الأربعاء، سبتمبر 24، 2014

خرد   
ساگرتیمی
  وہ شام کا وقت تھا ۔  سارے لڑکے لڑکیاں کینٹین میں چائے نوشی کے لیے آیا ئے ہوئے تھے ۔ یہ یونیورسٹی کاعام مزاج تھا ۔ لائبریری سے نکل کر کبیر نے بھی کینٹین کی راہ لی ۔ کینٹین میں جوہی  پہلے سے چائے کا آرڈر دے کر اس کے انتظار میں تھا ۔ کبیر نے چائے لی اور اپنے نئے خوبصورت موبائل کے ساتھ میسجینگ میں مصروف ہو گیا ۔  جوہی  کو برا لگا لیکن وہ جانتا تھا کہ اب اور کچھ ہو بھی نہیں سکتا ۔ اور تھوڑی دیر بعد وہ اس سے معذرت کرتا ہوا نکل گیا ۔ فیس بک کی اہمیت کا احساس اسے اس دن کچھ زیادہ ہی ہو رہا تھا ۔
   " میں تہمیں فیس بک پر دیکھتی رہی ہوں "
"اچھا ؟"
" تم بہت اچھے لگتے ہو "
" تصویر میں یا سچ مچ؟ "
" دونوں جگہ "
" تو ؟ "
" میں تم سے ملنا چاہتی ہوں اگر تمہیں مجھ سے مل کر خوشی  ہو "
" ٹھیک ،کل شام چائے پر ملتے ہیں "
     کبیر نے اسے ہلکے میں لینے کی کوشش ضرور کی تھی ۔ لیکن اب اسے شام کا انتظارشدت سے تھا ۔اس کی باتوں سے اس کی لیاقت بول رہی تھی ۔ اس نے بغیرملے ہی اسے اپنا گرویدہ بنا لیاتھا ۔ اس کی طبیعت نے بارہا اسے اکسا یا کہ وہ اس سے بات کرے لیکن در اصل وہ ہمت نہ کرسکا۔  اسے لڑکیوں سے باتیں کرنے اور ان کے ساتھ  چھیڑ کرنے کی عادت سی تھی لیکن اس مرتبہ اس کے دل کی کشتی خود ہی ڈانواڈول تھی ۔  فلسفےدم توڑ چکےتھے اور ترکیبوں کا کوئی مطلب بھی  نہیں تھا  ۔
     دوسرے دن کی  شام گوری رنگت کی ایک چلبلی سی لڑکی اس کے سامنے تھی ۔ میانہ قد ، چوڑی پیشانی، چمکداربولتی ہوئي آنکھیں اس کے بھولے  سے چہرے پر سلیقے سے سجی ہوئی تھیں ۔ اس پر اس کے پتلے سے دونوں لب جیسے پھول کی  دو پتیاں ۔ اس نے اس کے سراپے پر ایک نطر ڈالی اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہ پاتا اس نے کہا " ہائے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔"
" اور میں کبیر ۔۔۔۔۔۔"
چائے لیتے ہوئے دونوں کی گفتگو آگے بڑھنے لگی جیسے ملاقاتوں کا یہ سلسلہ پچھلے کئی مہینوں سے چل رہا ہو ۔ کبیر نے دوسری بار اس کے مقابلے اپنی شکست قبول کی ۔ بولتے ہوئے اس کے دانتوں کی چمک اور مسکراتے ہوئے اس چہرے کی دمک نے اسے کہیں کا نہيں چھوڑا تھا  ۔ آج اسے بھی اپنے سمارٹ ہونے کا احساس ہو رہا تھا کہ بہر حال پہل تو اسے نے کی تھی ۔  اس کے خیالات کی دنیا پھیلتی چلی گئی۔ اور دل کے دریچوں سے خوشبوؤں کی آمد سی ہونے لگی ۔ اورپھر وہ اس کے ساتھ کچھ ایسے آئی جیسے بہار نہ جانے کے لیے آگئی ہو ، جیسے نسیم کے چلنے کا سلسلہ رکے گا نہيں ،  جیسے صبح و شام کے یہ حسین نظارے کبھی فنا نہیں ہوںگے ، جیسے گلاب کے اوپر صبح کے وقت  شبنم کے حسین قطرے گرتے رہینگے ۔ 
     اس کا نام نورین  تھا ۔ ہندو ماں اور کمیونسٹ باپ کے بیچ پروش پانے والی اس لڑکی کے اندر غضب کا حسن جمع ہو گیا تھا ۔ ایک طرف اس کے اندر پرانے ہندو خاندان کی تہذيب تھی  تو دوسری طرف کمیونسٹوں کی سی روشن خیالی ، لاابالی پن اور زبردست سماجی شعور ۔ یونیورسٹی کے اندر اپنے شروعاتی دنوں میں اس نے بایاں محاذ کی  پارٹیاں بھی جوائن کی تھی ۔ اسی لیے بولنے کے معاملے میں خاصی بے باک اور اپنے نکتے واضح کرنے کے سلیقہ سے آراستہ تھی ۔ سیاست ، سماج ، مذہب اور جرائم کی نفسیات پر گفتگوکرتےہوئےاس کی سنجیدگي کےساتھ ہی اس کے نکتے اس کی غیر معمولی ذہانت کے گواہ ہوتے ۔
         کبیر جب اپنے دوستوں کے ساتھ اس کی باتیں شیئر کرتا تو اس کے دوست مسکرا کر رہ جاتے جیسے انہیں یقین ہی نہ ہو لیکن جب وہ اس سے مل لیتے تو پھر کبیر کی خوش نصیبی  پر رشک کا اظہار ضرور کرتے اور یہ بات کبیرکو بہت اچھی لگتی ۔ ان میں سے ایک نے جب یہ کہا کہ اسے نورین کی بجائے خرد کہا کرو تو اسے یہ نام بہت پسند آیا اور پھر نورین خرد بن گئی ۔ بات یہ تھی کہ خود نورین کو بھی اپنی شخصیت سے جڑی یہ تعریف اچھی لگتی تھی ۔ ایسے کبیر ایک عام سا طالب علم تھا ۔ سیاست ، مذہب اور فلسفہ سے اسے کوئی زیادہ سروکار نہیں تھا ۔ وہ اپنے سبجیکٹ میں اچھا تھا اور دیکھنے میں ایسا کہ لڑکیاں اعتماد سے اپنی سہیلیوں سے اس کے بارے میں اپنے عشق کا قصہ بیان کرسکیں ۔ خرد کو اس کے مردانہ وجاہت نے ہی اس کے اتنا قریب کردیا تھا ۔
        خرد کی یادداشت بلا کی تھی  ۔ اسے پڑھنے کا بھی شوق بہت تھا ۔ کبیر اسے اپنے موضوع پر لاکر بات کرتا کہ لٹریچر میں تو کم از کم اپنی برتری ثابت ہو لیکن وہ ادب پر گفتگو کرتے ہوئے بھی کہيں سے کمزور نہ پڑتی ۔ خرد کی باتیں سن کر اسے " لندن کی ایک رات " کی شیلا گرین یاد آجاتی۔ ایک روز اس نے اس سے کہا ۔
" کبیر ! ہم سب اس دنیا میں کیوں آئے ہیں؟ "
" خرد ! مجھے اس قسم کے سوالات الجھن میں ڈالتے ہيں ۔ اس لیے میں اس طرف سوچتا بھی نہیں "
" لیکن یہ مسئلے کا حل تو نہيں ہے  نا "
" ہاں ، لیکن میں بے مطلب الجھنا بھی نہیں چاہتا ۔ یوں بھی ہم سے پہلے لوگ سب کچھ کر کراکر تھک چکے ہيں "
" لیکن اس سے ہماری ذمہ داری ختم تو نہيں ہو جاتی ۔"
" خرد ! میں جب کبھی اس پر سوچتا ہوں کنفیوزڈ ہو جاتا ہوں "
" تو یہ کرو نا کہ سوچنے کی بجائے بس کرنا شروع کردو ۔ کوئي ایسا کام جس میں سب کی بھلائی ہو ۔ ہماری تمہاری اور سب کی ۔ میرا مطلب ہے انسانوں کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
      اسی درمیان کبیر کی  کال آگئی اور اسے وہاں سے نکلنا پڑا ۔  
اس بیچ وہ دونوں کئی بارملے ۔ باتیں ہوئیں ، مناقشے ہوئے ، بحث و تکرار میں لڑائی کی نوبت بھی آئی لیکن ان کی محبت پروان بھی چڑھتی رہی ۔ خرد اس درمیان یہ کوشش کرتی رہی کہ کبیر زندگی کے اس افادی پہلو کو سمجھے جس پر وہ ایمان رکھتی ہے ۔ اس کبیر سے بلا کی محبت تھی اور اس معاملے میں اس کا کوئي اختیار بھی نہیں تھا لیکن وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا ہم سفرایک عام سے فکر کا آدمی ہو جو بس کمانے کھانے کو زندگی سمجھتا ہو ۔
 کئي  دنوں بعد خرد نے باتوں باتوں میں کبیر سے پوچھا ۔
" کبیر ! ایسے تم کرنا کیا چاہتے ہو ؟ "
" پہلے تو بہت زیادہ متعین ہدف نہیں تھا ۔ بس نوکری کرنا چاہتا تھا لیکن اب ۔۔۔۔۔۔"
"لیکن اب ۔۔۔۔۔۔۔۔؟"
" اب تم سے ملنے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے تمہارے نظریے سے اختلاف کرنا آسان نہیں تو کیوں نہ تسلیم ہی کرلیا جائے "
 خرد کی آنکھوں میں بجلی کی سی چمک آئی۔ اس نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اسے پیار سے دباتے ہوئے کہا ۔
" کبیر اب تک تم اپنی مادی شخصیت کی وجہ سے میرے لیے مرکز توجہ تھے ۔ میں نے جب تمہیں دیکھا تھا تم مجھے سمارٹ کے ساتھ ہی ذہین لگے تھے ۔ لیکن آج جب تم نے اپنے ان خیالات کا اظہار کیا ہے مجھے ایسا لگتا ہے کہ مجھے پوری دنیا مل گئی ۔ جان من ! تم اس راستے پر آگے بڑھو ، تمہاری  خرد سدا تمہارے ساتھ  ہوگی ،ہم اس دنیا  کو بدلینگے ۔ اونچ نیچ ، بھید بھاؤ اور تفریق کی لعنت کے خلاف ہم لڑینگے ۔ ہم سیاست کا مفہوم بدلینگے ۔ کبیر آج میں حد سے زیادہ خوش ہوں ۔ آج میں اپنے پاپا سے کہ سکوں گی کہ میں نے ایک ایسے مرد کو چنا ہے جو ان کی طرح ترقی پسند خیالات کا مالک ہے اور جو اپنی کوششوں سے بہتر سماج بنانے کا خواہشمند ہے  "
" ہاں خرد ! میں تم سے وعدہ کرتاہوں کہ اب یہ زندگی ایک مقصد کے تحت چلے گی۔ تمہارا ساتھ رہا تو میں پہاڑوں سے گزر جاؤنگا  "
" کبیر! میں نے تمہیں منتخب کیا تھا ۔ تم میرا یقین مانو کہ وہ بھی میری خود اعتمادی تھی ۔ تم یہ سوچ کر خوش ہو سکتے ہو کہ تہمیں ایک لڑکی نے چنا لیکن میں یہ سوچ کر بہت خوش ہوں وہ لڑکی میں تھی اور میرے دل نے جو کہا وہ میں نے کرنے کی کامیاب کوشش کی ۔ اے کاش میری ہی طرح اس دیش کی ہر لڑکی کو اس کی اپنی  پسند سے اپنی زندگی کا ہم سفر چننے کی آزادی حاصل ہو تی ۔ "
" خرد ! ہم لڑینگے اس آزادی کے لیے ، تمہارے لیے ،اپنے لیے،سب کے لیے"
       پھر وہ دونوں خود اعتمادی ، اپنی مدد آپ اور انسانیت کی بھلائی کے بارےمیں دیر تک باتيں کرتے ۔ لمبی چوڑی اور کبھی ختم نہ ہونے والی باتيں ۔ " کبیر ! میں ایسے لوگوں کو نکما اور فالتو سمجھتی ہوں جو اپنا کام خود نہيں کر سکتے ۔ میں نے اپنی ایک لڑکی دوست سے اپنا تعلق اس لیے توڑ لیا کہ وہ ایک لڑکے کو چاہتی تھی اور  وہ یہ چاہتی تھی کہ میں اس لڑکے تک یہ بات پہنچاؤں کہ میری دوست اس پر مرنے لگی ہے ۔ میں نے اسے صاف لفظوں میں کہا تھا  کہ یہ ذلیل حرکت مجھ سے نہيں ہوگی ۔ اگر اس کے  اندر ہمت ہے تو جا کر اظہار عشق کرے ورنہ آہیں بھرنے والوں اور دکھڑا سنانے والوں سے مجھے کوفت ہی  ہوتی ہے ۔" اور کبیر مسکرائے بغیر نہيں رہ سکا تھا ۔
       آج سالوں بعد جب سماج سدھار کے کام میں کبیر کی شناخت بن گئی تھی ۔ عورت ، بچہ اور پسماندہ لوگوں کے حقوق کے لیے لڑائی جاری تھی اور کبیر کو ایک آئیکن کے روپ میں دیکھا جارہا تھا ۔ غریب لوگ اسے مسیحا سمجھ رہے تھے  ۔ اپنے آنگن میں بیٹھا کبیر خرد کی گود میں گلکاریاں لے رہے اپنے بیٹے کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا اور خرد محلے کے ایک لڑکے کو سمجھا رہی تھی کہ اگر تم امتحان پاس کرنے کے لیے سفارش کے محتاج ہو تو بتاؤ زندگی کے امتحان کیسے پاس کروگے ۔ اور اسے وہ منظر بہت شدت سے یاد آرہا تھا جب خرد نے اس کے ایک دوست سے بات کرتے ہوئے کہا تھا ۔ " جوہی  ! اگر وہ لڑکی تمہيں اچھی لگتی  ہے تو جاؤ اس سے خود اپروچ کرو ۔ جب ایک  معمولی لڑکی  سے اپنی بات نہيں کہ سکتے تو اس ظالم دنیا کے سامنے تمہاری زبان کیسے کھلے گی ۔ یوں بھی مجھے دلوں والا کام بالکل بھی پسند نہيں " ۔









     





ليست هناك تعليقات: