الأحد، سبتمبر 07، 2014

زمانہ ڈھونڈ رہا ہے عمل کا شیدائی


سیف الرحمان حفظ الرحمان تیمی
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ

اس امت کے بیشتر نوجوان اپنے اندر طاقت وقوت,اور استطاعت وقدرت کا اتنا وافر مقدار رکھتے ہیں کہ وہ چاہیں تو انکے زور وبل پر سماج کا رخ بدل سکتا اور معاشرے کا زاویہ تبدیل ہوسکتا ہے,لیکن ان کے پائے عمل اور رفتار سرگرمی میں بھی وہی زنجیر لپٹی ہوئی ہے جو گزشتہ مصلحین اور سماجی کارکنان کے پائے رفتار میں لپٹی ہوئی تھی ,انھیں بھی حقارت وذلت اور معاشرتی طعن وتشنیع کا سامنا ہے,حوصلہ شکنی نہ صرف انکے معاصرین کی جانب سے ہوتی ہے, بلکہ وہ زیادہ دل شکستہ تب ہوتے ہیں اور انکے ارمان پارہ پارہ جب بزرگوں کی زبان سے بھی  انھیں بے  جا,دل شکن,اور ناروا تبصرے سننے پڑتے ہیں, ان پر نا عقلی کا الزام لگتا ہے , ان پر جوانی دیوانی کا لیبل چسپاں کیا جاتا ہے,اور اپنا الو سیدھا کرنے کا الزام دیا جاتا ہے-
گویا وہ اپنی زبان حال سے کہ رہے ہوتے ہیں کہ کچہ نہ کر یوں ہی بے حس و حرکت  بیٹھے رہو,زوال حال کا تماشائی بنے رہو ,جب حالات موافق ہو جائیں ,ہوا کا رخ حسب منشا ہو اور ماحول کی سنگینی ختم ہو چلے تب تم بھی اٹھنا میں بہی اٹھونگا سب مل کر مزے اڑا ئینگے,بے محنت کی نعمت سے لطف اندوز ہونگے اور ٹیک لگا کر اخبار پڑھینگے-یہ وہ لوگ ہیں جنہیں لگتا ہے کہ دنیا خود بخود بدل جائیگی, اسکی بدتری از خود زائل ہوجائیگی,اور بغیر کوشش اور کسی محنت کے حالات بہتر ہونگے اور برتری لوٹ آئیگی-
یہ بغیر عمل کی اصلاح کی کوشش ہے , بالکل اسی طرح  کہ کوئی کہے مجھے جنت دے میں پھر عمل کرونگا, آگ سے کہے کہ مجھے روشنی اور حرارت دے پھر میں تمہیں ایندھں دونگا-
اصلاح کے خواہاں اور عمل کے دلدادہ کے لئے ایک ہی تھیم اور ایک ہی آئیڈیل ویو(مثالی نظریہ) ہے وہ یہ ہے کہ جب کسی کام اور اصلاح وتبدیلی کا عزم کرلو تو اللہ پر بہروسہ کرواور خود اعتمادی کے ساتھ قدم آگے بڑھاتے جاؤ,انتظار نہ کرو کہ آسمان سونا برسائیگا اور راتوں رات اربوں کھربوں کا مالک ہو جاؤنگا, ایسا تو کام چور لوگ کرتے ہیں اور یہ تن پسندوں کا حربہ ہے, بلکہ پیہم چلتے رہو آگے کو قدم بڑھاتے رہو اور حسب استطاعت کوشش میں لگے رہو,دیر یا سویر کامیابی تمہاری ہی ہے-
                             چلے چلیو کہ چلتے رہنا ہی دلیل کامرانی ہے
                                جو تھک کے بیٹھ جاتے ہیں وہ منزل پا نہیں سکتے
کچہ کرنے اور کچھ پانے کی فکر دامن گیر ہونا اچھی بات ہے اور بعض اوقات یہ ضروری بھی ہے , تاہم اس کا ایک دائرہ اور منتہی ہونا بھی لازمی ہے, کیونکہ اگر حرکت ونشاط سے پہلو تہی کرکے آدمی ہمہ وقت صرف سوچنے اور پلاننگ کرنے میں لگا رہے تو اسے کب فرصت عمل ہاتھ آئیگی,بلکہ اس سے اس کے اندر بےخوابی آئیگی اوروہ مسلسل کام کرنے کے جتن سے دور ہی ہوتا چلا جائیگا,اس لئے پلاننگ اور صرف سوچنے بچارنے کے دائرہ کو محدود رکھنا ازحد زیادہ ضروری ہے  تاکہ عمل اور جتن کا حلقہ وسیع ہو اور حسب تخطیط کام کو دوام دیا جانا ممکن ہو سکے,یہ سوال ذہن ودل میں پیدا ہو نا ضروری نہیں  کہ کل کیا ہوگا اور ہمیں تقدیر کے ہاتھوں کن حالات سے دوچار ہونا پڑیگا لیکن یہ سوال بہر صورت  اپنے آپ سے کرنا اور کرتے رہنا لازمی ہے کہ موجودہ حالات کو بہتر سے برتر بنانے کےلئے میں کیا کرسکتاہوں اور مجھے کیا کرنا چاہئے, ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ ہم نے اپنی اصلاح کے لئے کیا اقدام کیا,نفس اور ذات  کی بہتری اور سدھار کے لئے ہماری کیا تخطیط اور کیا منصوبہ ہے جسے بر وقت عمل میں لایا جانا چاہئے,ترقی, بیداری,اور بلندی اورپائدار کامیابی کے لئے میں نے اپنی سطح پر کیا کیا اور اصلاح وعمل کی ذہنی اپج کو زمینی حقیقت میں بدلنے کے لئے ہم نے کون سی پیش رفت کی , یہ سوال ہر ایک کے لئے اہم ہے, اسی سوال کے نہاں خانے سے تبدیلی کی کرن اور انقلاب کی صبح نو نمودار ہو سکتی ہے-
چھوٹے سے چھوٹے عمل سے بھی اگر آپ اپنے عمل کی ابتدا کرتے ہیں اور اسے مسلسل کام کے تسلسل میں بدلنے کا عزم رکھتے ہیں تو یہ اس بات سے بدرجہا بہتر ہے کہ آپ انتظار کی گھڑیاں گنیں اور کل کے انتظار میں رہیں جو نہ کبھی آیا ہے نہ آئیگا,یہ کل دراصل بیکار عقل کی اپج ہے جو انسان کو سست سے کاہل محض بناتا چلا جاتا ہے,میرے  ہم نوا! یہ جان رکھیے کہ کامیابی پانےاور کسی بھی ادنی کوشش کو منتہا سے ہمکنار کرانے کے لئے سب سے اہم محرک ہے ہمہ تن اس کا احساس زندہ رکھنا اور اسی کو اوڑھنا بچہونا بنانا , کیونکہ “The dream is not what we see in sleep ,but the dream is that does not let us sleep”"خواب وہ نہیں جو ہم سوکر بند آنکھوں سے دیکھتے ہیں بلکہ خواب وہ ہے جو ہمیں سونے نہیں دیتا", اس لئے کسی بھی اہم پلاننگ کی ابتدا اور اعلی مقصد کا آغاز اگر نہایت ادنی پیمانے اور سادہ انداز میں ہوتا ہے اور اس میں خوئے مداومت برقرار رکھی جاتی ہے تو یہ اس کی بڑی کامیابی کی ضمانت اور تابناک کل کا اشاریہ ہے,اور اسی طرز عمل اور ادائے انقلاب کے ذریعہ بے عملی , تن پسندی اور کاہلی کے بدبودار تنگ نائے سے نکل کرکامیابی,کامرانی,سرخروئی اور صلاح وفلاح کے کشادہ شاہراہ  اور معطر گلشن کو پایا جا سکتا ہے-
اس ضمن کی کچھ اہم اور قابل غور نکات ذیل میں ذکر کئے جا رہے ہیں , ان سے صرف نظر کر ساحل کامیابی سے ہمکنار ہونا دشوار ہے:
 سب سے اہم اور ضروری اقدام ہے عمل کرنے کا آغاز, لیکن اس سے بھی اہم ہے صحیح وقت پر صحیح وسائل کے ذریعہ صحیح کام کو انجام دینا
 طے شدہ منصوبہ اور منہجی کارکردگی کی اہمیت , افادیت اور اثرانگیزی ہر کسی کو پتہ ہے, یوں کہیئے تو بجا ہے کہ منصوبہ کے تحت کیا جانے والاایک گھنٹہ کا کام بے منصوبہ کے تین گھنٹوں کے کام کے برابر ہے
• کام میں لگ جانے کا مطلب یہ قطعا نہیں کہ آپ اصل مقصد کو بھلا کر بس کام ہی کام کرتے رہیں بلکہ آپکا ہر ایک کام آخری اور اصل مقصد کے حصول کا زینہ ہونا چاہئے,آغاز تھوڑا اور معمولی سے ضرور ہو سکتا ہے لیکن نگاہیں اسی بلندی پر ہونی چاہئے جہاں پھنچ کر دم لینا ہے
 مقصد اور غایت کسی بھی عمل اور وسیلئہ عمل کو اہم یا غیر اہم نہیں بناتی بلکہ عمل ایک چیز ہے , وسیلئہ عمل ایک چیز,اور مقصد وغایت ایک الگ چیز, اس سے آگاہ رہیں!
ناکامی کی صرف یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ تجربات اور مہارات میں کوتاہی پائی جائے ,اس لئے ہر ناکامی کا سامنا کرنے کی اہلیت اور ہمت رکھنے کے ساتھ اس سے تجربہ حاصل کرنے کا ذوق اور حوصلہ بھی ہونا چاہئے  , کیونکہ تجربات اور مشاہدات کے انہی زینوں پر چڑھ کر کامیابی کے اوج ثریا _“the failure is the pillar of success” تک پہنچا جا سکتا ہے   ,کہ لیجئے کہ ناکامی کامیابی کا زینہ ہے
 کامیابی کے وقت بھی زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ جس طرح ہر ناکامی ہمیں کامیابی کے کچہ راز سکھاتی ہے اسی طرح کامیابی بھی اپنے ساتھ ناکامی کے طرب آمیز اور جذباتی کیف لیکر نمودار ہوتی ہے جس میں مگن ہو کر اکثر نادان جذبات کی رو میں بہ جاتے اورایک وقتی موقع کو خوشگوار بنانے کی فکر میں تمام آنے والی خوش آئند مناسبات کواپنے ہی ہاتھوں گنوا  دیتے ہیں-وہ بھول جاتے ہیں کہ کامیابی جہاں وقتی طور پر بہت ساری کمیوں ,کوتاہیوں اور خامیوں پر پردہ ڈال دیتی ہے وہیں اس کے جلو میں کی جانے والی طرب آمیزیاں اور ناروا مستیاں تادیر اپنا اثر باقی رکھتی ہیں!
 آخر میں اللہ کا یہ فرمان  آپ کے حوالہ ذوق مطالعہ کرتا ہوں, جو در اصل اصلاح وعمل کا امین اور تمام بھلی سرگرمیوں کی کامیابی کا راز ہے:
" وَقُلِ اعْمَلُواْ فَسَيَرَى اللّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ " (التوبة105 )
یعنی آپ کہئے کہ تم لوگ نیک عمل کرو ,اس لئے کہ اللہ آئندہ تمہارے عمل کو دیکھیگا اور اس کے رسول اور مؤمنین بھی,اور تم لوگ اس ذات کی طرف لوٹائے جاؤگے جو غائب وحاضر کا جاننے والاہے,پھر تمہیں تمہارے کئے کی خبر دیگا_
زمانہ ڈھونڈ رہا ہے عمل کا شیدائی
خطا معاف یہ حسن بیاں کا وقت نہیں!

ليست هناك تعليقات: