السبت، أغسطس 04، 2012

اخلاق نبوى صلى الله عليه وسلم


الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

یہ حلقہ سیرت طیبہ کی جھلکیوں کا آخری حلقہ ہوگا،ہم نے اب تک 28 حلقے آپ تک پیش کئے ،کتنے حسین لمحات تھے وہ جو ہم نے اپنے حبیب کے ساتھ گذارے ،اُن کی ولات سے پہلے کی زندگی کے بارے میں سنا ،اُن کی ولادت کے بعد کی زندگی کے بارے میں گفتگوکی ،اُن کی نبوت کے بارے میں بات کی ،اُن کی دعوت پر روشنی ڈالی ،رسول اللہ اور مسلمانوں کے ساتھ قریش کی زیادتیوں کا تذکرہ کیا،اسلام اورکفرکے بیچ ہونے والے غزوات کی جھلکیاں پیش کیں ۔پھر فتح مکہ اوراُس کے مابعد کے احوال بیان کئے ....جی ہاں ! یہ ساری گفتگو اُس انسان کے متعلق ہوئی جو رحمة للعالمین تھے ،جو محسن انسانیت تھے ،جو سارے جہاں کا درد اپنے سینے میں رکھے ہوئے تھے -

توآئیے یہ آخری حلقہ ہم اپنے حبیب کے اخلاق کے ساتھ بتاتے ہیں ....ظاہر ہے کہ جس نبی کی دعوت عالمگیر اورآفاقی تھی اُس کے اخلاق بھی عالمگیر اورآفاقی ہی ہوں گے ۔ خوداللہ نے اِس کی گواہی دی ،وانک لعلی خلق عظیم اوربیشک آپ بہت عمدہ اخلاق پر ہیں ۔ انہوں نے خود فرمایا: بعثت لاتمم مکارم الاخلاق مجھے اس لیے بھیجا گیاہے تاکہ مکارم اخلاق کی تکمیل کردوں۔ اوراللہ پاک نے ہم سب کو اپنے حبیب کا اسوہ اختیار کرنے کی تاکید کی :ولکم فی رسول اللہ اسوة حسنة تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں عمدہ نمونہ ہے ۔
آپ کے اندر ایسی سچائی اور امانت داری تھی کہ جانی دشمن بھی آپ کی سچائی اورامانت کا اقرار کرتے تھے ،بچپن سے ہی آپ کو سارا ملک صادق یعنی سچا اورامین یعنی امانت دار کہہ کر پکارا کرتا تھا ۔ ہمارے حبیب نہایت نرم مزاج اور سادگی پسندتھے ،مجلس میں کبھی پاوں پھیلاکر نہ بیٹھتے ،کوئی ملتا تو اُسے سلام کرنے میں پیش قدمی کرتے ،یہاں تک کہ بچوں کے پاس سے بھی آپ کا گذرہوتا تو انہیں سلام کرتے ،مصافحہ کے لیے بھی خودہی پہلے ہاتھ بڑھاتے ،اوراپنا ہاتھ اُس وقت تک نہ کھینچتے ،جب تک کہ وہ خود نہ کھینچ لے ،لوگوں سے مل جل کر رہتے ،کوئی دعوت دیتا تو اُس کی دعوت قبول فرماتے ،ساتھ میں بیٹھنے والوں کے ساتھ نہایت خوش اسلوبی اوراعلی ظرفی سے پیش آتے ۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں : آپ اپنے جوتے خود ٹانکتے ،اپنے کپڑے خود سیتے ،اپنی بکری خود دوہتے اوراپنا کام خود کرتے تھے ۔
خاکساری کا یہ عالم تھا کہ کبھی خادم کو اُف تک نہ کہا بلکہ خادم کا کام خودکردیتے تھے ،انس ؓ فرماتے ہیں :میں نے دس سال تک رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی لیکن مجھے یاد نہیں کہ کبھی رسول اللہ ﷺ نے ہم سے کہا ہو کہ تم نے ایسا کیوں کیا اور ایسا کیوں نہیں کیا ۔
آپ بردباری اورقوت برداشت کے نمونہ تھے ،آپ کی بردباری کا ہی اثر تھا کہ قریش کی اذیتوں کوبرداشت کیا،پتھرمارنے والوں کو دعائیں دیں ،21سال تک لگاتار مشق ستم بنانے والوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔ایک روز کی بات ہے ، ایک گنوا رنے پیچھے سے آکر زور سے آپ کی چادر کھینچی ،گردن سرخ ہوگئی ،نبی ﷺ نے پیچھے لوٹ کر دیکھا تو اُس نے کہا : اے محمد !میری مدد کرومیں غریب ہوں۔آپ اُس کی طرف متوجہ ہوئے ،مسکرائے ، پھرآپ نے اُس کے لیے کچھ عطیہ کا حکم دیا ۔ غرضیکہ آپ ہمیشہ صبر کے پیکر بنے رہے ،ظالموںاورخون کے پیاسوں کو معاف کرتے رہے ....گویاکہ بزبان حاک کہہ رہے ہوں  ہم تو وفا کے عادی ہیں ظلم تیرا دستورسہی ....
 آپ کے انصاف کی ایسی شہرت تھی کہ یہودی تک آپ کے پاس اپنے مقدمات پیش کرتے اورآپ اُن کی کتاب کی شریعت کے مطابق اُن کے لیے فیصلے فرماتے ،اونچے خاندان کی ایک عورت نے چوری کی تھی ،جب کچھ لوگوں نے اُس کے تئیں سفارش کرنی چاہی توآپ نے فرمایا:اللہ کی قسم اگر فاطمہ بنت محمدنے بھی چوری کی ہوتی تو میں اُس کا ہاتھ کاٹ دیتا ۔
آپ عیب جوئی ،بدگمانی اورچغل خوری سے سخت نفرت کرتے تھے،آپ فرماتے :کوئی کسی کے بارے میں ہمارے پاس کوئی بات نہ پہنچائے ،میری خواہش ہوتی ہے کہ جب میں تمہارے پاس سے نکلوںتو میرا سینہ بالکل صاف ہو۔ راتوںمیں اس کثرت سے عبادت کرتے کہ پاوں مبارک سوج جاتے۔سجدہ میں اتنی دیر تک رہتے کہ دیکھنے والے کو انتقال کرجانے کا وہم ہوتا ، نماز میں سینہ مبارک دیگ کی طر جوش مارتا ہوا معلوم ہوا کرتا ۔لیکن اُس کے باوجودآپ نے کبھی رہبانیت اورجوگی پن کو پسند نہیں کیا،بیوی بچوں کے حقوق ادا کرتے اور کہتے کہ خیرکم خیرکم لاھلہ وانا خیرکم لاھلی تم میں کا بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر ہواورمیں تم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔
انسانوں کا ایسا دردآپ کے سینے میں تھا کہ گمراہ انسانوں کو دیکھ کر آپ کے ضمیرمیں چبھن محسوس ہوتی تھی ،یہاں تک کہ اللہ پاک نے اُس پر رحم کھائی فلعلک باخع نفسک علی آثارھم ان لم یونوا بھذا الحدیث اسفا اگر یہ لوگ اِس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیاآپ اُن کے پیچھے اسی غم میں اپنی جان ہلاک کرلیں گے ؟ ۔
آپ کے اندر سخاوت ایسی تھی کہ کسی سائل کو ”نا“میں جواب نہ دیا ،اگر کچھ نہ ہوتا تو قرض لے کربھی اُس کی ضرورت پوری کردیتے ،پورے عرب پر آپ کی حکمرانی تھی ،بحرین سے حبش تک آپ کا بول بالا تھا ، عیش وآرام کی زندگی گذار سکتے تھے لیکن آپ نے زہد کو ترجیح دیا،آپ کے گھر کی تنگی کا یہ عالم تھا کہ جب آپ نمازادا فرمارہے ہوتے اورعائشہ ؓ اُس میں سوئی ہوتیں تو سجدہ کرتے وقت اُن کو اپنا پیر موڑنے کی ضرورت ہوتی تھی تاکہ سجدہ کرسکیں ۔بستر کیاتھا ؟کھال کابستر تھا جس میں کھجور کی چھال بھر دی گئی تھی ۔عائشہ ؓ فرماتی ہیں : نبی اکرم ﷺ نے کبھی پیٹ بھر کر کھانانہیں کھایا،اورنہ کبھی فاقہ کا شکوہ کیا،کبھی ایسا ہوتا کہ بھوک کی وجہ سے آپ کو رات بھر نیند نہیں آتی ،مگر اگلے دن کا پھر روزہ رکھ لیتے ۔ مہینوںگذرجاتا اورآپ کے گھر میں آگ نہیں جلتی تھی ،آپ کی بیوی عائشہ ؓ کہتی ہیں : ہم پر مہینہ گذرجاتا اورہمارے چولہے میں آگ نہیں جلتی تھی ،ہم لوگوںکا اکثر کھانا کھجوراورپانی ہواکرتا تھا ۔ ۔نبی پاک ﷺ نے جو آخری رات دنیامیں کاٹی ،اُس رات صدیقہ ؓ نے چرا غ کے لیے تیل ایک پڑوسن سے اُدھارلیاتھا ۔جیسا زہد خود اختیار کرتے ویسی ہی نصیحت کنبہ والوں کو بھی کرتے ،ایک دن آپ کی لاڈلی بیٹی فاطمہ ؓ نے اپنے ہاتھ دکھائے ،تنور کی آگ سے جھلس گئے تھے ،چکی پیسنے سے چھالے پڑ گئے تھے ،بیت المال سے ایک خادمہ مانگی ، آپ نے فرمایا: بیٹا ! سونے جاو تو 34مرتبہ اللہ اکبر کہہ لو 33مرتبہ سبحان اللہ کہہ لو اور33مرتبہ الحمدللہ کہہ لو یہ خادمہ سے بہتر ہے ۔
محترم قارئین ! یہ تو آپ کے اخلاق کی ایک جھلک تھی، آئیے ہم آپ کے حسن وجمال کی ایک جھلک بھی دیکھتے چلیں ....آپ ﷺ کا چہرہ انورچاند جیسا تھا ،آپ کا رنگ سفیدروشن تھا ،جابر بن سمرہ ؓ کہتے ہیں : چاندی رات تھی ،نبی پاک ﷺ بدن پر سرخ حلہ ڈالے لیٹے ہوئے تھے ،میں کبھی چاند کو دیکھتا اورکبھی آپ پر نگاہ ڈالتا تھا فاذا ھو احسن عندی من القمر بالآخرمیں نے یہی سمجھا کہ پیارے نبی ﷺ چاند سے بھی زیادہ خوبصورت ہیں ۔ پسینہ کی بوند آپ کے چہرہ پر ایسی نظر آتی جیسے موتی ۔ آپ کی ہتھیلی ریشم سے بھی زیادہ نرم تھی ،آپ کا پسینہ عطر اور کستوری سے بھی زیادہ خوشبودار تھا ،انس ؓ کی والدہ ام سلیم آپ کے پسینے کو جمع کرتیں ،سبب پوچھا گیاتو فرمائیں :آپ کا پسینہ اپنے عطر میں ملاتے ہیں کہ یہ سارے عطروں سے بہتر عطر ہے ۔
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں : من راہ بدیھة ھابہ ومن خالطہ معرفة احبہ یقول ناعتہ لم ار قبلہ ولابعدہ مثلہ جو کوئی یکایک آپ کے سامنے آجاتا وہ دہل جاتا ،جو پہچان کر آپ کے پاس بیٹھتا وہ آپ کا عقیدت مند بن جاتا،کہنے والا کہا کرتا : میں کبھی بھی حضور کے جیسا اُس سے پہلے یابعد میں نہیں دیکھا ۔

انہیں چند کلمات کے ساتھ سیرت طیبہ کا یہ پروگرام ختم ہوتا ہے ،دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو اپنے حبیب کی شفاعت نصیب فرمائے ،ہم نے جوکچھ سنا اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،جو لوگ اِس پروگرام کو آپ تک پہنچانے میں سبب نبے ہیں اللہ پاک اُن سب کی دنیاوآخرت سنواردے ۔اے مالک ! بہتری اورنیکی کی ساری قسمیں تیرے ہی ہاتھ میں ہے ،ہمیں دنیا وآخرت کی ہر طرح کی بھلائیاں نصیب فرما ۔ بارالہا ! ہمیں اپنے کاروبارمیں استقلال عطا فرما،ہمیں رزق دے جو پاک ہو ،علم دے جس کا نفع ہو ،اورایسے عمل کی توفیق دے جسے تو قبول کرلے-
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم ،وتب علینا انک انت التواب الرحیم ۔ وصل اللھم علی نبینامحمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین

ليست هناك تعليقات: