الجمعة، أغسطس 03، 2012

سیرت طيبہ کی جھلکیاں 8


ا لحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد  الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

قریش مکہ نے اِس دین کے راستے میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالیں ....اِس ارادے سے کہ اِس کا کام تمام ہوجائے ،یہ دعوت مٹ جائے اور اِس کا نام لینے والا باقی نہ رہے ....لیکن اُس وقت قریش کے اِن فقیروں کو کیا پتہ تھا یہ دعوت تو دنیا میں عام ہونے کے لیے آئی ہے ،وہ پوری پلاننگ کے ساتھ اِس پیغام کے پیچھے لگ گئے ۔

اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان لانے والوں کا ٹٹھا کرتے ،اُن کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ،آپ کے بارے میں کہتے کہ اس پر جادو کردیاگیاہے ،شاعر ہے،پاگل ہے ،کاہن ہے ،جادوگرہے ،جھوٹا ہے ، عجیب عجیب طرح کی باتیں بناکر پھیلاتے ،کبھی کمزورمسلمانوں پر طنز کرتے ہوئے کہتے : یہ دیکھو! زمین کے بادشاہ آگئے ۔

اللہ کے رسول ﷺ بھی ہمارے اورآپ کے جیسے دل رکھتے تھے ،آپ کو یہ باتیں سن کرسخت تکلیف ہوتی تھی ، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ولقد نعلم انک یضیق صدرک بما یقولون ”ہمیں معلوم ہے کہ ان کی باتوں سے آپ کا سینہ تنگ ہورہا ہے “۔ پھر آپ کو تسلی دی : انا کفیناک المستھزئین ”استہزاءکرنے والوںکے معاملے میں ہم آپ کے لیے کافی ہیں ۔
محترم قارئین! ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے کہ یہ قریش آپ ﷺ کی امانت وراست بازی کی قسمیں کھاتے تھے ، لیکن جب آپ نے حق کا اعلان کیا تو آپ کو پاگل اور دیوانہ کہنے لگے ،جی ہاں! یہی دنیا کی ریت ہے کہ سماج کے غلط رسم ورواج کے خلاف آواز اٹھانے والوںکے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہی ہیں ۔
دعوت محمدی کے خلاف محاذآرائی کی ایک تدبیر یہ تھی کہ نبی ﷺ جب لوگوں کے بیچ دعوت پیش کرتے تو یہ لوگ خوب شور ہنگامہ مچاتے تھے اور لوگوںکو دوربگادیتے تھے تاکہ محمدﷺ کی باتیںسننے کا اُسے موقع ہی نہ مل سکے ۔ اوراس تدبیر پر وہ سختی کے ساتھ عمل پیرا بھی تھے ،اللہ کے رسول ﷺ کو ،قرآن کو اور اُس کے اُتارنے والے کو گالیاں تک دیاکرتے تھے ۔
دعوت محمدی کے خلاف محاذآرائی کی ایک شکل یہ بھی اپنائی گئی کہ جب کسی کو ایک کی طرف مائل دیکھتے اس کو مختلف قصوں اور کہانیوںمیں پھانسنے کی کوشش کرتے تھے ۔ قریش کا ایک بدبخت نضربن حارث اسی مقصد سے حیرہ اورشام گیا ،اور وہاں سے لوک کہانیاں اور سکندر ورستم کے قصے سیکھ کر آیا،اورجہاں اللہ کے رسول ﷺ کو چند لوگوں کے ساتھ دیکھتا وہاں یہ قصے شروع کردیتا کہ لوگ محمد ﷺ کی باتیں نہ سن سکیں ۔
اُس نے اِسی پر بس نہیں کیا بلکہ باضابطہ گانے بجانے والی لونڈیاں خرید لائیں،جس کسی کے بارے میں سنتا کہ وہ اسلام کی طرف مائل ہے اُس کے پاس لونڈی کو لے جاتا اوراُسے تاکید کرتا کہ اُسے اپنی محبت میں پھانسے رکھو،خوب کھلاو پلاو ،گانے سناو اور محمد (ﷺ) سے دور رکھو ۔
دعوت محمدی کے خلاف محاذآرائی کی ایک شکل یہ تھی کہ انہوں نے کہنا شروع کیا کہ قرآن محمد کے خوابوں کی اوٹ پٹانگ باتیں ہیں، کبھی کہتے کہ محمد اپنی طرف سے بناکر پیش کرتے ہیں ، کبھی کہتے کہ اُن کے پاس ایک شیطان ہے جو ان کو سکھاتا ہے ، کبھی کہتے کہ محمد(ﷺ) جنون میں اس طرح کی بکواس کررہے ہیں ۔

محترم قارئين !یہ دین جو ہم تک پہنچا ہے اس کے راستے میں بے پناہ قربانیاں دی گئی ہیں ،اللہ کے رسول ﷺ اورآپ کے صحابہ نے طرح طرح کی تکلیفیں جھیلیں ۔ایسی ایسی تکلیفیں کہ اُن کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور دل پھٹنے لگتا ہے ۔آئیے! ذرا ہم ایک جھلک دکھاتے ہیں آپ کو .... اِن آزمائشوںکی ....
یہ بلال ؓ ہیں کہ.... امیہ بن خلف اُن کے گلے میں رسی ڈال کرانہیں بچوں کے حوالے کردیتا ہے جو اُنہیں جانوروں کے جیسے کھنچتے پھرتے ہیں، دوپہر کی چلچلاتی دھوپ....جی ہاں! یہی دھوپ جس کا احساس ہمیں AC سے نکلنے کے بعد ہوتا ہے ....ایسی ہی دھوپ میں لے جاکر جلتی ریت یاپتھر پر سلادیتا اور سینے پر بھاری پتھر رکھ دیتا کہ ہِل بھی نہ سکیں ۔ اورکہتا کہ یاتو محمدکا انکار کر یا اِسی حالت میں مرجا....لیکن بلال ہیں کہ زبان سے ایک ہی لفظ نکل رہا ہے ....احد احد ........اللہ ایک ہے ،اللہ ایک ہے ۔
یہ عامر بن فہیرہ ؓ ہیں کہ ان کو اس قد ر مارا جاتا ہے کہ عقل کھودیتے ہیں اور انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں ۔
یہ ابوفکیہہ ؓ ہیں جوبنو عبدالدار کے غلام تھے ،اِن کو بھی پیر میں لوہے کی زنجیریں پہناکر دوپہر کی دھوپ میں لٹا دیاجاتا ،کپڑے اُتا ردیئے جاتے ،اورتپتے پتھر پر یا ریت پر لٹاکر بھاری پتھر رکھ دیتے ....اوراِتنی دیر چھوڑ تے کہ عقل کھوجاتی ۔........خباب بن ارت ؓ کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوتا ہے ،کبھی دہکتے ہوئے لوہے سے پیٹھ داغاجاتا ہے توکبھی جلتے ہوئے کوئلے پر لٹادیاجاتا ہے اوراوپر سے بھاری پتھر رکھ دیاجاتا ہے ۔........لیکن ....اللہ کی رحمت ہو سیدناابوبکرصدیق ؓ پر ....کہ انہوں نے منہ مانگی قیمت دے کر اِن سارے غلاموں اورکئی لونڈیوں کو خرید ااورانہیں اللہ کی رضا کے لیے آزاد کردیا۔

آل یاسر کو دیکھیں کہ عماربن یاسر اور اُن کے والدین کو ابطح میں لے جایا جاتا اوراُن سب کو چلچلاتی دھوپ میں تپایاجاتاتھا....اللہ کے رسول ﷺ کا اُن کے پاس سے گذرہوتا ہے تودل پھٹ کر رہ جاتا ہے لیکن زبان پر یہی الفاظ آتے ہیں صبراً آل یاسر فان موعدکم الجنة ”آل یاسر صبر کرنا تمہارا ٹھکانہ جنت ہے “ عذاب کی تاب نہ لاکرعمارکے والد یاسر دنیا سے چل بستے ہیں....اوروالدہ سمیہ ....ہیں کہ کمبخت ابوجہل آپ کی شرمگاہ میں نیزہ مارتا ہے جس سے شہید ہوجاتی ہیں ....یہ اسلام کی سب سے پہلی شہید ہیں ۔ والد بھی چلے گئے ....والدہ بھی چلی گئیں ....باقی رہے عمار ....مشرکین سخت گرمی کے دنوںمیں کبھی لوہے کی زرہ پہنادیتے ،کبھی سینے پر بھاری پتھررکھ دیتے ، کبھی پانی میں ڈبودیتے ....عذاب برداشت سے باہر ہوا تو ایک روز مجبوراً ان کے مطلب کی بات کہہ دی ....لیکن دل مطمئن تھا ايمان سے....فوراً احساس ہوتا ہے اورگھبراہٹ شروع ہوجاتی ہے تو اللہ پاک نے یہ آیت اُتاردی : الا من اکر ہ وقلبہ مطمئن بالایمان ....اے عمار !گھبرانے کی ضرورت نہیں....توہمارا محبوب ہے ....جسے کفر پر مجبورکیاگیاحالانکہ دل ایمان سے لبریز ہے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے ۔ صہیب رومی ؓ کو اس قدر تکلیف دی گئی کہ عقل کھو بیٹھے ،عثمان بن عفان ؓ کو ان کا چچا کھجور کی چٹائی میں لپیٹ کر نیچے سے دھونی دیتا تھا ۔

سوال یہ ہے کہ کیسے اُن مظلوم صحابہ نے اِن ساری تکلیفوں کو برداشت کرلیا، یہ کیسے اُن کے لیے ممکن ہوسکا ؟ تو اِس میں اللہ کے رسول ﷺ کا اُن کے بیچ وجود، آپ کے سامنے میں معجزات کا ظاہر ہونا اور رسول پاک ﷺ کے ذریعہ اُن کی ایمانی تربیت ہونا یہ وہ اسباب تھے جو اُن کی ثبات قدمی میں مددگار ثابت ہوئے ۔

محترم قارئين! زیادتیوں کے یہ قصے بہت زیادہ ہیں اور دردناک بھی ،....اوراِدھر وقت بھی ہواچاہتا ہے ،اس لیے ہم انہیں کلمات پر آپ سے اجازت چاہتے ہیں ،تتمہ اگلے حلقہ میں....ان شاءاللہ اللہ حافظ 

ليست هناك تعليقات: