الأربعاء، أغسطس 01، 2012

سیرت طيبہ کی جھلکیاں 6


اللہ کے رسول ﷺ بچپن سے ہی اچھے اخلاق کے پیکر تھے ،مروت ہو،خوش اخلاقی ہو ، سچائی ہو ، امانت داری ہو ، پا ک نفسی ہو ، دوراندیشی ہو ، زہدوقناعت ہو،صبروشکر ہو،حیااوروفاہو ،بردباری اورعفت ہو ، ہمسایوں کے ساتھ اچھا معاملہ ہو یا بیواوں اور یتیموں کی خبرگیری ہو ۔ غرضیکہ اچھائی کاجو بھی کام ہو اُن سارے کاموںمیں آپ.... سب سے آگے تھے ،اوربرُائی کا جوبھی کام ہو.... اُ ن سارے کاموں سے بالکل دورتھے ،....کبھی کسی شرا ب کو منہ نہ لگایا، بتوں کے نام ذبح کئے گئے جانوروں کا گوشت نہ کھایا،نہ ایسے تہواروں اورمیلوں ٹھیلوںمیں شرکت کی ،نہ کبھی لات وعزی کی قسمیں کھائیں ۔ نبوت سے تین سال پہلے آپ کو اِن چیزوں سے مزید نفرت پیدا ہونے لگی ،سماج کی برائیوں سے کڑھن محسوس ہونے لگی ،اِسی لیے آپ آبادی سے دورحراپہاڑ کے ایک غارمیں بیٹھنے لگے ،گھر سے ستوپانی لے جاتے اور وہیں بیٹھے رہتے ،کوئی ہدایت تو تھی نہیں کہ اُس کے مطابق اللہ کی عبادت کرتے .... البتہ اللہ کی نشانیوں پر غورکرتے تھے ،رمضان کا پورا مہینہ ایسے ہی گذرجاتا ۔

نبوت سے چھ مہینہ پہلے نبوت کی کچھ نشانیاں ظاہرہونے لگیں ،رات میں سوتے تو خواب دیکھتے اورجوکچھ دیکھا ہوتا ویسے ہی دن میں ظاہرہوتا ، کبھی کسی صحرا اورغیرآبادجگہ سے گذررہے ہوتے تو درخت اور پتھر تک آپ کو سلام کرتااورکہتا السلام علیک یا رسول اللہ۔اوردرخت وپتھرسلام کیوں نہ کرے کہ ....آپ پر.... اللہ اورفرشتے بھی سلامتی بھیجتے ہیں ان اللہ وملائکتہ یصلون علی النبی یاایھالذین آمنوا صلواعلیہ وسلموا تسلیماً” بیشک اللہ اوراس کے فرشتے نبی پاک پر سلام بھیجتے ہیں ،لہذا مومنو!تم بھی اپنے نبی پر سلام بھیجو۔“
آپ  ﷺ کی عمر چالیس سال چھ مہینے بارہ دن کی ہوچکی ہے ،صحیح قول کے مطابق رمضان کی ۱۲تاریخ ہے اورسموار کی رات ہے ، غارحرامیں بیٹھے عبادت میں مشغول ہیں کہ اچانک عجیب وغریب آواز آتی ہے ،آواز تھی ”اقرا “ پڑھ ....غارحرا کی تنہائی ،رات کا وقت ، غیرمانوس آواز ،اورکام بھی ایسا کہ آپ کے بس کاروگ نہیں....پریشان ہیں،کیاجواب دیں سمجھ میں نہیں آتا ....آپ کی زبان سے نکلتاہے : میں پڑھا ہوا نہیں ہوں؟ جی ہاں! پڑھتے لکھتے بھی کیسے کہ بچپن میں ہی ماں باپ اور دادا کے سایہ سے محروم ہوچکے تھے ،........پھر اُس کے بعد کیاہوا؟.... اُس نے زورسے دبوچا کہ آپ کی قوت نچوڑ دی اوروہی لفظ بولا :.... پڑھو ،.... آپ کہتے جارہے ہیں کہ میں پڑھاہوا نہیں ہو ں۔ اُس نے دوبارہ پکڑ کر دبوچا اورچھوڑکر کہا : پڑھو،....آپ نے کہا :میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس نے تیسری بارزورسے دبوچااورچھوڑ کرکہا: اقرا باسم ربک الذی خلق ، خلق الانسان من علق ، اقراوربک الاکرم  ” پڑھو!اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ،....انسان کو لوتھڑے سے پیدا کیا ،پڑھو اور تمہارا رب نہایت کریم ہے ۔
یہ تھے جبریل امین جو پہلی وحی لے کر آئے تھے ،کائنات میں عجیب تبدیلی آچکی تھی ،بھٹکتی انسانیت کوہدایت کا راستہ مل چکا تھا ....لیکن اُسی نبی کو پتہ نہیں کہ یہ سب کیا ہورہا ہے ، فوراً غار سے نکلتے ہیں ،دل دھک دھک کررہا تھا ۔حضرت خدیجہ بنت خویلد ؓکے پاس تشریف لائے اور فرمایا:مجھے چادر اوڑھا دو ،مجھے چادر اوڑھا دو ۔ انہوں نے آپ ا کو چادر اوڑھادی، یہاں تک کہ خوف جاتا رہا ۔ اس کے بعد خدیجہ رضى الله عنها  کو پورا واقعہ سنایا اورکہا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے ،سمجھ میں نہیں آرہا ....مجھے تو اپنی جان کا ڈر لگتا ہے ۔ ہماری اور آپ کی بیوی ہوتی تو نہ جانے یہ سن کر اُس کا حال کیاہوتا ،جانتے ہیں دوراندیش بیوی نے کیاجواب دیا :
کلا واللہ مایخزیک اللہ ابدا ، انک لتصل الرحم ،وتحمل الکل وتکسب المعدوم ،وتقری الضیف وتعین علی نوائب الحق (بخاری)”قطعاً نہیں، اللہ کی قسم ! اللہ آپ کو ہرگزرسو انہ کرے گا،آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ،درماندوںکا بوجھ اٹھاتے ہیں ،تہی دستوں کا بندوبست کرتے ہیں ،مہمان کی میزبانی کرتے ہیں اور مصیبت کے ماروںکی مدد کرتے ہیں۔“
پیارے بھائیواوربہنو! ایک انسان کی کمی اورکوتاہی ہر شخص سے چھپ سکتی ہے لیکن بیوی سے نہیں چھپ سکتی ....خدیجہ نے آپ کی کتاب زندگی کا گہرائی سے مطالعہ کیاتھا ،اس لیے پورے اعتماد کے ساتھ جواب دیا اور ہمت بندھائی کہ اِس میں ضرور خیرکا پہلو ہوگا ۔ اِسی پر بس نہیں کیا بلکہ آپ کو لے کر اپنے چچیرے بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس آئیں ۔ ورقہ جاہلیت میں عیسائی ہوگئے تھے ،انجیل کی معلومات رکھتے تھے ،اُس وقت وہ بہت بوڑھے اورنابیناہوچکے تھے ،حضرت خدیجہؓ نے اُن سے کہا کہ بھائی جان ! ذرا اپنے بھتیجے کی بات سنیں : ورقہ نے کہا: بھتیجے : بولو! کیا بات ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے جوکچھ دیکھا تھا بیان فرمادیا: ورقہ نے غورسے بات سنی اورکہا: گھبرانے کی بات بالکل نہیں ہے ،یہ تو وہی فرشتہ ہے جسے اللہ پاک نے موسی علیہ السلام پر نازل کیاتھا ۔کاش میں اُس وقت طاقت ور ہوتا ،کاش میں اُس وقت زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی ۔ آپ نے تعجب سے فرمایا: اوَمُخرِجِیَّ ھُم ؟ ” توکیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے ؟“ورقہ نے کہا : ہاں ! جب بھی کوئی آدمی اس طرح کا پیغام لایاجیسا تم لائے ہوتو اُس سے دشمنی کی گئی ، اوراگرمیں نے تمہارازمانہ پایا تو تمہاری زبردست مدد کروں گا۔.... اُسی کے کچھ دنوں کے بعد ورقہ کی وفات ہوگئی اور وحی بھی رُک گئی ۔ چند دنوںتک وحی رُکی رہی ....یہ اس لیے تاکہ آپ پر جو خوف طاری ہوگیا تھا وہ جاتا رہے اور دوبارہ وحی کے آنے کا شوق پیدا ہوجائے ۔

محترم قارئين!اللہ کے رسول ﷺ نبی بنائے جاچکے ہیں ،لیکن اب تک آپ کو کسی کام کا مکلف نہیں کیاگیاہے ،وحی کے لیے طبعیت آمادہ ہوچکی ہے ،اور اس کا انتظار بھی کررہے ہیں، ایک روز کی بات ہے ،غارحرا سے نکلے اورایک میدان سے گذر رہے تھے کہ اچانک ایک پکار سنائی دی ،دائیں طرف دیکھا،بائیں طرف دیکھا،آگے کی طرف دیکھا ،پیچھے کی طرف دیکھا لیکن کہیں کچھ نظر نہ آیا،اس کے بعد جب آسمان کی طرف نگاہ اُٹھائی تو دیکھتے ہیں کہ وہی فرشتہ جو غار حرا میں آیاتھا آسمان وزمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا ہے ۔جبریل امین کے رعب سے آپ کا وجود کانپ اُٹھا ،یہاں تک کہ آپ زمین کی طرف جاجھکے ، اور ڈرے ڈرے سیدہ خدیجہ ؓ کے پا س آئے اورکہا: مجھے چادر اوڑھا دو،مجھے چادراوڑھا دو، مجھ پر کمبل ڈال دو،مجھ پر کمبل ڈال دو،اورٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارو۔ بیوی نے کمبل اوڑھا دیااور پانی کے چھینٹے مارنے لگی ۔  کچھ ہی دیر میں یہ آیت اتررہی ہے :  یاا یھا المدثر قم فا نذر ”اے کمبل لپیٹنے والے ! اُٹھ جا او ر لوگوں کو اُن کے بدعملی کے نتائج سے ڈرا ۔“

محترم قارئين ! اس آیت کے نازل ہوتے ہی.... آپ کے اوپر رسالت کا بوجھ ڈال دیا گیااور آپ کو اس بات کا مکلف کیا گیا کہ ....اے نبی !آپ کا وجود خود اپنے لیے نہیں ہے بلکہ غیرو ں کے لیے ہے ،اب اٹھ جائیں ،آرام کا وقت جاتا رہا ،لوگوں کی اصلاح کا کام شروع کردیں ،اُن کو بدعملی کے نتائج سے ڈرائیں ،چنانچہ اللہ کے رسول ا دعوت کے لیے اُٹھ جاتے ہیں،اوراپنے قریبی لوگوں پر اسلام پیش کرتے ہیں،اسلام قبول کرنے والوںمیں سب سے پہلے حضرت خدیجہ ؓ ہیں،جو آپ کی بیوی تھیں ،دوسرے نمبرپر آپ کے جگری دوست ابوبکر ؓ  ہیں جنہوں نے بلاجھجھک اسلام قبول کرلیا،تیسرے نمبر پر حضرت علی ؓ ہیں جو آپ کے چچا زاد بھائی تھے ،چوتھے نمبر پر حضرت زیدبن حارثہ ؓ ہیں ،یہ چار لوگ ہیں جنہوں نے پہلے پہل اسلام قبول کیا ۔اب کیاتھا چراغ سے چراغ جلنے لگا ،ہر طرف لوگ اسلام قبول کرنے لگے ۔ 

ليست هناك تعليقات: