السبت، أبريل 13، 2013

ساگر وفا میں کتنے سلیقے سے کٹ گیا

اس بار پھر انا میرے سر پر چڑھی رہی
اس بار پھر امیر شہر سے ٹھنی رہی 
میں بھی تو اپنے وقت کا شاہ جہان تھا 
وہ بھی حسین نورجہاں تھی بنی رہی 
جتنے امیر تھے سبھی مٹی کے شیر تھے 
جنگ تو غریب لوگوں کے بل پر کھڑی رہی 
اس نے محبتوں کو خریدا کہ مال ہے 
اپنی ہنروری تھی ، دھری کی دھری رہی 
وقت صباح کہروں کا سایہ تھا ،خوف تھا 

نیند انتظار صبح میں شب بھر اڑی رہی
اک اشک کہ رخسار سے ڈھلکے نہ عشق میں
شبنم کسی گلاب کے اوپر پڑی رہی
مجھ کو تو اپنے عہد کے دانشوروں پہ حیف
ساری خطا بشکل خرد تھی وہی رہی
ساگر وفا میں کتنے سلیقے سے کٹ گیا
دنیا کہ اس کے پیچھے پڑی تھی پڑی رہی

ليست هناك تعليقات: