ثناءاللہ صادق تیمی ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی
، نئی دہلی
9013588985
عام وبا: مذاہب کی تاریخ کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ بالعموم مذاہب کی
شروعات اور ابتداء جن مقاصد کی تکمیل کی خاطر ہوئی بعد کو مذاہب کے پیروکاروں نے عین
اس کے خلاف پائے جانے والے معاملات کو دین و مذہب کا درجہ دے دیا۔ اور پھر ہر وہ کوشش جو
دین کو اس کی صحیح جگہ لے جانے کے لیے کی گئی اسے مذہب و دین مخالف سمجھ لیا گیا ۔
یہ چیز بدھمت کی تاریخ سے لے کر عیسائیت اور یہودیت ہی میں نہیں بلکہ اسلام کے
پیروکاروں کی تاریخ میں بھی نظر آتی ہے ۔ بدھ مت جو در اصل ہندومت میں پائی جانے
والی طبقاتی اونچ نیچ کے خلاف گوتم بدھ کی
ایک انسانی کوشش تھی اس کے ماننے والوں نے نہ صرف یہ کہ خود کو مختلف طبقات میں
بانٹ لیا بلکہ خود گوتم بودھ کو ہی خدا بنا ڈالا۔ عیسائیوں نے حضرت عیسی کی
تعلیمات کے بالکل خلاف اللہ کو تین ذاتوں میں بانٹ کر خود عیسی کو معبود کا درجہ
دے دیا۔ ادھر اسلام کے نام لیواؤں نے بھی عین وہی کیا کہ جس سے محمد صلی اللہ علیہ
وسلم نے منع فرمایا تھا ۔ تصوف دراصل سچے مذہب سے انحراف کا دوسرا نام ہے جسے بڑی
چابکدستی سے دین کا لبادہ اڑھا دیا گیا ہے ۔
تصوف اور اسلام کا نظام فکر و عمل: اسلام کی قرآنی تعلیمات اور احادیث رسول کی توضیحات
کی روشنی میں دیکھا جائے تو دین در اصل انسان کو بہتر انسان اور اللہ کی سر زمین
پر بہتر بندہ بنانے سے عبارت ہے تا کہ انسان جب اس دنیا سے اللہ کے پاس پہنچے تو وہ
اس کی تیار کردہ جنت کا مستحق قرار پائے اور اس طرح اپنے امتحان میں کامیاب ہو
جائے ۔ اسلام کے مطابق نہ تو دنیا مستقل ہے اورنہ ہی یہ کوئی سانپ بچھو ہے جو
انسان کو ڈس لے یہ تو در اصل ایک پڑاؤ ہے جہاں سے ہوکر گزرنا ہی ہے ، جنت کی اس
منزل تک پہنچنے کے لیے تیاری کے یہ دنیاوی ایام ضروری ہیں ۔ حدیث رسول میں اسے
مسافر اور اجنبی کی مثال سے سمجھایا گیا ہے ۔ آدمی اس دنیا میں اس طرح رہے گویا وہ
مسافر ہے یا اجنبی ۔ ساتھ ہی رہبانیت اور ترک دنیا کو غیر اسلامی بتلایا گیا ہے ۔
گویا امتحان کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دنیا کو برتے ضرور لیکن یہ نہ بھولے کہ آخر کار
اسے اس دنیا سے جانا ہے اور پھر تب وہ جانے کے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پوری زندگی
خالق کائنات کے ذریعہ اتارے گئے دین کےمطابق گزارے ۔ تجارت، اخلاق ، عبادت ،
معاملات، داخلی اعتقادات اور خارجی مظاہر ہر معاملے میں وہ اللہ کے اتارے ہوئے دین
کا پیرو ہو جائے ۔ اللہ کے رسول کی حدیث جس میں کہا گیا ہے کہ تم میں کا کوئی بھی
شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے
مطابق نہ ہو جائے ، کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی معنویت اور بھی آشکارا ہو
جائیگی ۔ اسی لیے اسلام میں ایک ایک چیز کے احکام اتارے گئے ہیں ۔ تجارت و زراعت
کے احکام ، شادی و طلاق کے احکام ، صلح و جنگ کے احکام ، آپسی معاملات کے احکام ،
ماں باپ سے سلوک کے احکام ، بچوں کی تربیت کے احکام ،سماجی زندگی کے احکام ،
انفرادی امور سے متعلق احکام یعنی زندگی کا کوئی گوشہ تشنہ نہیں چھوڑا گیا ہے ۔حضرت
سلمان فارسی کے بقول یہاں تک کہ یہ بھی بتلایا گیا کہ قضائے حاجت سے فراغت کس طرح
کرنی ہے ۔
اس سے
بڑھ کر اسلام نے بڑے واضح انداز میں عبد و معبود کے رشتے کوبتلایا اور اس
معاملے وہ راستہ اپنایا جس سے کسی قسم کی الجھن پنپنے نہ پائے ۔ اسلام کے مطابق
اللہ اس کائنات کا مالک و خالق ہے اور وہی تنہا معبود بر حق ہے ۔ اس کے جیسا کوئی
نہیں ۔ اس کا کوئی ساجھی اور شریک نہیں ۔ اس نے ساری مخلوق کو اپنی عبادت کی خاطر
پیدا کیا ہے ۔ انسان و جن کو اللہ نے اختیار دیا ہے ۔ بقیہ دوسری مخلوقات اللہ کی
تسبیح و تحمید میں لگی ہوئی ہیں ۔ اب جو جتنا اللہ کے احکام کے مطابق چلے گا اللہ
تعالی سے اس کی قربت اتنی بڑھتی جائیگی اور اللہ اس سے اتنا ہی خوش ہوتا جائیگا۔
اس چیز کو ایک حدیث کے اندر اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ایک بندہ نوافل کے ذریعہ
اللہ کی قربت اختیار کرتا جاتا ہے یہاں تک کہ اللہ اس کا ہاتھ بن جاتا ہے جس سے وہ
پکڑتا ہے ، پاؤں بن جاتا ہے جس سے وہ چلتا
ہے ۔ ساتھ ہی اسلام کی تعلیم یہ بھی ہے کہ ایک انسان مظاہر کائنات میں غور کرے اور
اس کے ذریعہ اللہ رب العزت والجلال کی عظمت کے آگے سجدہ ریز ہو جائے وہیں اس کی
تعلیم یہ بھی ہے کہ بندہ اللہ کی ذات سے متعلق جو باتیں قرآن و حدیث میں بتائی گئی
ہیں ان پر ایمان لائے ، اللہ کے اسماءو صفات کو جانے اور اس کے حقوق کو پہچانے
لیکن وہ اللہ کی ذات ہی میں غور و فکر نہ کرنا شروع کردے ۔ ایک حدیث کے مطابق
شیطان انسان کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ ساری کائنات کو اللہ نے پیدا کیا تو اللہ
کو کس نے پیدا کیا۔ جب آدمی یہاں تک پہنچے تو اسے شیطان سے اللہ کی پناہ مانگنی
چاہیے ۔ یعنی ذات الہی سے متعلق دی گئی معلومات پر قناعت کرتے ہوئے اس کے حقوق کی
ادائیگی کے لیے کوشاں ہواجائے۔
تصوف کی بنیاد : اب اگر تصوف کی بنیاد کو سمجھنے کی کوشش کی جائے
تو کہا جاسکتا ہے کہ تصوف کی بنیاد بھی وہی عبد ومعبود کا تعلق اور دین ودنیا کا
رشتہ ہے لیکن ظاہر ہے کہ تصوف کا اپنا نظام فکر و عمل ہے ۔
تصوف کے مطابق انسان اللہ کی عبادت کرتے کرتے
وہاں تک پہنچ جاتا ہے جہاں عبد ومعبود کا فرق مٹ جاتا ہے ۔ انسان اللہ کے اندر
حلول کرجاتا ہے یا کم از کم وہ اللہ میں فنا ہو جاتا ہے ۔ اس اسٹیج پر آکر وہ
ظاہری احکام و اوامر کی پابندی سے اوپر اٹھ جاتا ہے ۔ اور وہ بہت سی خدائی صفات کا
حامل ہو جاتا ہے ۔ دنیا ایک فریب ہے ، دھوکہ ہے اور نجاست ہے اس لیے دنیا سے کنارہ کشی ہی میں
بھلائی ہے ۔ ترک دنیا مطلوب و محمود ہے بلکہ متصوفانہ زندگی کی معراج اس کے بغیر
حاصل ہی نہیں ہوگی۔ اصل وجود بس اللہ کاہے بقیہ سب بھی اللہ ہی ہے یا پھر اللہ
کاپرتو ۔ اللہ کی ذات کو مرکز بنا لیا جائے اور وہ مجاہدے کیے جائیں کہ بالآخر خود
انسان من و تو کا فرق بھول جائے۔
تصوف کے اقسام : عام طور سے وہ لوگ جو تصوف کی اوپر مذکور شکل کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں وہ
تصوف کو دو خانوں میں بانٹ کر دیکھتے ہیں ۔ اسلامی تصوف اور غیر اسلامی تصوف ۔ ان
کے نزدیک اوپر مذکور شکل غیر اسلامی تصوف کی ہے اور اسلامی تصوف یہ ہے کہ انسان
اپنا زیادہ سے زیادہ محاسبہ کرے ، عبادات کا التزام کرے ، احکام شریعت کی پابندی
کرے اور طریقت کے مطابق چلے ۔ عام طور سے ایسے لوگ تصوف کو اسلامی اصطلاح' تزکیہ'
کا مترادف قرار دیتے ہیں ۔ لیکن اگر انصاف کی نظر ڈالی جائے تو پتہ چلے کہ در اصل
یہ اس انحراف کی تبریر کی ایک کوشش ہے ۔ تصوف کی پہلی شکل تو خیر اس قدر غیر اسلامی ہے
کہ اس پر وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں لیکن جہاں تک دوسری کا تعلق ہے تو سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ
جب ایک اصطلاح موجود ہی ہے تو دوسری کی ضرورت کیا ہے ؟ اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ
جب اسلام نے عبادات و احکام کے سارے گوشے روشن کردیئے ہیں تو پھر طریقت کے اضافے
کی یہ گنجائش کہاں سے نکال آتی ہے ؟ تیسری اہم بات یہ ہے کہ کیا اس تصوف کا کوئی
سان گمان صحابہ کرام کے یہاں بھی ملتا ہے؟ ایک عام سے عام مسلمان کے لیے بھی یہ
بات ناقابل برداشت ہوگی کہ کوئی اس کے نبی کے مقابلے میں کوئی اور طریقہ رائج کرنے
کی کوشش کرے لیکن یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ تصوف کے اس پورے نظام کو جس کا
طریقہ نبی سے کوئی تعلق نہیں اسلام بنا کر پیش کرنے کی ناروا کوشش کی جاتی ہے۔
تزکیہ کا اسلامی تصور معلوم و متعین ہے اور وہ وہی ہے جس کے نمونے رسول کی زندگی
اور صحابہ کے تعامل میں ملتے ہیں ۔ بقیہ
اور کسی بھی انسان کے مجاہدات کو حصول مراتب کا سبب بتلانا در اصل محمد صلی اللہ
علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کا مذاق اڑانا ہے اور ایسے لوگوں کو اپنی خیریت کا
خیال کرنا چاہیے ۔ واضح رہے کہ اسلام میں اعمال کی قبولیت کا دارومدار دو چیزوں پر
ہے ۔ ایک یہ کہ وہ عمل صرف اللہ کی
خوشنودی کے حصول کے لیے کیا جائے اور دوسرا یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے
پر ہو ۔
نئی دنیا میں تصوف : آج خاص طور سے تصوف کو رواج دینے کی کوششیں
زوروں پرہیں ۔ مشرق و مغرب کے بڑے بڑے نام نہاد دماغ اس کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں
۔ اس کے پیچھے کئی سارے اسباب ہیں جیسے
1۔ مغرب کی یہ کوشش کہ وہابی اور ریڈیکل اسلام
کے بالمقابل ایک ایسا اسلام پیش کیا جائے جس سے مغرب کو کوئی خطرہ نہ ہو اور جس کے
اندر اپنی بنیادوں پر بقائے باہم کا راستہ نکالا جا سکے ۔
2۔ اسلام کے نام لیوا اگر تصوف کی بھول بھلیوں میں
پڑ جائیں تو پورے طور پر دنیا کا میدان صہیونی شاطروں کے لیے خالی ہو جائیگا۔
3۔ صنعتی ترقیوں اور مادی وسائل کی فراوانی نے
مغرب کی اکثریت کو افراط کی حد تک مادیت کا غلام بنا دیا اور جب اس کے نتائج نت
نئے امراض ، ذہنی دباؤ اور خلش و بے چینی
کی شکل میں سامنے آئے تو لوگوں کا
پھر سے ایک دوسرے انتہا کی طرف بھاگ کھڑا ہونا کوئی تعجب خیز بات نہیں تھی ۔ مفرط مادیت کی جگہ اب لوگوں نے مفرط روحانیت
کو اپنے سارے امراض کا حل سمجھ لیا اور تصوف کی طرف سر پٹ دوڑ پڑے ۔ اس میں ایک آسانی یہ تھی کہ اس کی بنیادیں لگ
بھگ ہر دین کے منحرف ورژن میں موجود تھیں ۔ اس میں دوسری آسانی یہ بھی تھی کہ تصوف سے انسان کے اندر
ایک خاص قسم کی روحانیت تو پیدا ہو جاتی ہے لیکن ساتھ ہی تصوف انسان کو بہت
سی ذہنی عیاشیوں سے لے کر ناچنے گانے یہاں تک کہ عریانیت تک سے نہیں روکتا بلکہ وہ
اسے روحانی لبادہ اڑھا دیتا ہے ، جو بنیادی طور پر نئی تہذیب کا سب سے بڑا ظاہرہ
ہے ۔
4۔ بعض سادہ لوحوں اور زیادہ تر ہوشیاروں کا یہ
پیروپیگنڈہ کرنا کہ تصوف انسانوں اور انسانوں کے بیچ کوئی تفریق روا نہیں رکھتا ۔
اس سے گلوبلائیزیشن کے اس دور میں بقائے باہم اور محبت و اخوت کی بنیاد پر جیو اور
جینے دو کے اصول کو تقویت ملے گی اور تمدن کا بھلا ہو گا۔
انہیں
اسباب کے پیش نظر ہم دیکھتے ہیں کہ مشرق سے لے کرمغرب تک میں تصوف کو مختلف ذرائع
سے عام کرنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں ۔ اکیڈمک سرگرمیوں سے لے کر نصاب تعلیم میں
تصوف کو شامل کیے جانے کا معاملہ ہو یا
مختلف ممالک کے اندر منصوبہ بند طریقے سے کانفرنسیز منعقد کرانے کی ہوڑ، ہر جگہ اس
چیز کو محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ مغرب والے اب رومی کی روحانی تعلیمات کو عام کرنے کی
کوشش کر رہے ہیں تو مشرق والے اغریق کے
تہذیبی نشاۃ ثانیہ کے لیے تصوف کے احیا پر زور دے رہے ہیں ۔ غالب و اقبال
سے لے کر ہر اس شاعر وادیب کا رشتہ تصوف سے جوڑنے کی کوشش ہو رہی ہے جس کا کچھ بھی اثر عوام پر پایا جاتا ہے ۔ ایسی حدیثیں
اور روایات ڈھوند ڈھونڈ کر نکالی جارہی ہیں جن سے کسی بھی طرح زبردستی ہی سہی اور بغیر یہ دیکھے وہ روایت یا
حدیث صحیح ہے بھی یا نہیں اس سے تصوف کے حق میں استدلال کیا جارہاہے ۔
ہماری ذمہ داری: اب اگر اس پورے منظر نامے پر نظر ڈالی جائے اور
یہ طے کیا جائے کہ ہماری ذمہ داری کیا بنتی ہے تو میرے خیال سے مندرجہ ذیل امور پر
توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔
1۔ مسلمانوں پر یہ واضح کرنا کہ تصوف کا اسلام
سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ دلائل و براہین سے یہ ثابت کرنا کہ یہ کس قدر خطرناک تصور
ہے ۔
2۔ اسلام کے صحیح اور واقعی تعلیمات کو عام کرنے
کی کوشش کرنا ، اور خاص طور سے ریڈیکل اسلام کی حقیقت سے نقاب الٹ کر اسلام کے
واقعی معتدل اور صفاف چہرے کو پیش کرنے کی کوشیشیں بروئے کار لانا ۔ اسلام کے
عقیدہ توحید کی صحیح صحیح وضاحت کرنا اور اعتماد کے ساتھ یہ بیان کرنا کہ اسلام نے
بقائے باہم کے کیا اصول دیئے ہیں ۔
3۔ تصوف کے وہ معاملات جو اسلامی تعلیمات کے
خلاف نہیں ہیں جیسے نوافل کی کثرت ، تمام انسانوں سے عام سی ہمدردی اور نرم روی
وغیرہ ان کو اسلام کی صحیح اصطلاح اور سنت رسول کے صحیح تناظر پیش کرنے کی نہ صرف
یہ کہ کوشش کرنا بلکہ اپنی زندگی کو ان کے مطابق ڈھالنا بھی ۔ اس لیے کہ عام طور
پر دیکھا جاتا ہے کہ ہم تصوف اور ان جیسے غیر اسلامی امور و عقائد اور نظام فکر پر
نشتر زنی کرتے ہوئے کبھی کبھی جوش میں درست پہلو کو بھی ناکار دیتے ہیں ۔
4۔ علمی دنیا میں خاص طور سے اکیڈمک میں ایسے
افراد کو آگے لانے کی کوشش کرنا جو تصوف کی تباہ کاریوں کو بہتر طریقے سے سامنے
لاسکیں ۔ اور ایسے ادبا و شعراء کی تخلیقات کو پھیلانے کی کوشش کرنا جنہوں نے بہتر
طریقے سے اسلامی تعلیمات کو پیش کیا ہو ۔
5۔ تصوف کے ماننے والوں اور پھیلانے والوں کی
درجہ بندی کرکے ہوشیاروں کو ہوشیاری اور علم و حکمت کی قوت سے مات دینے اور انہیں
لاجواب کرنے کی کوشش اور سادہ لوحوں کو دانائی اور محبت کے ساتھ یہ بتلانا کہ اصل
اسلام کیا ہے اور تصوف کے نقصانا ت کس درجہ خطرنا ک ہيں۔
6۔ اپنی بساط بھر کوشش کے بعد اللہ سے یہ دعا
کرنا کہ پروردگار تو اپنے دین کی حفاظت فرما اور اسے غلبہ عطا کر ۔ غیر دینی
افکارو خیالات کی تغلیط کی اہل حق کو توفیق دے اور ان کی کوششوں کو بارآور فرما۔
کیوں کہ بہر صورت جو ہوگا اللہ کی مرضی اور حکم سے ہی ہوگا۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق