الثلاثاء، أبريل 16، 2013

کیرالا کا دعوتی سفر


 ثناءاللہ صادق تیمی جے ،این ،یو،نئی دہلی 67

کیرالا کو با لعموم اس لیے جانا جاتا ہے کہ وہاں ایجوکیشن کا گراف بہت اچھا ہے اور مسلمان بھی دوسرے ہندوستانی صوبوں کے بالمقابل صاحب حیثیت ،مضبوط اور توانا ہیں۔ان کی اپنی سیاسی بساط ہے،علمی وقار ہے اور سماجی اعتبار ہے۔بچپن سے یہ باتیں کانوں سے ٹکراتی رہیں تھیں۔ اس لیے جب یہ پروپوزل سامنے آیا کہ کیرالہ کا سفر کیا   
 جائے اور دعوت و تبلیغ کے رموز سے آشنا ہوا جائے تو ایسا لگا جیسے اندر سے ایک آمادگی خود بخود پیدا ہوتی جارہی ہو،بے نام خاں نے چٹکی لیتے ہوئے کہا کہ بھائی اگر ایک زاہد خشک آفتاب احمد کا ساتھ ہے تو گھبراو نہیں ایک رند زندہ دل انظر حسین کی معیت بھی ہے اور ساتھ ہی حفظ الرحمن کا چلبلا پن بھی۔
                جناب نور عالم سلفی صاحب کی کوششوں سے جے این یو کے اندر چھ سات اللہ کے بندے سفر پر کمر کسنے کو تیار ہو گئے۔ ایک دوسرے ہندوستان کا سفر ،اڑتالیس گھنٹے کا سفر ،ہر ایک کیلئے نیا تجربہ ۔لیکن ہر ایک اس نئے تجربے سے پریشان بھی نہیں،نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر پہونچنے کے بعد پتہ چلا کہ یہ چھ سات لوگوں کا نہیں پورے بتیس لوگوں کا دعوتی قافلہ ہے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ،جامعہ ہمدرداور جے این یو کے طلبہ پر مشتمل یہ کاروان دعوت کیرالہ سپر فاسٹ میں محو سفر ہوا۔پہلا پندرہ بیس گھنٹہ نسبتاً اجنبی احساسوں کے ساتھ گزرا۔ہر ایک اپنے گروپ میں دوسرے گروپ سے الگ لیکن جیسے جیسے سفر آگے بڑھتا گیااجنبی پن کی دیواریں منہدم ہوتی گئیں اور یوں سب کے سب آپس میں شیر و شکر ہوگئے جیسے بچھڑے ہوئے سارے یار مل گئے ہوں۔اب جہاں دیکھیے بحث جاری ہے ،گفتگو ہو رہی ہے،سلسلہ چل رہا ہے شاعری کا،اسلامی موضوعات کا، دعوت کی اہمیت و افادیت کا،ہندوستان کی سیاست پر ایک پر ایک تبصروں کااور وقت بیتا جا رہا ہے۔احساس بھی نہیں ہو رہا ہے کہ کتنا وقت بیت گیا۔اور اب جو دیکھیے تو کالی کٹ ریلوے اسٹیشن کے باہر شہیر بھائی کے ہمراہ اس بس پر براجمان ہونے کی تیاری زور و شور پر ہے ،جو ان دیوانوں کو مالا پورم لے جانے والی ہے،اور دو گھنٹے کے اندر مالا پورم کے صاف ستھرے ہوٹل میں یہ قافلہ محو استراحت ہے۔کیرالا جاتے ہوئے مختلف گروپ کے امیر الگ الگ تھے لیکن آہستہ آہستہ حفظ الرحمن صاحب کی تحریک سے جناب آفتاب احمد کو پورے قافلے کا امیر منتخب کر لیا گیا،ایسے بھی امارت کا یہ بوجھ آفتاب احمد ہی اٹھا سکتے تھے۔کم از کم یہ روگ اپنے بس کا تو نہیں تھا کہ پالا جائے ،حالانکہ بے نام خاں نے مزہ لینے کی کوشش ضرور کی لیکن ہم نے کوئی توجہ دی ہی نہیں۔
کیرالا سچ مچ ویسا ہی ہے جیسا ہم نے سنا تھا ،سڑکیں آراستہ اور صاف ،لوگ تعلیم یافتہ اور مہذب،حضرات مدد کرنے والے اور اعلی اخلاق کے حامل اور خواتین اسلامی حجاب کی پابندجیسے یہ ہندوستان ہو ہی نہیں،زکریا بھائی سے لیکر شہیر بھائی تک جس فر د کویاد کیجئے محبت کے فوارے اچھلنے لگتے ہیں،نظم و نسق کی پابندی کا وہ نمونہ کہ کم ازکم شمالی ہندوستان میں تو سوچابھی نہیں جا سکتا۔بے نام خاں نے اپنی کہنی میرے بغل میں لگاتے ہوئے  کہا کہ بیٹے اس ترقی کا رازاور اس تہذیب کا سبب صرف یہ نہیں کہ یہاں لوگ تعلیم یافتہ ہیں بلکہ اصل سبب یہ ہے کہ یہاں کے لوگ عمل(کام کرنے میں)میں وشواش رکھتے ہیں ان کے یہاں ہماری طرح مباحثے اور لچھے دار تقریروں کا چلن نہیں،بلکہ جاوداں عملی اسپریٹ کی کار فرمائی ہے،تبھی تو ہم ہم ہیں اور یہ یہ یعنی ہم پچھڑے ہوئے اور یہ ترقی یافتہ اور خوشحال۔تین دن کے دعوتی ورک شاپ میں آنے والے خطباءو مقررین میں جن کا بھی نام لیا جائے سب کے سب کارگر ،موضوع کا حق ادا کرنے والے اور سمجھا لے جانے کی صلاحیت سے مالا مال۔اب چاہے وہ انگریزی کے لیکچرز ہوں یا ملیالم کے،یا بعض دفعہ اردو یا عربی کے،سب کے سب لاجواب ،زبر دست اور کار آمد۔کسی کو کسی پر ترجیح دینا آسان نہیں۔ہمارے دوست بے نام خاں کی مانیں تو ملیالم میں کی جانے والی تقریریں زیادہ زبر دست تھیں اور وہ اس لیے کہ ہم انہیں سمجھنے سے قاصر تھے!!!
سوال وجواب کے سیشن سے لیکر فیڈ بیک تک کا سیشن انتہائی درجے میں لائق ستائش اور قابل تقلید بھی(اگر تقلید کو درست مان لیا جائے تو!!)پروفکون (ندوة المجاہدین)کے عملہ اور طلبہ کی اعلی حوصلگی،بلند نظری اور دینی غیرت و حمیت کاہی مشاہدہ نہیں ہوا،ہمارے دوست بے نام خاں کے بقول اس دعوتی ورکشاپ کی اصل کامیابی تو یہ تھی کہ نارتھ انڈیا سے آنے والے افراد کے اندر بھی اس نے کئی جوت جگا دیے۔
بہت سے لوگ آئے تھے کہ سیاحت ہو جائیگی،کیرالا دیکھ لیں گےاور جب آئے تو کایا پلٹ ہو گئی،زاویہ بدل گیا،اب جو دیکھو تو دعوتی زندگی گزارنے کا عہد کر رہے ہیں،صحابہ کے واقعات سنائے جاتے ہیں تو آنکھیں نم ہو جا رہی ہیں اور دین کو سیکھنے کا جذبہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔
                یہ خسرو بھائی ہیں جاوید خسرو!جامعہ ہمدرد میں ایم فارما کر رہے ہیں،ماشاءاللہ لمبی داڑھی اور متشرع وضع قطع،اللہ کے بندے مسکراتے ہیں اور لوگوں کو ہنسنے کا موقع فراہم کرتے ہیں،جذبہ جوان ہے اور تڑپ شدید۔
ان سے بھی ملیے ابو سعادت ،دبلے پتلے نحیف! لیکن اندر سے مضبوط ۔بی ٹیک کر چکے ہیں اور دعوت کے جذبے سے یوں سرشار ہیں کہ بس واہ ،سبحان اللہ۔شاعری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔بے نام خاں کہتے ہیں کہ کوشش کرنا برا تھوڑی ہے البتہ فکر کے ساتھ فن پر بھی توجہ ضروری ہے۔
                        یہ ہیں شارق اسیر۔شاعری ہی کے نہیں دعوتی جذبے کے اسیر ۔’ہم سب بلاتکاری ہیں‘کے نام سے کویتا پیش کی اور لوگوں نے دسیوں مرتبہ سنا۔کیا نقشہ کھینچا گیا ہے ،متوازن فکر ،جچے تلے الفاظ اور دل اتنا نرم کے کہ صحابہ کا ذکر چھڑا تو روئے جارہے ہیں !!!
عالی جناب نور عالم سلفی ہیں، جے این یو کے اندر ماسٹرس ان عربک کر رہے ہیں،اللہ والے ،درد مند اور خوش مزاج،مساعد امیر اور اس قافلے کے کوآرڈینیٹر جہاں ہیں وہاں بہار۔سب کے چہیتے سب کے پیارے البتہ تھوڑے شریر بھی اور چلبلے بھی اس لیے امیر نہیں مساعد امیر!!!
                حفظ الرحمن صاحب ! ضرورت سے تھوڑے زیادہ ہوشیار ،لیکن مثبت انداز فکرکے نوجوان ، خدمت خلق میں ساعی،کاہے کو امیر صاحب کو چین کی سانس لینے دیں گے،اور خاص طور سے جب انظر حسین صاحب سے سانٹھ گانٹھ بھی مضبوط ہو ۔خوب مزے لے رہے ہیں دونوں کے دونوں ،لیکن استفادے میں کوئی کمی نہیں۔
محمود عاصم صاحب!کیرالا آچکے ہیں پہلے بھی لیکن کوئی فائدہ نہیں ،ملیالم جو نہیں جانتے،سیدھے نیک لیکن باتونی ہونے میں بے نام خاں سے بس تھوڑے پیچھے،جرا ت منداور طالع آزما،سب سے پہلے سوال کرنے والے کا رتبہ ایسے تھوڑے حاصل ہوتا ہے ؟
ارشد بھائی گم صم جیسے نہ بولنے کی قسم کھا چکے ہوں،لیکن جب بولیں تو قیامت!سلیم انصاری ان کے برعکس بولیں اور خوب بولیں لیکن زیادہ تر اچھی اور کار آمد باتیں ،کیسے کیسے لوگ ،یاد کرو تو کیا کیا لمحات یاد آتے ہیں!!
یہ شہاب بھائی ہیں ۔اصل کوآرڈینیٹر !نیک طبیعت ،کم گو،لیکن نفیس،علم کے جویااور سچ کی تلاش میں سرگرداں ورنہ ہم جیسے لوگوں سے پورے چار گھنٹے مولانا آزاد پر تقریر سننا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ محسن بھائی سیدھے سادھے اللہ والے آدمی،کیمروں میں قید کرتے جا رہے ہیں سارے لمحات،چہرے پر نور سا پھیلا ہوااور معصومیت کی ہویدا لکیریں۔یہ ہیں عدنان بھائی ،کم بولتے تو ضرور ہیں لیکن عقیدے کے بارے میں زیادہ فکر مند،لمحہ لمحہ سے یاد دلاتے ہیں کہ ہمار ا فوکس کہاں ہونا چاہیئے۔نوید بھائی کافی سیدھے اور سچے انسان ،آہستہ آہستہ مسکاتے ہیں البتہ ساجد بھائی ان سے قدرے مختلف ہیں اس لیے کہ وہ مسکراتے بھی ہیں اورمزے بھی لینا جانتے ہیں۔ بدر عالم بھائی انجینئر اور اردو شاعری سے وہ رغبت کے اچھے اچھے اردو کے اسکالرشرما جائیں،بڑی بڑی اور معیاری غزلیں اور نظمیں ان کی ذہن میں نہ صرف یہ کہ محفوظ بلکہ زبان پر جاری بھی ۔ نفیس صاحب !بڑے ہی سنجیدہ لیکن ساتھ ہی حوصلوں سے پر،موقع ملا تو انگلش میں تقریر سنانے میں کوئی جھجھک نہیں،علم کے جویا اور حق کے متلاشی،صرف اتنے لوگ نہیں ان کے علاوہ جناب اورنگ زیب صاحب شعور ومزاح کے سنگم،جناب وحید الدین خاں صاحب البیلے مگر اداے محبوبی سے مالامال،جناب صادق صاحب ہنس مکھ ،جناب ماجد الاسلام صاحب سنجیدگی کے پیکر ،جناب ادریس صاحب چپ چپ سے،جناب داﺅد صاحب نہ کھل پانے والے ،جناب مبشر صاحب ہمہ وقت ایسے جیسے خاموش سا تالاب،جناب فردوس نذیربٹ صاحب سلیم الفکر ، متوازن نقطہ نظر کے حامل  اور ضیاءالرحمن بھائی سیدھے پیارے اور سنجیدہ ۔کیا کیا لوگ تھے۔اللہ اللہ!!!
                بے چارے امیر صاحب !یوں تو پریشان ،لیکن اس دعوتی تجربے سے خوب شاد،اورنگ زیب صاحب اگر کشتی کے بالائی حصے پر اچھل رہے ہوں تو امیر صاحب کا پریشان ہونا فطری ہی کہا جائیگا،البتہ کشتی جب سمندر کے موجوں پر رینگ رہی ہو تو صدائے اللہ اکبر کی گونج اور” ائے آبرود گنگا وہ دن ہے یاد تجھکو“کی للکار کیا سماں باندھتی ہوگی اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور کالی کٹ کے اند ر سمندری موجوں میں بے اختیار کود پڑنے والے ان نوجوانوں نے زندگی کا جو لطف حاصل کیا ہوگا اسے بھلا نام بھی کیا دیا جائے۔
ہمارے دوست بے نام خاں نے ہمارے کانوں میں سر گوشیاں کیں کہ بیٹا اجتماعی زندگی کی اہمیت اسی لیے ہے کہ اس میں سب کچھ ٹھیک درست چلتا ہے،مختلف صلاحیتیں مل کر پورا منظر خلق کردیتی ہیں۔تنہائی کا سفر اتنا دلکش ، دلچسپ اور یاد گار ہو سکتا ہے؟
اپنا ہی شعر یاد کر لو                                              
 اسے بھی میری طرح ساتھ کی ضرورت ہے
                                             ادھورا  آدمی تنہا  سفر میں  رہتا ہے                           
تمام دوستوں نے جس طرح سے اس دعوتی ورکشاپ میں دلچسپی لی،استفادہ کیا اور جس جوش و خروش سے اپنے فیڈ بیک دیئے اور دوران سفر جس قسم کی ولولہ انگیزی مشاہدے میں آئی اس سے یہ امید کرنا غلط نہیں کہ انشاءاللہ امت کا یہ جوان طبقہ مثبت انقلاب برپا کرے گا۔حق کی پکار بلند ہوگی اور سچ ضرور سرخرو ہو گا
                                        اپنی صفوں میں علم ہے،جرات ہے وقت ہے
                                               ایسا نہیں کہ سچ کا مقدر شکست ہے  حسن نعیم
اور وہ بھی اس لیے کہ یہ جوان کچھ کر گزرنے کے جذبے سے سر شار ہیں ان کے اندر جوش وو لولہ بھی ہے اور متانت و سنجیدگی بھی اور ساتھ ہی خوف خدا بھی ،بے جا تشدد اور فتنہ انگیزی سے الحمد للہ یہ پاک بھی ہیں اور آزاد بھی۔

کچھ اصولوں کا نشہ تھا ، کچھ مقدس خواب تھے
ہر زمانے میں شہادت کے یہی اسباب تھے
حسن نعیم  

ایسے میں امت کے دینی پیشواﺅں اور روحانی رہنماﺅں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس فورس کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے اور کام میں لانے کا سامان کریں۔اللہ انہیں بہتر توفیق دے،آمین

ليست هناك تعليقات: