الجمعة، أغسطس 03، 2012

سیرت طيبہ کی جھلکیاں 11


الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد  الغر المحجلین نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

ہجرت حبشہ کی درمیانی مدت میں ....مکہ کے اندرایک عجیب تبدیلی آئی ، ایسی تبدیلی .... جس نے مسلمانوںکی مصیبت کوبہت حدتک کم کردیا....یہ تبدیلی ہے حمزہ بن عبدالمطلب اور عمربن خطاب کا اسلام قبول کرنا .... نبوت کا چھٹا سال ہے ،ایک دن کی بات ہے ، اللہ کا دشمن ابوجہل اللہ کے رسول ﷺ کے پاس سے گزرا تو اُس نے آپ کو سخت سست کہا ،الٹی سیدھی باتیں کہیں ،آپ خاموش رہے ،موقع غنیمت سمجھا، ایک پتھر اُٹھایااوراللہ کے رسول ﷺ کے سر پر دے مارا جس سے خون بہہ نکلا ، پھر وہ خانہ کعبہ کے پاس قریش کی ایک مجلس میں گیااورمزے لے لے کر اپنے کئے کی کہانیاں سنانے لگا۔ عبداللہ بن جدعان کی ایک لونڈی اپنے گھر سے یہ ساراماجرا دیکھ رہی تھی ۔ کچھ ہی دیر میں سیدنا حمزہ رضى الله عنه شکار کرکے تلوار لٹکائے وہاں تشریف لائے ،لونڈی نے وہ سارامعاملہ جو ابھی پیش آیا تھا حمزہ سے کہہ سنایا: یہ سنتے ہی سیدنا حمزہ ؓ تلوار لیے ابوجہل کے پاس گئے اور کہا : اے کمبخت ! تم میرے بھتیجے کو گالی دیتے ہو ،پھر انہوںنے فوراًکمان نکالی اور اِس زور سے اُس کے سرپردے مارا کہ بدترین قسم کا زخم آگیا۔اورکہا کہ تم نے ہمارے بھتیجے کو اِس لیے پتھر ماراہے کہ وہ اسلام کی دعوت دیتا ہے ،سن لو کہ میں نے اُس کے پیغام کو قبول کرلیاہے،آو کچھ کرکے دکھاو،یہ ساری باتیں ہورہی تھیںاُس کی قوم کے لوگوں کے سامنے ۔اب کیاتھا بنومخزوم اوربنوہاشم آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے ،ابوجہل نے دیکھا کہ ایسا نہ ہو کہ حمزہ ہاتھ سے نکل جائیں اِس لیے اُس نے زخم کو برداشت کیااورمعاملہ کوبالکل ٹھنڈا کردیا....یہ کہتے ہوئے کہ حمزہ کو جانے دو ....میں نے ہی اُس کے بھتیجے کے ساتھ بُرا سلوک کیاتھا ۔
جی ہاں ! یہ ہے ظلم وطغیان کا ردعمل ....جوحمزہ ؓ کے قبول اسلام کی شکل میں ظاہر ہورہا ہے ۔ کیونکہ جب ظلم اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے تواُس کا انجام ظلم کرنے والوں کے حق میں بہت بُرا ہوتا ہے ۔....بہرکیف.... حضرت حمزہ اسلام کے سایہ میں پناہ لے چکے ہیں۔اورظالموںکا منہ کالا ہواچاہتا ہے ۔

حضرت حمزہ ؓ کے اسلام قبول کیے ہوئے ابھی تین ہی دن ہوئے تھے کہ ایک اوربجلی گری قریش کے کفرستان پر....یعنی حضرت عمر فارو ق ؓ مسلمان ہوگئے ۔ اوریہ دراصل اللہ کے رسول ﷺ کی دعاکااثر تھا اللھم اعزالاسلام باحب الرجلین الیک بعمربن الخطاب اوبابی جہل بن ھشام اے اللہ عمر اورابوجہل میں سے جو شخص تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہے اُس کے ذریعہ سے اسلام کو قوت پہنچا ۔ اللہ نے یہ دعا قبول فرمائی اور عمر مسلمان ہوگئے ....اُن کے قبول اسلام کا قصہ بھی عجیب ہے .... عمرفاروق جلالی انسان تھے ،ایک روز تلوار ہاتھ میں لی اور گھرسے نکلے اس ارادے سے کہ محمدرسول اللہ ﷺ کا کام تمام کردیاجائے،ابھی راستے ہی میں تھے کہ نُعَیم بن عبداللہ سے ملاقات ہوگئی ،اُس نے تیور دیکھ کر بھانپ لیا کہ عمر کسی بُرے ارادہ سے نکلا ہے ،پوچھا : عمر کہاں کا ارادہ ہے ؟ انہوں نے کہا : محمدکو قتل کرنے جارہاہوں۔اُس نے کہا: محمد ﷺ کو قتل کرکے بنوہاشم اور بنو زہرہ سے کیسے بچ سکوگے ؟عمر نے کہا : اچھا.... لگتا ہے تم بھی بے دین ہوگئے ہو ....اُس نے کہا: عمر! پہلے اپنے گھر کی خبرلو....تمہاری بہن اور بہنوی بھی اسلام قبول کرچکے ہیں ۔ یہ سنتے ہی عمر کا چہرہ لال پیلا ہوگیا ،وہ غصہ سے بے قابوہوگئے اور سیدھے بہن بہنوئی کا رخ کیا،وہاں انہیں حضرت خباب ؓ سورہ طہ پڑھا رہے تھے ۔جب حضرت خباب ؓ  نے عمر کی آہٹ سنی تو اندرچھپ گئے،اورعمر کی بہن فاطمہ نے یہ صحیفہ چھپا دیا ،لیکن حضرت عمر کے کانوںمیں قرآن کی آواز پہنچ چکی تھی ،اندرداخل ہوئے اورپوچھا : یہ دھیمی دھیمی سی آواز کیسی تھی جو ہم نے ابھی سناہے ،انہوں نے کہا : کچھ نہیں بس ہم آپس میں باتیں کررہے تھے ۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: لگتا ہے تم دونوں بے دین ہوگئے ہو ؟ بہنوئی نے کہا: اچھا عمر : ذرا یہ بتاو،اگر حق تمہارے دین کے بجائے کسی اوردین میں ہوتو ؟ عمر کا اِتنا سننا تھا کہ بہنوئی پرٹوٹ گئے اور بُری طرح کچل دیا ۔ بہن نے لپک کرانہیں اپنے شوہر سے الگ کیا تو بہن کو ایسا چانٹا مارا کہ چہرہ خون آلودہوگیا۔ بہن نے کہا: عمر تجھ سے جو بن سکتا ہے کرلے ....لیکن یاد رکھ تم ہمارے دل سے کلمہ شہادت لا الہ الااللہ محمدرسول اللہ کو ہرگز نکال نہیں سکتے ۔ یہ سنتے ہی عمر بالکل ٹھنڈا پڑگئے ،بہن کے چہرے پر خون دیکھ کر شرمندہ ہوئے کہنے لگے : اچھا یہ کتاب جو تمہارے پاس ہے ذرامجھے بھی دکھاو ۔ بہن نے کہا: تم ناپاک ہو،اِس کتاب کو صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں ،اٹھو اورغسل کرو،عمرفاروق ؓ نے غسل کیا ،پھر کتاب لی ،اوربسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی ۔ اُس کے بعد سورہ طہ کی تلاوت شروع کی جب اِس آیت تک پہنچے اننی انا اللہ لاالہ الا انا فاعبدنی واقم الصلاة لذکری ۔ یہاں پہنچنے کے بعد کہنے لگے یہ تو بہت ہی عمدہ اور پیارا کلام ہے ۔ مجھے محمد ﷺ کا پتہ بتاو ۔ سبحان اللہ ! اچانک کیا ہوگیا تجھے اے عمر ....ابھی جس کے قتل کے درپے نکلے سے اُسی کے قدموں تلے گر رہے ہو....جی ہاں ! یہی ہے اثر .... قرآن کا.... عمر کے یہ فقرے سن کر خباب اندر سے باہر آگئے ، اورکہا : خوش ہوجاو عمر ، اللہ کے رسول ﷺ کی دعا قبول ہوگئی .... پھر اللہ کے رسول کا پتہ بتایاکہ آپ ﷺ ابھی دارارقم میں تشریف رکھتے ہیں ۔ عمر تلوار لٹکائے گھر کے پاس آئے اور دروازے پر دستک دی ۔ ایک آدمی نے دروازے کی دراز سے جھانکا تودیکھا کہ عمر ہیں،اندرجاکر اللہ کے رسول ﷺ کو خبردی ،سارے لوگ سمٹ کر یکجا ہوگئے ، حضرت حمزہ ؓ نے پوچھا: کیابات ہے ؟ کہا گیا کہ عمر ہیں ۔حضرت حمزہ نے کہا : بس عمر ہے دروازہ کھول دو ،اگر نیک ارادے سے آیا ہے تو ہم اُسے خیر عطاکریں گے اوراگر بُرا ارادہ لے کر آیاہے توبس اُسی کی تلوار سے اُس کا کام تمام کردیں گے۔ لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا اورعمر کے کپڑے اور تلوار پکڑ کر جھٹکتے ہوئے سختی سے فرمایا: اے عمر کیاتم اُس وقت تک باز نہیں آو گے جب تک کہ اللہ تعالی تم پر بھی ویسی ہی عبرتنا ک سزا نہ نازل فرمادے جیسی ولید بن مغیرہ پر نازل ہوچکی ہے ؟لیکن عمر کے دل کی دنیا تو پہلے ہی بدل چکی تھی ....عمر پکار اٹھتے ہیں اشھدان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدارسول اللہ ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ یقینا ً اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اوریقیناً آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ یہ سن کر وہاں موجودصحابہ کرام نے اِس زور سے تکبیر کہی کہ اُس کی آواز مسجد حرام والوں تک سنائی دی ۔

ليست هناك تعليقات: