت کے اظہار سے تو سیاست کا چولہا بجھ جائےگا اور  اقتدار کا لڈو مل نہيں پائے گا تو سچ کا اظہار کیوں کیا جائے ؟
         ساکشی مہاراج کے بیان کے اوپر مولانا خالد رشید فرنگی محلی کا بیان آيا ہے کہ مہاراج کو تاریخ نہیں معلوم ورنہ ہندوستان کو آزاد کرانے والے ہمارے پروجوں میں بہت سے  علماء شامل تھے جو انہيں مدارس کے تربیت یافتہ تھے ۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر مدارس کے خوشہ چیں علماء آزادی کی لڑائی میں اپنی جانوں کا نذرانہ نہ بھی پیش کیے ہوتے تو بھی کیا مدارس کو یوں ہی دہشت گردی کے اڈوں سے موسوم کرنا جائز ہو جاتا ؟ مدارس کے خوشہ چینوں نے نہ صرف یہ کہ ملک کو آزاد کرایا ہے بلکہ پورے دیش کے سیکولر مزاج کو برقرار رکھنے میں بھی اپنی پوری حصہ داری نبھائی ہے ۔ ہندوستان کے لگ بھگ تمام کے تمام مدارس عوامی چندوں کے سہارے بغیر کسی حکومتی مدد کے چلتے ہیں اور سماج کے غریب، ناداراور بے بس بچوں کی تعلیم وتربیت کا انتظام کرتے ہیں جس کی ذمہ داری ظاہرہے کہ حکومت کی ہے ۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو مدارس کتنی بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ دیش کی بھی اور دیش کی ترقی کے راستے کھولنے کے معاملے میں بھی ۔ ایسے مجھے ذاتی طور پر ساکشی مہاراج کے اس بیان پر ہنسی ہی آئی کہ اگر مدارس کے اندر حب الوطنی کی تعلیم دی جاتی ہے تو ان میں ترنگے کیوں نہیں لہرائے جاتے ؟ میں خود ایک مدرسے کا فارغ ہوں ۔ مجھے آج تک ایک بھی مدرسہ نہيں ملا جہاں پندرہ اگست اور چھبیس جنوری کے موقع سے ترنگا نہ لہرایا جاتاہو اور سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا اور جن من گن کے نغمے  فضائے بسیط میں نہ گونجتے ہوں ۔
    بی جے پی کے راج نیتا بھولتے جارہے ہيں کہ نفرت کی سیاست سے کرسی تو مل سکتی ہے لیکن دیش کا امن غارت ہو جائےگا اور امن و امان کے غارت ہونے کے بعد نہ صرف یہ کہ دیش کی ترقی رکتی ہے بلکہ دیش واسی کی زندگیاں بھی جہنم کا نمونہ بن جاتی ہيں ۔ اتنے سارے مذاہب ، زبانیں اور علاقے والے ملک میں لوگ اگر ایک دوسرے سے ملتے جلتے اور ایک دوسرے کے دین کا احترام کرتے ہيں تو اس کے پیچھے بلاشبہ ہمارے آباءو اجداد کی وہ حکمت پوشیدہ ہے جو انہوں نے اس دیش کو جمہوی اور سیکولر بنا کردکھلایا تھا ۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ اس دیش کو اصل خطرہ اقلیت کی انتہا پسندی سے نہیں اکثریت کی انتہا پسندی سے لاحق ہے ۔ بی جے پی کے راج نیتا آرایس ایس کی رہنمائی میں جس قسم کی سیاست کررہے ہيں اس سے پنڈت نہرو کے خدشات حقیقت کی طرف تیزي سے قدم بڑھانے لگے ہیں ۔ اس طرح کی سیاست نہ تو بی جے پی کے حق میں ہے اور نہ دیش کے حق میں ۔ عوام نے نریندر مودی کی قیادت کواس لیے بھی قبول کیا ہے کہ انہوں نے ترقی اور شفافیت کا وعدہ کیا تھا ، لوگ کانگریس سے اوب چکے تھے اور کوئی دوسرا ملکی پیمانے پر متبادل بھی نہيں تھا ۔ ظلم ، افواہ اور تشہیر کی سیاست پائیدار نہيں ہو سکتی ۔ بی جے پی بھی اس حقیقت کو جتنی جلدی سمجھ لے اس کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا ۔ مجھے نہيں معلوم کہ اس بات کو کتنے لوگ سچ سمجھینگے یا تسلیم کرینگے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستانی عوام کی اکثریت امن پسند اور آپس میں محبت کرنے والی ہے ۔ اس ملک کی مٹی میں رواداری ، محبت اور احترام باہم کی خوشبو ملی ہوئی ہے اور یہاں کا پورا تاریخی اثاثہ یہی بتاتا ہے کہ غیر جمہوری ، نفرت خیزاور اشتعال انگیز سیاست وقتی طور پر تھوڑا بہت کامیاب تو سکتی ہے لیکن وہ پائیدار نہيں ہو سکتی ۔ مجھے اپنا ہی شعر یاد آتا ہے ۔

سیاست کیجیے لیکن سنبھل کر

کہيں یہ ملک ہی نہ ڈوب جائے 

ليست هناك تعليقات: