ثناءاللہ صادق تیمی ، جواہر لال نہرویونیورسٹی ، دہلی
9013588985
نئی نسل کی ایسی تربیت جو انہیں قوم وملت کے لیے کارگراور مفید بنا
سکے ہر زمانے میں اہم رہی ہے اور رہيگی ۔ اسلام نے ایسی تعلیم اور ایسا نظام دیا
ہے جو تربیت کا بہتر ذریعہ فراہم کرتا ہے ۔ ہماری تاریخ بتلاتی ہے کہ پہلے ہمارے
بزرگ مختلف ذرائع کا استعمال کرکے اپنی ذمہ داری ادا کرتے تھے۔ رات میں سوتے وقت انبیاء
اور صلحاء کے سبق آموز قصوں سے لے کر دالانوں اور بیٹھکوں پر ایک پر ایک دینی
مباحث چھیڑ کر اپنا کردار ادا کیا کرتے تھے ۔ ساتھ ہی خود عملی طور پر وہ اتنے
مضبوط ہوتے تھے کہ وہ نمونہ ہو جایا کرتے تھے ۔ تعلیم کا وہ نظم تھا کہ بچے اچھائی
اور برائی میں تمیز کر لیتے تھے ۔تعلیم تہذیب ، تمدن اور اسلامی روح کو پروان چڑھایا
کرتی تھی ۔ اب صورت حال بہت حد تک بدل گئی ہے ۔ اب بچے خود کو اپنے بزرگوں سے برتر
اگر نہیں تو کم از کم اپنے آپ کو ان سے بے نیاز ضرور سمجھنے لگے ہیں ۔ لیکن ظاہر ہے
کہ وہ بے نیاز ہو نہیں سکتے ۔ایسے میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ نئی نسل کی تربیت کا
یہ فریضہ کس طرح انجام دیا جائے۔
اس پورے مسئلے کو اگر اس طرح دیکھا جائے کہ
بزرگوں کی ذمہ داری بہر حال ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اور بڑھ جاتی ہے تو پھر ہمیں ان
امکانات کے بارے میں غور کرنا پڑے گا جو نئی نسل کی تربیت میں ممد و معاون ہو سکتے
ہیں۔ لیکن اس سے قبل یہ جاننا بھی اہم ہوگا کہ آخر یہ حالات بدلے کیوں؟ اور اس
تبدیل شدہ حالات کی واقعی تصویر کیا ہے ؟ اور تب جاکر یہ سوچنا ہو گا کہ کس طرح ہم
اپنی نسل نو کی حفاظت بھی کرسکتے ہیں اور ان کی کارگر اور مفید تربیت بھی ۔
نئے حالات: آج کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ زندگی بہت تیز
رفتار ہوگئی ہے ۔ پہلے جن باتوں کا ذکر ایک جوان کو بے حیا بنا کر پیش کردیتا تھا
اب ان کا ذکر اسے روشن خیال اور تعلیم یافتہ بنا کر پیش کرتا ہے ۔ پہلے ذرائع کم
تھے اور ان تک رسائی کے امکانات کم ترین ، آج ذرائع بھی بہت ہیں اور سب کی دسترس
میں بھی ہیں ۔ ایک معمولی موبائل کے اندر پوری دنیا پیوست ہے ۔ ایک بٹن دباتے ہی ساری دنیا مٹھی میں آجاتی ہے ۔
پہلے ایک عام سی ھندی فلم دیکھ کر بچے احساس جرم میں رہتے تھے آج وہ بالغوں کے لیے
ریلیز ہونے والی فلمیں دیکھ کر ان پربر ملا تبصرہ کرتے ہیں۔ ٹی وی کلچر نے بہت کچھ
بدل دیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے ناچنے گانے کی تربیت لیتے ہیں اور بے حیا نغموں پر
رقص کرتے ہیں اور میڈیا اسے ترقی اور ہنرکا نام
ہی نہیں دیتا ایسے بچوں کو رول ماڈل بنا کر پیش کرتا ہے ۔ یہ مرحلہ صرف
بچوں کے ساتھ ہی نہيں ہے بوڑھے بھی کچھ اسی قسم کی سوچ کے حامل نظر آتے ہیں۔ ایسے
میں بہتر اسلامی تربیت کا کام اتنا آسان نظر نہیں آتا۔ لیکن ظاہر ہے کہ بغیر تربیت
کے کوئی چارہ بھی نہیں ہے ۔
کرنے کا کام: اب سوال
یہ پیدا ہو تا ہے کہ تو کیا نئی نسل کی تربیت اسی طرح کی جائے جس طرح آج سے پہلے
کی جاتی تھی یا پھر کوئی اور طریقہ اختیار
کیا جائے جو زیادہ کارگر بھی ہو اور ممکن بھی ۔ میرے خیال میں اسے اس طرح دیکھنا
ہوگا کہ حالات کے مطابق طریقہ اختیار کیا جائے ۔ اور اس طریقہ عمل کو اگر ہم چاہیں
تو اس طرح بیان کرسکتے ہیں ۔
1 ۔ پانچ سے سات سال کے بچے آج بھی ہماری دسترس
میں ہوتے ہیں ان کے اندر بہتر اسلامی تربیت کی بیج ہم اسلامی قصوں اور انبیاء کے
واقعات سے ڈال سکتے ہیں ۔ مائیں اور گھر کے دوسرے افراد اگر خود کو اسلامی اوصاف و
خصائل کا حامل بنالیں تو بچوں کے اوپر اس کے مثبت اثرات خود بخود پڑنے لگیںگے ۔
2۔ اگر شروعاتی دنوں میں جب بچے چھوٹے ہوتے ہیں
ان کے اندر اچھائی سے محبت اور برائی سے نفرت پیدا ہوگئی تو وہ ان شاء اللہ آئندہ
بھی ٹھیک رہیںگے ۔
3۔ کوشش
یہ کی جائے کہ ٹی وی اور اس طرح کے دوسرے ذرائع کو گھروں سے دور ہی رکھا جائے اور
اگر رکھنا نا گزیر ہی سمجھا جائے تو اس کے مثبت استعمال پر توجہ مبذول کی جائے ۔
ان پروگرامز کو چلایا جائے جو کارگر ہوں اور مخرب اخلاق نہیں جیسے تعلیمی اور
تہذیبی پروگرامز۔
4۔ جو بچے نسبتا بڑے ہو گيے ہیں ان پر چیزوں کو
زبردستی تھوپا نہ جائے بلکہ چیزوں کی افادیت واضح کی جائیں اور حکمت و دانائی کے
ساتھ ان کو ان کا پابند بنانے کی کوشش کی
جائے۔
4۔ ٹکنا لوجی جیسے لیب ٹاپ، موبائل وغیرہ کے
استعمال سے منع نہ کیا جائے بلکہ اس کے بہتر استعمال کا طریقہ سکھلایا جائے ۔ ان
لوگوں کو مثال بنا کر پیش کیا جائے جنہوں نے ان چیزوں کا بہتر استعمال کرکے نام
کمایا ہو ۔
5۔ جدید ٹکنالوجی کےغلط استعمال سے بچانے کے لیے اس کے غلط اور برے
اثرات کو عملی مثالوں کی روشنی میں سمجھانے کی کوشش کی جائے ۔
6۔ ہر ممکن یہ کوشش کی جائے کہ رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو ہر طرح سے نمونہ کے طور پر پیش کیا جائے تاکہ وہ اپنی
نسبت کو فراموش نہ کرپائيں۔ اللہ ہمیں بہتر توفیق دے ۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق