الثلاثاء، أبريل 16، 2013

غزل

ساگر تیمی 

اس کی آنکھوں ميں تبسم کی ادا آجائے

ہونٹ کھل جائے تو بلبل کو حیا آجائے
ایک چہرہ ہے کہ ماہتاب کہ روشن سورج
آنکھ حیران رہے ، لب پہ دعا آجائے
جب بھی بولے تو حیا ٹپکے شرافت جھلکے
ہو تبسم تو تبسم میں وفا آ جا ئے
سامنے بیٹھ تجھے آج میں دیکھوں من بھر
موت سر پہ ہے کیا جانے قضا آجا ئے
یہ ہے قسمت کہ روایت کا تسلسل کیا ہے
جب بھی آ جائے وفا ذکر جفا آ جائے
ہے معالج کی ضرورت تو بلاؤ نا حکیم
ہے مرض تیز تو بولو نا دوا آ جا ئے
میں بھی ساگر تیری نظروں میں بڑا ہو جاؤں
میرے گھر میں بھی اگر 'فضل' خدا آجا ئے

ليست هناك تعليقات: