الجمعة، أغسطس 03، 2012

سیرت طيبہ کی جھلکیاں 13



الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی قائد الغر المحجلین نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

بعثت کا ساتواں سال ہے ،پیارے نبی ﷺ کے چچا ابوطالب ایک روز تنہائی میں بیٹھے یہ سوچ رہے تھے ،میرے بھتیجے کے ساتھ قریش کی زیادتیاں آئے دن زیادہ ہی ہوتی جارہی ہیں،میں ہوں تب نا اُن کا دفاع کرتا ہوں، اگرمیں نہ رہا تو ایسا نہ ہوکہ قریش اُن کوجان سے مارڈالیں،دن بدن یہ اندیشہ بڑھتا ہی جارہا تھا کہ ایک روز ابوطالب نے بنوہاشم اور بنومطلب کو جمع کیا ، اور ان سے یہ وعدہ لیا کہ اب تک ہم اپنے بھتیجے کی حفاظت کا کام اکیلے کر رہے تھے اب آپ سب مل کر انجام دیں ،اور ہم اُن کی حفاظت نہ کریں گے توکون کرے گا،....عربوںمیں خاندانی حمیت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر پایاجاتا تھا ،....چنانچہ ابوطالب کی پیش کش کو دونوں خاندان کے مسلمانوںاور غیرمسلموں نے فوراًقبول کرلیا اوریہ معاہدہ ہواکہ ہم سب ملکرمحمداکی حفاظت کریں گے ، صرف ابولہب نے انکار کیا۔اوربات نہ مانا-
جب یہ خبر قریش تک پہنچی کہ بنوہاشم اور بنومطلب دونوںمحمد ﷺ کو بچانے کے لیے متفق ہوچکے ہیں تو اُن کے پیروں تلے زمین کھسکنے لگی ،اورکھسکتی کیسے نہیں کہ انہوں نے محمدا کے قتل کا منصوبہ بنایاتھا اب اگرانہوں نے محمداکو قتل کردیاتو مکہ میں خون کی ندیا ں بہہ جائیں گی ،اس لیے وہ قتل کے ارادہ سے باز آگئے، لیکن ظلم کاایک الگ طریقہ اپنایا ....جس میں بنوہاشم اور بنومطلب کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اُن کے غیرمسلموں کے لیے بھی آزمائش تھی ۔وہ کونسا منصوبہ تھا بنوہاشم اور بنومطلب کے خلاف ....منصوبہ یہ تھا کہ اِن دونوں قبیلوں کامکمل بائیکاٹ کریں گے،نہ ان سے شادی بیاہ کریں گے ،نہ خرید وفروخت کریں گے ،نہ اُن سے میل جول رکھیں گے اورنہ اُن سے بات چیت کریں گے ۔ اورباضابطہ اس سلسلے میں مشرکین نے ایک دستاویز لکھا کہ جب تک بنوہاشم اور بنو مطلب محمد ﷺ کو ہمارے حوالے نہ کردیتے ہیں تب تک اُن سے ہمارا تعلق بالکل کٹا ہوا رہے گا ۔ بہرکیف یہ دستاویز لکھ دیاگیا اوراُسے کعبہ میں لٹکا دیاگیا ،اِس بائیکاٹ کی وجہ سے بنوہاشم اوربنومطلب سوائے ابولہب کے سب کے سب ابوطالب کی گھاٹی میں جمع ہوگئے ۔........یہ بائیکاٹ تین سال تک رہا ،اِس مدت میں دونوں قبیلوں پرایسے حالات گذرے کہ جنہیں سن کر پتھر بھی پگھلنے لگتا ہے ،کوئی سامان بیچنے والا آتا تو قریش لپک کرخرید لیتے ،اِ س طرح پیسے ہونے کے باوجودسامان نہ خرید پاتے ،حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ انہیں درختوں کے پتے نگلنے پڑے ،سوکھے کھال اُبال اُبال کر اورآگ پر بھون کرکھانے پڑے ۔ بھوک مری کا یہ عالم تھا کہ بلکتے بچوں اور عورتوں کی آوازیں گھاٹی سے باہر سنائی دیتی تھیں ۔ وہاں پر بھی ابوطالب کو اندیشہ تھا تواللہ کے رسول ﷺ کا....کہ ایسا نہ ہوکہ کوئی چپکے سے آکر محمد ﷺ پر حملہ کردے ،رات میں اللہ کے رسول ﷺ کو کہتے کہ تم اپنے بسترپر سوجاو ،پھر جب کچھ رات گذرجاتی ....تو آپ کا بستر بدل دیتے اورکسی دوسری جگہ آپ کو سلا دیتے تھے ۔
بائیکاٹ کی اِس تین سالہ مدت میں بھی.... اللہ کے رسول ﷺ لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیتے رہے  ....خاص کر جب حج کا موسم ہوتاتو اُن کے بیچ آپ جاتے اور اُن تک اسلام کا پیغام پہنچایاکرتے تھے ،

   نبوت کے دسویں سال محرم کے مہینہ میں مکمل تین سال کے بعد قریش کے پانچ لوگوں کو اِس ظلم کا احساس ہوا ،یہاں تک کہ یہ سب کعبہ میں پہنچے اور قریش کے لیڈروں سے بات کرنے لگے کہ ہم سب آرام سے رہیں جبکہ ہمارے ہی سماج میں کچھ لوگ بھوکوں مریں ....ایسا ہونہیں سکتا ،ابوجہل نے سب سے پہلے اُن کی بات کاٹی ....لیکن اُسی وقت ابوطالب بھی حاضر ہوگئے جنہوں نے ایک تازہ خبرسنائی .... خبرکیاتھی؟ ہمارے بھتیجے محمد (ﷺ) نے کہا ہے کہ دستاویز کو دیمک نے کھالیا ہے ،صرف اللہ کا نام باقی رہ گیا ہے ،اگر یہ جھوٹا ثابت ہوا توہم تمہارے اوراُس کے درمیان سے ہٹ جائیں گے ،تمہارا جو جی چاہے کرنا لیکن اگروہ سچا ثابت ہوا تو تمہیں ہمارے بائیکاٹ اورظلم سے باز آنا ہوگا ۔جن لوگوں کو اِس ظلم کا احساس تھا اُن میں سے ایک مطعم بن عدی تھا ،جب صحیفہ وہ چاک کرنے کے لیے آگے بڑھا تو واقعی اُس نے دیکھا کہ دستاویز کو دیمک نے کھالیاہے ،البتہ جہاں جہاں اللہ کانام ہے وہ بچاہوا ہے ۔ چنانچہ وعدے کے مطابق صحیفہ چاک ہوگیا اور اللہ کے رسول   اور باقی تمام لوگ شعب ابی طالب سے نکل گئے۔

اللہ کے رسول ﷺ تو گھاٹی سے نکل چکے تھے لیکن دعوتی سرگرمیاں برابر جاری تھیں ،....قریش کے کچھ لوگ آخری بات ابوطالب کی خدمت میں آئے اور انُ سے گذارش کی کہ آپ اپنے بھتیجے سے کہیں کہ وہ ہمیں اپنے دین پر چھوڑ دے اورہم اُسے اپنے دین پر چھوڑ دیتے ہیں ۔ ابوطالب نے محمد ﷺ کو بلایا تو محمد ﷺ نے اُن سب کو مخاطب کرکے فرمایا: آپ لوگ بتائیں ! اگرمیں ایک بات کہوں ....اوراُسے آپ مان لیں تو عرب کے بادشاہ بن جائیں اور عجم آپ کے تابع ہوجائیں ....آپ کی کیارائے ہوگی ۔ ابوجہل نے کہا : بتاو وہ کونسی بات ہے ۔ آپ نے فرمایا: آپ لوگ لا الہ الا اللہ کہیں اور اللہ کے سوا جو کچھ پوجتے ہیں اُسے چھوڑدیں،عرب وعجم کے مالک بن جائیں گے “۔ اِس بات کو انہوں نے ہوا بنالیااور ہاتھ پیٹ پیٹ کر اور تالیاں بجابجاکر کہنے لگے : اجعل الالھة الہا واحدا ان ھذا لشی عجاب ۔ کیاتم چاہتے ہو کہ سارے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بناڈالو ،واقعی تمہار معاملہ بہت تعجب خیزہے ۔جی ہاں ! تعجب کیوںنہ کرتے کہ اُن کی بصیرت کھوچکی تھیں ، حق کے انکاری بن چکے تھے
ادھر ابوطالب 80 سال کے ہوگئے تھے اور گھاٹی میں قید رہنے کی وجہ سے بہت زیادہ کمزور بھی ہوچکے تھے ،اِسی کے اثر سے بیمار پڑگئے ،اور گھاٹی سے نکلنے کے چھ ماہ بعد دنیا سے چلے گئے ۔ اللہ کے رسول ﷺکی بیحد خواہش تھی کہ ابوطالب اسلام قبول کرلے ،لیکن اللہ کومنظورنہ تھا ،آخری لفظ جو اُسکی زبان سے نکلا ،عبدالمطلب کی ملت پر .... اُس وقت بھی اللہ کے رسول نے فرمایا: جب تک میں اِس سے روک نہ دیاجاوں دعائے مغفرت کرتا رہوں گا : اِس پر یہ آیت نازل ہوئی ماکان للنبی والذین آمنوا ان یستغفروا للمشرکین ولوکانوااولی قربی من بعدماتبین لھم انھم اصحاب الجحیم ۔ نبی اورمومنوں کے لیے درست نہیں کہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں ،اگرچہ وہ رشتے دار ہی کیوںنہ ہوںجبکہ واضح ہوچکا ہو کہ وہ لوگ جہنمی ہیں ۔ ....

محترم قارئین ! آپ غورکیجئے کہ کس قدر ابوطالب نے اپنے بھتیجے کا دفاع کیا،ہرجگہ ساتھ دی ،قریش کی اذیتوںکے سامنے ڈھال بن کر کھڑے رہے، لیکن نجات کے لیے رشتے داری ،دفاع ،اورمحبت کافی نہیں بلکہ ایمان ضروری ہے ۔
ابوطالب کی وفات کو ابھی تین مہینے ہی گذرے تھے ،کہ ایک دوسرا غم لاحق ہوا آپ کو ....اور وہ غم تھا خدیجہ ؓ کی وفات کا غم ....اُن کی وفات نبوت کے دسویں سال ماہ رمضان میں ہوئی ،اُس وقت وہ 65برس کی تھیں اور اللہ کے رسول پچاسویں سال میں قدم رکھ چکے تھے ،حضرت خدیجہ ؓ آپ کے لیے گرانقدر نعمت تھیں،دفاع کے لیے باہر میں ابوطالب تھے تو تسلی دلانے کے لیے گھرمیں خدیجہ تھیں ۔ انہوںنے اللہ کے رسول کا دامے درمے قدمے سخنے تعاون کیا ،اپنی جان اورمال سے مدد کرتی رہیں ۔ اِسی لیے اللہ کے رسول ﷺ اُنکی موت کے بعدبھی اُن کو ہمیشہ یادکرتے ،اوراُن کی خوبیاں بیان کرتے رہتے تھے ۔

محترم قارئين! خدیجہ اورابوطالب کی وفات کیاتھی کہ آپ پر کوئی پہاڑ گر گیاہو ،ابوطالب ظاہری سہارا تھے وہ چلے گئے ،اورخدیجہ مونس وغم خوار تھیں وہ بھی رحلت فرماگئیں،مصیبتوں کے مسلسل آنے کی وجہ سے اللہ کے رسول نے اِس سال کوعام الحزن یعنی غم کا سال قراردیا،اِن دو نوںکی وفات کے بعد اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ قریش کا کیسا معاملہ ہوا ؟ اورآپ ﷺ نے دعوت کا کیا طریقہ اپنایا ....اسے ہم ان شاءاللہ اگلے حلقہ میں....کل ٹھیک اِسی وقت بیان کریں گے ،تب تک کے لیے اجازت دیجئے ۔ اللہ حافظ

ليست هناك تعليقات: