السبت، أغسطس 04، 2012

غزوه احد وحمراء الاسد


الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

غزوہ احد ....وہ غزوہ جس کے تعلق سے سورہ آل عمران میں 58آیتیں اُتریں ،....وہ غزوہ جس سے مسلمانوں نے سیکھا کہ جب پریشانیاں آتی ہیں تو اُس میں مومنوں اورمنافقوں کی تمیز ہوجاتی ہے ، ....وہ غزوہ جس میں محبت رسول کے مختلف نمونے دیکھنے کو ملے ، ....وہ غزوہ جس نے یہ سبق دیا کہ گناہ شکست کی بنیادی وجہ ہے .... جی ہاں یہ ہے غزوہ احد ........
 ہجرت کا تیسرا سال ہے اور شوال کامہینہ ....جنگ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے قریش کا لشکر احد کے مقام پر پہنچ چکا ہے ،تین ہزار فوجی ہیں ،تین سو اونٹ ہے ، دو سوگھوڑے ہیں اور سات سو زرہیں ہیں،فوج کے ساتھ عورتیں بھی ہیں جو لشکر میں بہادری پیدا کرنے کے لیے آئی ہوئی ہیں ،سپہ سالار ابوسفیان ہے ۔

ادھر اللہ کے رسول ﷺکو لشکر کے آنے سے ایک ہفتہ پہلے خبر مل چکی تھی ، آپ نے لوگوں سے مشورہ کیا ،اور عصرکی نماز کے بعد آپ نے جبل احد کا رخ کیا،شوط نامی جگہ پر آئے تو عبداللہ بن ابی نامی شخص نے بغاوت کی ....جی ہاں وہی عبداللہ بن ابی جو منافق تھا ....اوراپنی چالبازی سے مسلمانوںکی ہمت پست کرنا چاہتا تھا ۔ چنانچہ اُس نے اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر واپس پلٹ گیا ،مسلمانوں کی تعداد پہلے ایک ہزار تھی ، اب سات سو باقی بچ گئے تھے ۔ آپ ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ احد پہاڑی کی گھاٹی میں اُترے اوریہیں لشکر کو مرتب فرمایا، حضرت عبداللہ بن جبیرانصاری ؓ کے کمان میں پچاس تیراندازوں کو   مقر رفرمایااور انہیں تاکید کردی کہ مسلمان چاہے فتحیاب ہوں چاہے شکست کھائیں تمہیں اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہونا ہے ۔ مشرکین بھی پوری تیاری کے ساتھ میدان جنگ میں آچکے تھے ،جب دونوں لشکر آمنے سامنے آگئے تو قریش کی طرف سے طلحہ بن ابی طلحہ نمودار ہوا اورمقابلے کی دعوت دی ،جواب میں حضرت زبیر بن عوام ؓ آگے آئے ،شیر کی طرح جست لگائی ،اُسے اپنی گرفت میں لے لیا ،زمین پر کود گئے اور اُسے تلوار سے ذبح کر دیا، اُس کے بعد ہر طرف جنگ کے شعلے بھڑک اُٹھے ۔ سارے مسلمان جوانمردی اور بہادری کا مظاہرہ کر رہے تھے ،اُس دن ابودجانہ ؓ اور حمزہ ؓ نے ریکارڈ قائم کیا ۔
جنگ زوروں پرتھی .... ایک کالا کلوٹا حبشی ”جسے وحشی کے نام سے پکارتے تھے ،کسی ایک شخص کی تلاش میں ہے ، وہ جنگ کرنے نہیں آیا ہے بلکہ آزادی حاصل کرنے آیا ہے ،اُس کے آقا نے اُس سے یہی وعدہ کیاتھا کہ احد کے دن اگر تونے حمزہ کو قتل کردیاتو تجھے آزاد کردوںگا ،چنانچہ اُس کی نگاہ ٹکی تھی تو سیدنا حمزہ ؓ پر ....چنانچہ وحشی چٹان کی اوٹ میں چھپ کر حضرت حمزہ کی تاک میں بیٹھ گیا ،جب وحشی نے حضرت حمزہ کو دیکھا تو فوراً اُن کی طرف نیزے کا رخ کیا اور اچھال دیا ۔اس طرح حضرت حمزہ شہید ہوگئے ۔
شروع میں میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا ،مشرکین شکست کھاکر بھاگنے لگے ،جوش دلانے والی عورتیں بھی بھاگیں ،مسلمان انہیں مار بھی رہے تھے اورمال غنیمت بھی سمیٹ رہے تھے ، لیکن عین اُسی موقع پر تیراندازوں نے بہت فاش غلطی کی ،اللہ کے رسول ﷺ نے ہرحالت میں اُن کو وہیں جمے رہنے کے لیے کہا تھا ،چاہے میدان مسلمانوںکے ہاتھ رہے یا کافروںکے ....بات بالکل واضح تھی ،لیکن غنیمت کے چکر میں اُن کے چالیس آدمی پہاڑ سے نیچے اُتر آئے ،خالد بن ولید....جو ابھی اسلام قبول نہیں کئے تھے ،انہوںنے موقع کو غنیمت جانا او رپہاڑ کی طرف سے حملہ کرکے اُن دس آدمیوں کا صفایاکردیا۔ پھر پہاڑ کے پیچھے سے آکر مسلمانوںکی پشت پر آگئے ۔........اللہ کے رسول ﷺ ایک جگہ تشریف فرما تھے ،آپ کے ساتھ سات انصار اور دو مہاجرین تھے ،جب آپ نے پہاڑکے پیچھے سے خالد کی فوج کو نکلتے دیکھا تو مسلمانوں کو بلند آواز سے پُکارا : ”اللہ کے بندو ! میری طرف آو “۔ اِس آواز کو مسلمانوں سے پہلے مشرکین نے سن لیا جو آپ سے زیادہ قریب تھے ،اُن کے ایک دستے نے تیزی سے اُپ ﷺ کا رخ کیا کہ مسلمانوں کے آنے سے پہلے آپ ﷺ کا کام تمام کردے اس موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا: من یردھم عنی ولہ الجنة کون ہے جو اُن کو ہم سے دور کرے اور اُس کے لیے جنت ہے ۔ اِس پر ایک انصاری آگے آئے اور اُن سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ،آپ نے پھر یہی فرمایا: کون ہے جو اُن کو ہم سے دور کرے اوراُ س کے لیے جنت ہے ۔ اب ایک دوسرے صحابی آگے آئے ، اُن کو پیچھے دھکیلتے رہے اورمقابلہ کرتے رہے،یہاں تک کہ شہید ہوگئے ۔ پھر تیسرے نے ،پھر چوتھے نے....یہاں تک کہ ساتو ں انصاری اللہ کے رسول کی حفاظت میں شہید ہوگئے ۔سب اپنا سینہ سامنے کردیا کرتے تھے کہ اللہ کے رسول ﷺ دشمنوں کے تیر سے محفوظ رہیں ،اِس طرح ساتوں کے سینے چھلنی ہوگئے لیکن رسول اللہ کو نقصان پہنچنے نہ دیا ۔ اللہ کے رسولﷺ کے پاس اب صرف دو آدمی بچ گئے تھے ایک طلحہ بن عبیداللہ دوسرے سعدبن ابی وقاص ؓ ....دونوں بار بار تیر چلا رہے تھے ،لیکن دشمن کی تعداد زیادہ تھی،مشرکین نے حملے کا پورارُخ اللہ کے رسول ﷺ کی طرف کرلیاتھا ، اللہ کے نبی ﷺ پر پتھر پھینک رہے تھے،ابن قمیئہ کے پتھر سے نبی پاک کی پیشانی زخمی ہوگئی ،ابن ہشام کے پتھر سے آپ ﷺ کا بازوزخمی ہوگیا،عتبہ کے پتھر سے نبی پاک کے چار دانت ٹوٹ گئے ،پھر آپ ایک غار میں گرگئے ، خبر عام ہوگئی کہ اللہ کے رسولﷺ شہید کردیئے گئے ۔ لیکن پھر کچھ دیر کے بعد مسلمان پلٹنا شروع ہوگئے ،البتہ تیراندازوںکی غلطی سے مسلمانوںکا بھاری نقصان ہوا ۔ ........اِس جنگ میں مشرکین کے 22 یا 37لوگ مارے گئے جبکہ ستر صحابہ شہید ہوئے ،شہیدوںمیں ایک لاش ایسی بھی تھی جس سے پانی ٹپک رہا تھا ....جی ہاں پانی ٹپک رہا تھا ....کیوں؟ اِس لیے کہ فرشتوں نے اُسے غسل دیاتھا ،یہ ایک نوشہ کی لاش تھی جو نئی نئی شادی کئے تھے ،اوربیوی کے ساتھ ہی تھے کہ جنگ کی پکارہوئی ، غسل کرنے کا موقع بھی نہ مل سکا ،بیوی کو چھوڑ کر میدان جنگ میں چلے گئے اور لڑتے ہوئے شہید ہوئے ، یہ حنظلہ ؓ ہیں جن کو غسیل الملائکہ کہا جاتا ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے سارے شہداءکو غسل اور نمازکے بغیر اُن کے لباس کے اندرہی وہیں میدان احدمیں دفن کردیا۔
رسول اللہ ﷺ نے شہداکے دفن سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ کرام کے ساتھ مدینہ کا رخ کیا ،راستے میں کچھ عورتیں ملیں جن کے رشتے دار شہید ہوگئے تھے ،بنو دینار کی ایک خاتون بھی آئیں جس کے شوہر ،بھائی اور باپ تینوں شہید ہوگئے تھے ،جب اُنہیں اُن لوگوں کی شہادت کی خبردی گئی تو کہنے لگیں پہلے بتاو رسول اللہ کا کیا ہوا ؟ لوگوں نے کہا: الحمدللہ تم جیسا چاہتی ہو ویسے ہی ہیں ۔ خاتون نے کہا : ذرا مجھے آپ کو دکھلادو ۔ لوگوں نے اشارہ کیا کہ یہ ہیں رسول اللہ ﷺ ۔ جب اُن کی نظر آپ ﷺ پر پڑی تو بے ساختہ پکار اُٹھیں کل مصیبة بعدک جلل ”آپ کے بعد ہر مصیبت ہیچ ہے “۔

محترم قارئین ! یہ ہے غزوہ احد کی ہلکی سی جھلک ، جس میں آپ نے دیکھا کہ صحابہ کرام نے اللہ کے نبی ﷺ سے کیسی محبت کا ثبوت دیا ،آپ کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں گنوابیٹھیں ، اِس غزوے سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ گناہ اور نافرمانی ناکامی کا بنیادی سبب ہے ،پچاس تیراندازوں کو کھلے لفظوںمیں تاکید کردی گئی تھی کہ کامیابی وناکامی ہر حالت میں اپنی جگہ ڈٹے رہنا ،لیکن نافرمانی کی بنیاد پر جیتا ہوا میدان ہاتھ سے جاتا رہا ،جس میں درس ہے دنیا کے مسلمانوں کے لیے کہ اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کرکے وہ کبھی بھی اپنے دشمنوں پر فتح حاصل نہیں کرسکتے ،لیکن اِس جنگ کوکفار کی جیت کانام نہیں دے سکتے ، ہاں!غیرفیصلہ کن جنگ کہہ سکتے ہیں،جس میں نہ مسلمانوں کی فتح ہوئی نہ کافروں کی....اِس غزوے میں عام لوگوں کے ساتھ آپ ﷺ کی رحمت وشفقت بھی جھلکتی ہے ، ظالموں نے آپ کو خون آلود کردیاہوا ہے،لیکن پھر بھی اُن کے حق میں دعائے خیر ہی فرمارہے ہیں: اللھم اھدقومی فانھم لا یعلمون ”اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے یہ جانتی نہیں ہے “۔جی ہاں!اگرجانتے توخون آلودنہ کرتے۔

احد کی جنگ ختم ہوچکی ہے ،مسلمان احدسے واپس ہوچکے ہیں،اِس میں وقتی طورپر مسلمانوںکو نقصان ضرورہوااوریہ نقصان بھی اُن کی کمزوری کی بناپر نہیں بلکہ نبی پاک کی مخالفت کی بناپر ہواتھا کہ تیرانداز اپنی جگہ سے ہٹ گئے تھے، حالانکہ اللہ کے نبی کا حکم تھا کہ ہاریاجیت کسی بھی صورت میں وہاں سے ہٹنا نہیں ہے ۔بہرکیف اس سے دشمن کے اندرجرات پیدا ہورہی تھی ....اِسی لیے اللہ کے رسول ﷺ نے غزوہ احد کی صبح اعلان کیا کہ نکل جاومکی لشکرسے مقابلے کے لیے ،تاکہ تمہاری قوت کا انہیں اندازہ لگ سکے ،لیکن صرف وہی نکلے جو جنگ احد میں شریک تھا ....،صحابہ زخمی ہیں،تھکان سے چورچورہیں،لیکن پکار نبی رحمت کی ہورہی ہے ،لبیک کہا اورنکل گئے ،اللہ پاک کو یہ اداپسند آئی اوراُن کی تعریف فرمائی الذین استجابوا للہ والرسول من بعد مااصابھم القرح صحابہ نے حمراءالاسد پہنچ کر پڑاوڈال دیا،مشرکین نے روحاءپہنچ کر پڑاوڈال رکھا تھا ،آپ نے مشرکین کے دلوںمیں رعب پیدا کرنے کے لیے بہت زیادہ آگ جلانے کا حکم دیا،یہاں پر قریش کا ایک شخص ابوعزہ اسلمی پکڑا گیاجسے اللہ کے رسولﷺ نے اُس کی بیٹیوں کی وجہ سے جنگ بدرمیں بنا فدیہ لیے ہی رہا کردیاتھا ،اِس شرط کے ساتھ کہ اب پھر مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک نہ ہوگا،لیکن احد میں شریک ہوگیاتھا ،اللہ کے رسول نے اُس کے قتل کا حکم دیا،منت سماجت کرنے لگاتوآپ نے فرمایا: لایلدغ المومن من جحر واحد مرتین ۔(بخاری) بہرکیف اللہ کے رسول ﷺابھی حمراءالاسدمیں ہی تھے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے خیرخواہوںمیں سے ایک شخص جس کانام تھا معبدبن ابی معبدخزاعی، وہ گیا ابوسفیان کے پاس اوراُس کی ہمت پست کرنے کے لیے کہا کہ مسلمان پوری تیاری کے ساتھ تم سے مقابلہ کے لیے آرہے ہیں،ایک بھا ری لشکر ہے اُن کے ساتھ ،ابھی تم کوچ کرنے سے پہلے اُن کے ہراول دستہ کو ٹیلے سے نکلتے ہوئے دیکھ لوگے ۔یہ سن کر مکی لشکرکی ہمٹ ٹوٹ گئی ،اُن کے حوصلے پست ہوگئے ،اوروہ جلدی سے مکہ کوچ کرگئے ۔ مسلمان بھی وہیں سے مدینہ پلٹ آئے ۔

  

ليست هناك تعليقات: