السبت، أغسطس 04، 2012

غزوه خيبر


الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

 صلح حدیبیہ کے بعد قریش کی حرکت ٹوٹ چکی تھی ،اورمسلمان ان کے شر سے محفوظ ہوچکے تھے ،رہے غطفان جو خندق میں چھ ہزار کی فوج لے کرآئے تھے تو یہ بھی اصل میں خیبر کے یہودیوں کے بہکانے کی وجہ سے تھا ،خیبرکے یہودیوں نے ہی قریش کو ،غطفان کو اور سارے عرب قبائل کو اسلام کے خلاف متحد کرکے خندق میں جمع کیا تھا، یہ اہل خیبر ہی تھے جنہوں نے بنوقریظہ کو خیانت پر آمادہ کیاتھا،یہ اہل خیبر ہی تھے جو سارے اسلام دشمنوں کو اکساتے رہتے تھے ،اور خودبھی جنگ کی تیاریاں کررہے تھے ،بلکہ اللہ کے رسول ﷺ کو بھی شہید کرنے کا پلان بنالیاتھا ،یہ مسلمانوں کے لیے خطرہ کی گھنٹی بنے تھے ، خیبر میں اکٹھا ہوکر انڈے بچے دے رہے تھے ،اس لیے ضرورت تھی کہ اہل خیبر کی سرکوبی کی جائے تاکہ پورے عرب میں امن وامان قائم ہوسکے ۔
چنانچہ اہل خیبر کی سرکوبی کے لیے اللہ کے رسول ﷺ نے تیاری شروع کردی ،انہیں صحابہ کو ساتھ لیاجو صلح حدیبیہ میں شریک تھے اورواقعی مخلص تھے جن کی تعداد چودہ سو تھی ،
اللہ کے رسول ﷺنے رات بالکل خیبر کے قریب گذاری ،اور صبح علی الصباح خیبر میں داخل ہوئے تو اُس وقت خیبر والے کھیت میں کام کرنے کے لیے نکل رہے تھے ،اسلامی لشکر کو دیکھا تو بھاگتے ہوئے آئے ،اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اللہ اکبر خربت خیبر اللہ اکبر خربت خیبر انا اذا نزلنا بساحة قوم فساءصباح المنذرین ” اللہ اکبر خیبر تباہ ہوا ، اللہ اکبر خیبر تباہ ہوا ،جب ہم کسی قوم کے میدان میں اُترتے ہیں تو اُن ڈرائے ہوئے لوگوںکی صبح بُری ہوجاتی ہے “۔
محترم قارئین ! جس رات اللہ کے رسول ﷺ خیبر کی حدود میں داخل ہوئے آپ نے فرمایا: ”میں کل جھنڈاایک ایسے آدمی کو دوںگا جو اللہ اوراس کے رسول سے محب کرتا ہے او راللہ اور اسکے رسول اُس سے محبت کرتے ہیں ،رات بھر لوگ اسی فکر میں رہے کہ پتہ نہیں کون خوش نصیب ہے جس کو یہ شرف حاصل ہوتا ہے، صبح صبح جب لوگ اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں اکٹھا ہوئے تو آپ ﷺ نے پکارا: علی کہا ں ہیں ؟لوگوںنے کہا: یارسول اللہ ! اُن کی تو آنکھ آئی ہوئی ہے ۔ آپ نے فرمایا: اُنہیں بلاو،وہ آئے ،آپ ﷺ نے اُن کی آنکھ میں اپنے منہ کا لعاب لگایااور دعا فرمائی ،اللہ کی شان کہ اُسی وقت ٹھیک ہوگئے ،گویا انہیں کوئی تکلیف ہی نہ تھی ،پھرنبی پاک ﷺ نے اُن کو جھنڈا عطافرمایااورکہا : اطمینان سے جاو،یہاں تک کہ اُن کے میدان میں اُتر و،پھر انہیں اسلام کی دعوت دو ،فواللہ لان یھدی اللہ بک رجلا واحدا خیرلک من حمر النعم اللہ کی قسم ! تمہارے ذریعہ اللہ تعالی ایک آدمی کو بھی ہدایت دے دے تویہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے “۔ ........ خیبر کی آبادی دو علاقوںمیں بٹی ہوئی تھی اور ہر علاقے میں کئی قلعے تھے ،حضرت علی ؓ سب سے پہلے قلعہ ناعم کے پاس گئے ، اور یہود کو اسلام کی دعوت دی ،انہوں نے اسلام کی دعوت کو رد کردیا اور اپنے بادشاہ مرحب کے ساتھ مقابلے کے لیے تیار ہوگئے ،سب سے پہلے خیبرکابادشاہ مرحب میدان میں آیا جس کا مقابلہ کرنے کے لیے عامر ؓ نکلے ،دونوں نے ایک دوسرے پر وار کیا ، لیکن عامر ؓ زخمی ہوگئے تو مرحب کے مقابلے کے لیے حضرت علی ؓ تشریف لے گئے ،آپ یہ شعر کہہ رہے تھے
 انا الذی سمتنی امی حیدرہ
کلیث غابات کریہ المنظرة
”میں وہ شخص ہوں کے میری ماں نے میرا نام حیدریعنی شیر رکھا ہے ،جنگل کے شیر کی طرح خوفناک “۔
اُس کے بعد مرحب کے سر پر ایسی تلوار ماری کہ وہ وہیں پر ڈھیر ہوگیا اور حضرت علی ؓ کے ہاتھو ںقلعہ ناعم فتح ہوا ۔ اُس کے بعد مسلمانوں نے دوسرے قلعہ صعب بن معاذ کا رخ کیاجس پر زور وں کے رن کے بعدقابض ہوئے ۔ پھر قلعہ زبیر کو فتح کیا ،اس کے بعد قلعہ ابی کو فتح کیا ، سارے قلعوں میں سخت ترین قلعہ ’قلعہ نزار‘ تھا لیکن وہ بھی فتح ہوگیا،
اب تک خیبر کا آدھا حصہ فتح ہوچکا تھا ،اب مسلمانوں نے دوسرے حصہ کا رخ کیا ،بات یہ تھی کہ جو قلعہ فتح ہوتا تھا یہود اُس سے نکل کر دوسرے قلعوںمیں چلے جاتے تھے ،جب اللہ کے رسول ﷺ نے کتیبہ علاقے کا محاصرہ کیا تو چودہ روز تک محاصرہ جاری رہا،جب یہودکو تباہی کا یقین ہوگیاتو صلح کے لیے قلعہ سے نکلے ۔اللہ کے رسول ﷺ نے صلح اِس شرط پر منظور کرلی کہ سب خیبرسے نکل جائیں گے ،اُن کی جان بخشی کردی جائے گی ،اُن کے بال بچے اُن کے ہی پاس رہیں گے ۔....خیبر کے یہودیوں کے تئیں معاہدہ تو یہی تھا کہ انہیں خیبر سے نکل جانا ہے ،لیکن پھر انہوں نے اللہ کے رسول ﷺسے گذارش کی کہ انہیں اسی سرزمین میں رہنے دیاجائے ،چانچہ اللہ کے رسول ﷺ نے اُن کا رہنا منظورکرلیااور خیبر کی زمین اِس شرط پر اُن کے حوالے کردی کہ ساری کھیتی اور تمام پھلوں کی پیداوار کا آدھا حصہ یہودکا ہوگا ۔
اسی غزوہ میں خیبر کے سردار حی بن اخطب کی بیٹی صفیہ قید یوںمیں لائی گئیں،اللہ کے رسول ﷺ نے اُن پر اسلام پیش کیا انہوںنے اسلام قبول کرلیا ،چنانچہ صحابہ کرام کے مشورے سے آپ نے انہیں آزاد کرکے اُن سے شادی کرلی ۔اس طرح صفیہ رضى الله عنها ام المومنین بن گئیں ۔

محترم قارئین ! آپ نے دیکھا کہ نبی رحمت ﷺ نے یہود کی اِتنی غداری اور بے وفائی کے باجود کیسے اُن پرحسان کیا ،اور خیبر میں رہنے کا موقع عنایت فرمایا،ان سارے احسانات کے باوجود چند ہی دنوںمیں جبکہ اللہ کے رسول خیبر ہی میں تھے کہ اُن کی بے وفائی لوٹ آئی،اپنے محسن کے قتل کے درپے ہوگئے ، پلان کے مطابق ایک یہودیہ جس کا نام زینب بنت حارث تھا ،اُس نے اللہ کے رسول کی خدمت میں زہرآلود گوشت پیش کیا،اُسے معلوم تھا کہ رسول اللہ ﷺ کو بازو زیادہ پسند ہے ،اِس لیے اُس نے بازومیں زیادہ زہر ملایا،اُس کے بعداللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں پیش کیا ،اللہ کے رسولﷺ نے اُس کا ایک ٹکڑا چبایالیکن نگلنے کی بجائے تھوک دیااورفرمایا: یہ ہڈی مجھے بتارہی ہے کہ اِس میں زہر ملایاگیاہے ۔ فوراً زینب کو بلایاگیااور اُس سے پوچھا گیا :کہ کیاتم نے ایسی حرکت کی ہے؟ اُس نے اقرار کرلیا ،کہ ہاں میں نے ایسا کیا ہے ۔پوچھاگیا: تونے ایسا کیوں کیا؟ اُس نے کہا : میں نے سوچا کہ اگر یہ بادشاہ ہے تو ہمیں اُس سے راحت مل جائے گی اوراگر نبی ہے تو اُسے خبر دے دی جائے گی ۔ اِ س پر آپ نے اُسے معاف کردیا ۔ لیکن آپ کے ساتھ کھانے والوںمیں بشر بن براءؓ بھی تھے جنہوں نے ایک ٹکڑا نگل لیا تھا اوراسی سے اُن کی موت ہوگئی،چنانچہ قصاص کے طور پر اللہ کے رسولﷺ نے اُس عور ت کو قتل کرادیا ۔

محترم قارئين ! جب اللہ کے رسول ﷺ یہود کے شر کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اب تیسرے بازوبنو غطفان کی طرف دھیان دیا،یہ اصل میں بدّولوگ تھے جو نجد کے علاقے میں خیموںمیں رہتے تھے اورلوٹ مار کرتے تھے ،اِن سے مقابلہ کیا کرتے ،بس اِن کو ڈرانا دھمکانا مقصود تھا ،اِسی ارادے سے سن ۷ ہجری میں چارسو یا سات سو صحابہ کو لے کر نجد کے علاقے میں گئے ،مقام نخل پہنچے تو بنوغطفان کی ایک جماعت سے سامناہوا ،پر جنگ نہیں ہوئی ۔اِس غزوے کو ذات الرقاع کہتے ہیں : اِسی غزوے سے لوٹتے وقت ایک واقعہ پیش آیا جو سیرت کا بہت مشہور واقعہ ہے :
صحیح بخاری کی روایت ہے ، اِ س غزوے سے واپسی پر اللہ کے رسول ﷺ نے ایک جگہ قیام فرمایا، سارے لوگ درخت کے سائے میں آرام کرنے کے لیے ادھر اُدھر منتشر ہوگئے ،نبی پاک ﷺ بھی ایک درخت کے پاس گئے اور اُسی درخت پر اپنی تلوار لٹکادی اور آرام سے سوگئے ،ایک دیہاتی آیا اور آپ کی تلوار سونت لی ،اور بولا : تم مجھ سے ڈرتے ہو ؟ آپ نے فرمایا: نہیں ۔ اس نے کہا : فمن یمنعک منی ؟ تب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے بے ساختہ فرمایا: اللہ ،نہ جانے اِس لفظ میں کونسی طاقت تھی کہ تلوار اُس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گرگئی ،اب اللہ کے رسول ﷺ نے تلوار اُٹھا لی ،اور پوچھا : اب بتاوتجھے مجھ سے کون بچائے گا ؟ کہا : آپ کا احسان ۔ یعنی اگر آپ احسان کریں تو بچ سکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: کیاتم شہادت دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اورمیں اللہ کا رسول ہوں۔ اُس نے کہا: میں آپ سے عہد کرتا ہوں کہ نہ آپ سے جنگ کروں گا اورنہ جنگ کرنے والوں کا ساتھ دوں گا ۔اللہ کے رسول ﷺنے اُسے معاف کردیا ۔ اب جو اپنی قوم میں گیا تو کہنے لگا : میں تمہارے یہاں سب سے اچھے انسان کے پاس سے آرہا ہوں ۔

محترم قارئین !ہم نے صلح حدیبیہ کے اتفاق میں سنا تھا کہ مسلمانوں کو اُس وقت عمرہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی ،لیکن کہا گیاتھا کہ اگلے سال آپ لوگ آئیں ،تین روز مکہ میں قیام کریں اوراس بیچ عمرہ کرلیں، چنانچہ جب سن سات ہجری کے محرم میں خیبر فتح ہوگیاتو اُسی سال ذی القعدہ میں اللہ کے رسول ﷺاپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ کے لیے نکلے ،ذوالحلیفہ آئے ،احرام باندھا ،لبیک پکارا،اورسوئے مکہ ہوئے ،مسجد حرا م میں پہنچے تو چھڑی سے حجر اسود کوچھوا،پھر سواری ہی پر طواف کیا،مسلمانوں نے بھی داہنے کندھے کو کھولے خانہ کعبہ کا طواف کیا،مشرکین پہاڑ پر بیٹھے آپس میں باتیں کررہے تھے کہ دیکھو ! یثرب کے لوگوں کو بخار نے کمزور کر رکھاہے ۔چنانچہ اللہ کے رسولﷺ نے حکم دیاتھاکہ پہلے تین چکروںمیں دوڑ لگائیں تاکہ مشرکین پر تمہاری طاقت ظاہر ہوسکے ۔پھر آپ نے صحابہ کرام کے ساتھ صفا ومروہ کی سعی کی او رسرمٹڈوایا۔ اس طرح عمرہ مکمل کیا اور تین روزمکہ میں قیام فرمانے کے بعد مدینہ لوٹ آئے ۔

محترم قارئین !انہیں چند کلمات پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں ، اگلے حلقہ میں کل ٹھیک اِسی وقت ان شا ءاللہ سیرت طیبہ کی تازہ جھلکیوں کے ساتھ پھر ملیں گے ۔ تب تک کے لیے اجازت دیجئے ۔ اللہ حافظ

ليست هناك تعليقات: