السبت، أغسطس 04، 2012

فتح مكه


 الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

حدیبیہ میں مسلمانوں اور قریش کے مشرکین کے بیچ صلح ہوئی کہ دس سال تک دونوں کے بیچ جنگ بند رہے گی ،یہ بھی اتفاق ہوا کہ دوسرے قبیلے بھی فریقین میں سے کسی کے حلیف بن سکتے ہیں ،چنانچہ قبیلہ خزاعہ مسلمانوں کے حلیف بن گئے اورقبیلہ بنوبکر قریش کے حلیف بن گئے ،دونوں قبیلوں کے بیچ زمانہ جاہلیت سے دشمنی چلی آرہی تھی ،ایک روز ایسا ہوا کہ بنو بکر نے خزاعہ پر حملہ کردیا،قریش نے بھی بنوبکر کی چپکے سے ہتھیاروں اورآدمیوں سے مددکی ،یہا ںتک کہ بنوبکر نے اُن کے بیس سے زیادہ آدمی قتل کردئیے ،اِس طرح اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ قریش نے خیانت کی اور دھوکہ دیا،بنو خزاعہ چونکہ رسول ﷺ اللہ کے ساتھ صلح میں شامل ہوگئے تھے ،اس لیے انہوں نے اللہ کے رسول ﷺکو واقعے سے باخبرکیا،اللہ کے رسول ﷺ نے اُن کویقین دلایاکہ تمہاری پوری طرح مددکی جائے گی۔اِدھر قریش کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا تو فوراً ابوسفیان کو نبی پاک ﷺ کی خدمت میں بھیجاکہ مدینہ جاکرصلح کے معاہدے کو پختہ کرلو۔ابوسفیان مدینہ پہنچا تو سب سے پہلے اپنی بیٹی ام المومنین ام حبیبہ ؓ کے پاس آیا،ایک عرصہ بیت گیاتھا بیٹی کو دیکھے ہوئے ، سوچا رہا ہوگا ،خوب آوبھگت کرے گی ،جب گھر میں داخل ہوا اور رسول اللہ ﷺ کے بستر پر بیٹھنا چاہا تو انہوں نے بستر لپیٹ دیا،ابوسفیان نے کہا: بیٹی ! کیاتم نے اس بستر کو میرے لائق نہیں سمجھا یامجھے اِس بستر کے لائق نہیں سمجھا ؟۔ مومنہ بیٹی نے بے ساختہ جواب دیا: یہ رسول اللہ ﷺ کا بسترہے اورآپ ناپاک مشرک ہیں ۔ابوسفیان نے کہا: واللہ میرے بعد تجھے شرلاحق ہوگیاہے ۔ پھر وہ نبی رحمت کے پاس آیا اور گفتگو کی ،آپ نے کچھ جواب نہ دیا،تو ابوبکر کے پاس آیاکہ وہ رسول اللہ ﷺ سے اس سلسلے میں بات کریں ،انہوں نے کہا کہ میں نہیں کرسکتا ۔ تب عمر فارو ق کے پاس گیا ،انہوں نے سخت لہجے میںجواب دیا،تو حضرت علی ؓ کے پاس آیا،حضرت علی نے اُسے سمجھایا کہ تم جیسے آئے ہو ویسے ہی مکہ چلے جاو۔ اس طرح ناامید ہوکر ابوسفیان مکہ پہنچا ،مکہ کے لوگوںمیں خوف پیدا ہوگیاتھا،اورگھبراہٹ سماگئی تھی ۔اِدھر اللہ کے رسول ﷺ قریش پر حملہ کرنے کی تیاری کرنے لگے ،اورمعاملے کو بالکل راز میں رکھا ،لیکن اُسی بیچ حاطب بن ابی بلتعہ نے ایک خط لکھ کر قریش کو بھیج دیاکہ رسول اللہ تم پر حملہ کرنے والے ہیں ،انہوں نے یہ خط ایک عورت کو دیا اور پہنچانے پر معاوضہ رکھاتھا،اللہ کے رسول ﷺکو وحی کے ذریعہ حاطب بن ابی بلتعہ کے عمل سے باخبر کردیاگیا،فوراً اللہ کے رسول ﷺ نے علی بن ابی طالب اور زبیر بن عوام ؓ کو اس کے پیچھے لگایا،صحابہ گئے اور عورت سے وہ خط طلب کیا،بولی : میرے پاس کوئی خط نہیں ہے ،لوگوںنے کہا: یاتو خط نکالو یاپھر تمہیں ننگا کردیں گے ۔ ڈر سے فوراً اُس نے خط نکال کر صحابہ کے حوالے کردیا،خط لے کر آئے اوراللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں پیش کیا،اللہ کے رسول ﷺنے حاطب بن ابی بلتعہ کو بلایااورکہا: حاطب ! یہ کیا ہے ؟ حاطب نے معذرت کی کہ میں اللہ اوراسکے رسول پر ایمان رکھتا ہوں،میں بالکل بدلا نہیں ہوں،لیکن مکہ میں میرے اہل عیال اور بال بچے تھے ،اورقریش میں میرا کوئی قرابتدار نہیں جو ان کی حفاظت کریں ،اس لیے میں نے چاہا کہ کوئی احسان کردیں جس کے بدلے وہ ہمارے بال بچوں کی حفاظت کریں ۔عمر فاروق نے جوش میں کہا:یارسول اللہ مجھے حکم دیجئے اس کی گردن ماردوںکہ اس نے اللہ اوراُس کے رسول کی خیانت کی ہے ،منافق ہوگیاہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: یہ جنگ بدرمیں حاضر ہوچکا ہے اور تمہیں کیاپتہ ؟ہوسکتا ہے اللہ نے اہل بدرپر جھانک کر کہا ہو ،تم لوگ جوچاہو کرو،میں نے تمہیں بخش دیا ۔ یہ سن کر عمرفاروق ؓ آبدیدہ ہوگئے اورکہا : اللہ اوراس کے رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں ۔
10 رمضان سن 8 ہجری کو رسول اللہ ﷺ اپنے دس ہزار صحابہ کے ساتھ مکہ کے لیے روانہ ہوئے ،جحفہ پہنچے تو حضرت عباس ؓ ملے جو مسلمان ہوکر اپنے بال بچوںسمیت مدینہ آرہے تھے ،جب رسول اللہ ﷺکدید پہنچے تووہاں ٹھہرے ،ابوسفیان ڈرکے مارے نکل آیا تھا کہ چل کر معافی مانگ لیں،حسن اتفاق عباسؓ سے ملاقات ہوگئی ،اُس وقت عباس ؓ رسول اللہ کے خچر پر سوار تھے ،عباس نے اُسے بٹھا لیا،اور لے جاکر اللہ کے رسول کی خدمت میں پیش کی،آپ ﷺ نے فرمایا:ابوسفیان ! تم پر افسوس کیااب بھی وقت نہیں آیا کہ تم جان سکو کہ اللہ کے سواکوئی معبود برحق نہیں ۔بہرکیف اُسی جگہ ابوسفیان نے اسلام قبول کرلیا ۔
اس طرح د س ہزار فوج کے ساتھ رسول اللہ مکہ میں داخل ہوئے ،سورہ فتح کی تلاوت کرتے ہوئے انصارومہاجرین کے بیچ مسجد حرام میں آئے ،حجراسود کو چوما ،بیت اللہ کا طواف کیا،اُس وقت بیت اللہ کے اردگرد ۰۶۳بت تھے ،آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے انہیں گراتے جارہے تھے اور فرمارہے تھے جاءالحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا ”حق آگیااورباطل چلا گیا،یقیباً باطل جانے ہی والا ہے “۔ ....جب طواف سے فارغ ہوگئے تو عثمان بن طلحہ ؓ کو بلایا،جن کے پاس کعبے کی کنجی تھی ،اُن سے دروازہ کھلوایا،اُن میں جو بت تھے انہیں نکلواکر باہر پھینک دیا۔جو تصویریں تھیں انہیں مٹوایا۔اُس کے بعداسامہ بن زید اور بلال کو ساتھ لے کراندر داخل ہوئے ،اوردروازہ بندکرلیا،دو رکعت نماز ادا فرمائی اوراُس کے چاروں طرف گھوم گھوم کر تکبیر وتوحید کے کلمات کہے ۔ پھر آپ نے کعبہ کا دروازہ کھولا ،قریش مسجد حرام میں صفیں لگائے بھرے تھے ،سب کو اِسی کا انتظار تھا کہ پتہ نہیں ۱۲ سال کی لگاتار زیادتیوںکی کیاسزاملتی ہے ،جی ہاں !یہ وہی قریش تھے جن کی زیادیاں اب تک آپ سنتے آئے ہیں ،مکہ کی دھرتی گواہی دے رہی تھیں اُن سارے ظلم وستم کی جو قریش نے محسن انسانیت اور کمزور مسلمانوںپر ڈھائے تھے ۔کتنے پیٹھوںکو چھیدا ،تپایااور داغا تھا،یہ وہی قریش تھے جنہوںنے مسلمانوںکو گھر سے بے گھر کیاتھا،اپنے ہمدرد کے قتل کے درپے ہوئے تھے ، مدینہ میںپناہ لے لی تھی لیکن وہاں بھی کسی دن چین سے بیٹھنے نہ دیاتھا، آپ نے کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوکر قریش سے فرمایا: لاتثریب علیکم الیوم.... اذھبوافانتم الطلقاء”آج تم پر کوئی سرزنش نہیں ،جاو!تم سب آزاد ہو “۔ سبحان اللہ ....انسانیت کی پوری تاریخ ایسے عفو ودرگذرسے خالی ہے ۔
سلام اُس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاںسن کر دعائیں دیں
سلام اُس پر کہ دشمن کو حیات جاوداں دے دی
سلام اُس پر ابوسفیان کو جس نے اماں دے دی
سلام اُس پر کہ اسرار محبت جس نے سمجھائے
سلام اُس پر کہ جس نے زخم کھاکرپھول برسائے
سلام اُس پر کہ جس کے گھر میں چاندی تھی نہ سونا تھا
سلام اُس پر کہ ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا
دروداُس پر کہ جس کانام تسکین دل وجاں ہے
دردو اُس پر کہ جس کے خلق کی تفسیر قرآن ہے ۔
بہرکیف اُسی دن اللہ کے رسول ﷺ نے مردوں سے اسلام پر بیعت لی اور عورتوں سے بھی اسلام پر بیعت لیا ،اُسی دن ابوبکر ؓ کے والد ابوقحافہ مسلمان ہوئے ،جن کے اسلام سے اللہ کے رسول ﷺ کو بیحد خوشی ہوئی ۔ نمازظہر کا وقت ہوا تو اللہ کے رسول ﷺنے بلال ؓ  کو حکم دیا اورانہوں نے کعبہ کی چھت پراذان دی ۔ جو اعلان تھا غلبہ اسلام کا ....اعلان تھا اسلام کی شوکت ،قوت اور طاقت کا ....
اللہ کے رسول ﷺ نے مکہ میں انیس روز تک قیام فرمایا ،اِس دوران آثار اسلام کی تجدید کی ،مکہ کو جاہلیت کی گندگیوں سے پاک کیا،پورے مکہ میں اعلان کرایاکہ ”جو شخص اللہ اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے گھر میں کوئی بت نہ رہنے دے ،بلکہ اُسے ٹکڑے ٹکڑے کر دے “۔

محترم قارئین !انہیں چند کلمات پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں ، اگلے حلقہ میں کل ٹھیک اِسی وقت ان شا ءاللہ سیرت طیبہ کی تازہ جھلکیوں کے ساتھ پھر ملیں گے ۔ تب تک کے لیے اجازت دیجئے ۔ اللہ حافظ

ليست هناك تعليقات: