الخميس، سبتمبر 11، 2014

وضاحتی اور تریدی بیان : ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

                   تحرير:ڈاکٹرعلی بن عبد العزیز شبل                    
اردو قالب: سیف الرحمان تیمی
مملکت  سعودی عربیہ، جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ   
                        
الحمد لله وحده , وصلى الله وسلم على نبينا ورسولنا محمد , سيد الأنبياء والمرسلين وخليل رب العالمين , وعلى آله وصحبه أجمعين , وبعد :

غلط ,جھوٹ اور افتراپردازی پر مشتمل اس زعم باطل کا یھ ایک اضافی,وضاحتی اور تردیدی بیان ہے جسے میرے حوالے سے بعض ذرائع ابلاغ میں نشر کیا گیا ہے کہ میں نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمبارک کو منتقل کیا جائے,حجرات مبارکہ کو منہدم کرکے ختم کردیا جائے,اور آپ کے جسد اطہر کو دوسری جگہ مدفون کیا جائے....اس کے علاوہ ان تمام غلط بیانیوں , افتراپردازیوں اور کذب تراشیوں کی یہ وضاحتی تحریر ہے جسے غلط اور باطل طریقے سے میری طرف منسوب کیا گیا ہے- اس مقام پر میں اللہ سے مدد کا خواستگار ہوں اور اس سے ہدایت ودرستگی اور توفیق وراست روی کا طلبگار ہوں:
1-میرے حوالے سے ان ذرائع ابلاغ میں جو کچھ بھی نشر کیا گیا ہے وہ محض جھوٹ,افترا , گمراہی اور تراشیدہ بہتان ہے,میں اس سے اللہ کے حضوربراءت  کا اظہارکرتا ہوں, اور وہی کہتا ہوں جو اللہ نے خود فرمایا ہے:ولولا اذ سمعتموہ قلتم ما یکون لنا ان نتکلم بھذا سبحانک ھذا بھتان عظیم"(النور:16) کہ جب تم نے وہ خبر سنی تو تم نے کیوں نہیں کہا کہ ہمارے لئے زیبا نہیں کہ ہم ایسی بات کریں,اللہ کی ذات پاک ہے, یہ تو بڑا بہتان ہے-
2-اس بہتان کو گڑھنے والے اور اس کے جھوٹے مصادر کی بابت جو کچھ بھی برطانوی اخبار"انڈپنڈنٹ" میں آیا ہے, وہ بھی لغو وباطل گفتگو ہے,فاسد اور بےسود مضمون ہے,اور ایسے مفہوم ومعنی (پر مشتمل ہے )جس سے حرمین شریفین,بطور خاص مسجد نبوی , آپ کے حجرات طیبہ, سنت مبارکہ اور شریعت مطہرہ کے خلاف گندے مقاصد اور مذموم عزائم پر روشنی پڑتی ہے-
3-اللہ کے جس (پسندیدہ) دین کے ہم پیروکار ہیں ,(وہ ہمیں یہ عقیدہ سکھاتا ہے کہ ) اللہ نے انبیاء کرام کی عزت وکرامت,انکے جسموں کی حفاظت وصیانت اور انکی رفعت ومرتبت کے سبب زمین پر انکے جسموں کو کھانااور گلانا حرام قرار دیا ہے, احمد اور ابن ماجہ وغیرھما نے شداد بن اوس سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  إن اللہ حرم علی الارض أجساد الأنبیاء" یعنی اللہ نے انبیا کے جسموں کو زمین   بر  حرام قرار دیا ہے_(اس حدیث کو بیشتر محدثین نے صحیح کہا ہے) اس میں کوئی شک نہیں کہ ان برگزیدہ انبیاء میں ان سب کے سردار ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی سر فہرست ہیں-
4-آپ جس جگہ مدفون ہیں, دیگر انبیاء کی طرح آپ کا جسد اطہر بھی اسی جگہ مدفون و موجود ہے,امام مالک اور دیگر محدثین نے روایت کیا ہے کہ آپ کی وفات کے وقت صحابہ کے درمیان اختلاف ہو گیا کہ آپ کو کہاں دفن کیا جائے؟ بعض صحابہ کی رائے تھی کہ آپ کو ممبر کے قریب دفن کیا جائے, بعض کی رائے تھی کہ آپ کو بقیع میں دفن کیا جائے.اس موقع پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:ما دفن نبی الا فی المکان الذی قبض اللہ نفسہ فیہ" یعنی کہ تمام انبیاء کو اسی جگہ دفن کیا گیا حہاں انکی وفات ہوئی-امام ترمذی کی ایک دوسری روایت ہے جسے انہوں نے حسن کہا ہے,کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی بات فرماتے ہوئے سنا جسے میں نہیں بھول سکا, آپ نے فرمایا:ما قبض اللہ نبیا الا فی الموضع الذی یحبّ أن یدفن فیہ " کہ اللہ نے نبیوں کی روحیں اسی جگہ قبض کی جس جگہ انکی تدفین مطلوب تھی_پھر ابو بکر صدیق گویا ہوئے: اللہ کے رسول کو آپ کے خواب گاہ او ربستر مبارک کے پاس ہی دفن کرو! اس کے بعد تمام صحابہ کرام اس پر متفق ہوگئے-
ہمارا بھی وہی عقیدہ ہے جسے ابو بکر صدیق نے بیان فرمایا اور تمام صحابہ نے اسے بلا چوں چرا قبول کر اجماع کا ثبوت دیا,رضی اللہ عن الجمیع_
5-نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے , آپ نے ارشاد فرمایا:اللھم لاتجعل قبری وثنا یعبد, لعن اللہ قوما اتخذوا قبور انبیائھم مساجد" یعنی کہ اے اللہ تو میری قبر کو وثن مت بنانا کہ اس کی پرستش ہونے لگے, اللہ کی لعنت ہو اس قوم پر جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد میں بدل دیا_(مالک, احمد اور طبرانی نے اسے روایت کیا ہے)
آپ کی یہ دعا شرف قبولیت سے سرفراز ہوئی, چنانچہ نہ صرف یہ کہ آپ کی قبر مبارک کو اللہ نے وثن بننے سے محفوظ رکھا بلکہ آپکے دونوں صحابہ (جو آپ کے پہلو میں مدفون ہیں) کی قبریں بھی اس لعنت سے محفوظ رہیں,بلکہ اللہ نے ان قبروں کو تین (مختلف اور مضبوط)دیواروں سے(گھیر کر) انکی حفاظت فرمائی:
1-حضرت عائشہ کے حجرئہ مبارکہ کی دیوار جس میں آپ مدفون ہیں
2-دیگر امہات المؤمنین کے حجروں کی وہ دیوار جسے عمر بن عبدالعزیز نے تعمیر کروایا
3-تیسری وہ بیرونی دیوار جو ان حجروں کے ساتھ ساتھ حضرت علی اور فاطمہ رضی اللہ عنھما کے گھر کو بھی شامل ہے
اس طرح آپ کی اور آپ کے دونوں اصحاب کی قبریں ان اوثان اور اصنام میں تبدیل ہونے سے محفوظ رہ سکیں جن کی عبادت اور پرستش کی جاتی-
امام ابن القیم نے اپنے "قصیدہ نونیہ" میں خوب کہا ہے:
      فأجاب رب العالمین دعائہ       
وأحاطہ بثلاثۃ الجدران
کہ اللہ نے انکی دعا سن لی اور انہیں تین دیواروں سے گھیر کر محفوظ کر دیا
جیسا کہ صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنھا کی روایت موجود ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لعن اللہ الیھود والنصاری اتخذوا قبور انبیائھم مساجد" یعنی کہ یہودونصاری پر اللہ کی لعنت ہو, انہوں نے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا- امّا عائشہ فرماتی ہیں:آپ اس مذموم عمل سے متنبہ کررہے ہیں جن کے مرتکب یہود ونصاری ہوئے,اگر ایسا نہیں ہوتا تو آپ کی قبر بھی بلند کردی جاتی , آپ کو یہ خدشہ بہر حال تھا کہ کہیں آپ کی قبر کو بھی لوگ مسجد نہ بنا لیں-
میں نے اپنے مقالہ "عمارۃ مسجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ودخول الحجرات فیہ دراسة عقدية" کے ساتویں مبحث میں ان تمام تفصیلات کا اعتقادی جائزہ لیا ہے-
6-ابھی جس بحث(مقاله) کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس میں کسی بھی طرح یہ من گھڑت اور جھوٹا دعوی نہیں آیا ہے کہ آپ کے جسد مبارک اور آپ کے دونوں صحابہ کی قبروں کو حجروں سے الگ کر دیا جائے-کیوں کہ اصلا یہ مسجد نبوی سے الگ اور خارج ہی ہیں-اس میں یہ مطالبہ بھی نہیں ہے کہ حجروں کو منہدم کر دیا جائے,یا یہ کہ مسجد نبوی کو مسمار کردیاجائے.....جس نے بھی یہ الزام ڈالا ہے اس نے میرے اوپر بہت بڑا بہتان گڑھا ہے, خود کو بڑی غلط فہمی میں مبتلا کیا ہے, اس بہتان کے اسباب وعوامل کے تئیں بد ظنی کا شکار ہوا ہے,اللہ اسے مناسب اور لائق جزااور بدلہ دے(یا ایھا الذین آمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم....)اے ایمان والو! بہت زیادہ وہم وگمان سے بچو ,یقینا کچھ بدگمانیاں گناہ ہے­_
7- میرے جس مقالے  کا ذکر گزرا ہے , وہ ایک تمہید, نو مباحث اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے, جو حسب ذیل ہیں:
   1- مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے مسجد نبوی کی تعمیر
2   -عمر بن الخطاب کا مسجد نبوی کی تعمیراور اس میں توسیع کرنا
-عثمان بن عفان کی تعمیر اور انکی توسیع واضافہ
-ولید بن عبد الملک کی تعمیر
-جب ولید بن عبدالملک نے حجروں کو مسجد میں داخل کیا اور اسے سجانے سنوارنے  کا کام کیا تو اسلاف کرام نے اس پر نکیر کی, اس کا بیان
-مہدی کی تعمیر
-عھد ممالیک میں سلطان قابتیانی کی تعمیر اور اس کی جدت طرازیوں کابیان
-عھد عثمانی میں سلطان عبد المجید کی تعمیر
-مسجد نبوی کی تعمیر میں گزشتہ تھذیبوں کے اثرات
-خاتمہ جس میں پانچ توصیات وتجاویز اور تنیہات ذکر کی گئی ہیں جن کا تعلق جہاں کتاب کے پورے مشمولات سے ہے, وہیں ان کا تعلق ان دیرینہ تجربات سے بھی ہے جو میں نے حج کے گزشتہ تین موسموں میں حرم کے اندر کام کرتے ہوئے  مشاہدہ کیا ,یہ ان افراد امت سے بھی متعلق ہیں (جن کی نادانی کو میں نے زخمی دل سے جھیلا) وہ مسجد کے درودیواراور حجروں کی کھڑکیوں کو بطور تبرک چھواکرتے اور بکثرت مجھ پر سوال داغتے تھے کہ قبر مبارک کے طواف کا کیا حکم ہے اور اس شخص کا کیا حکم ہے جو ابھی محو طواف روضئہ اقدس ہی تھا کہ نماز کا وقت آپہنچا اور جماعت کھڑی ہوگئی.......؟  تا آنکہ ملک فھد کی موجودہ توسیع میں باب السلام کے سامنے باب البقیع کھول دیا گیا-
ان تمام شواھد,ملاحظات اور قرارداد کو سپریم علماء قونصل(ہیئۃ کبارالعلماء) کی خدمت میں بھیجا گیا,پھر ان سے یہ آخری گزارش کی گئی کہ علماء کرام کی ایک خاص کمیٹی تشکیل دیں,جو ان قراردار کامطالعہ کریں, ان پر علمی اور شرعی طریقے سے غوروخوض کریں(تاکہ کسی مثبت نتیجہ تک پہنچا جا سکے)
8-یہ طے شدہ پروپیگنڈے اور باطل ومذموم دعوے جو موسم حج سے پھلے بارہا سامنے آتے رہے ہیں تاکہ حجاج کرام اور زائرین عظام کے تئیں مملکت سعودی عربیہ کی خدمات,حرمین شریفین کی توسیع,نگہداشت,حفاظت اور کمیوں کوتاہیوں کو دور کرنے جیسی قابل ستائش کوششوں کی تحقیر کی جاسکے, اور ان مساعی پر پانی پھیر نے کی جتن کی جائے,(یہ لوگ ایسا کرتے ہوئے در اصل یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سب) اللہ کے حکم کی تعمیل, اس کے دین کی اتباع اور شرعی وجوب کی ادائیگی کے لئے کی جاتی ہیں – (قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحواھو خیر مما یجمعون)
آپ کہ دیجئے کہ اللہ کی رحمت اور اس کے فضل سے ہی انہیں خوش ہونا چاہئے , یہ ان تمام چیزوں سے بھتر ہے جو وہ جمع کر رہے ہیں_
9-شرعی طور پر مومنوں کے لئے یہ واجب ہے کہ خبروں کی(نشرواشاعت) سے پہلے اس کی تحقیق کریں اور توثیق حاصل ہونے کے بعد ہی دوسرے تک پہنچانے کی زحمت کریں, بطور خاص جب خبر کاتعلق دین یا مومنین سے ہو, قرآن کی یہ آیت اسی اصول پر پرزور روشنی ڈالتی ہے "یا ایھا الذین آمنوا ان جائکم فاسق بنبأ فتبینوا أن تصیبوا قوما بجھالۃ فتصبحوا علی ما فعلتم نادمین"
اللہ مسلمانوں کو اس کی توفیق بخشے, ہمیں اس کی مخالفت اور فتنوں کی گمراہیوں سے محفوظ رکھے, مسلمانوں کے کلمہ کو نیکی و بھلائی اور تقوی وپرہیزگاری پر جمع کرے, ہمیں اپنی طاعت وعبادت کے کاموں میں مشغول رکھے,ہمارے حكام اور دعاۃ کو اپنے دین اور اپنے نبی کی سنت کی نصرت واعانت کی توفیق ارزانی کرے, مسلمانان عالم اور حرمین شریفین کےلئے جو خدمات وہ پیش کر رہے ہیں ,اللہ انہیں ان کا بہتر اجر وثواب عطا کرے,والحمد للہ رب العالمین-

                                                  علی بن عبد العزیز الشبل
   استاذ العقیدۃ بوزارۃ التعلیم العالی وعضو التوعیۃ الاسلامیۃ فی الحج والعمرۃ والزیارۃ
                                                  المملکۃ العربیۃ السعودیۃ

ليست هناك تعليقات: