اس بار پھر انا میرے سر پر چڑھی رہی
اس بار پھر امیر شہر سے ٹھنی رہی
میں بھی تو اپنے وقت کا شاہ جہان تھا
وہ بھی حسین نورجہاں تھی بنی رہی
جتنے امیر تھے سبھی مٹی کے شیر تھے
جنگ تو غریب لوگوں کے بل پر کھڑی رہی
اس نے محبتوں کو خریدا کہ مال ہے
اپنی ہنروری تھی ، دھری کی دھری رہی
وقت صباح کہروں کا سایہ تھا ،خوف تھا
نیند انتظار صبح میں شب بھر اڑی رہی
اک اشک کہ رخسار سے ڈھلکے نہ عشق میں
شبنم کسی گلاب کے اوپر پڑی رہی
مجھ کو تو اپنے عہد کے دانشوروں پہ حیف
ساری خطا بشکل خرد تھی وہی رہی
ساگر وفا میں کتنے سلیقے سے کٹ گیا
دنیا کہ اس کے پیچھے پڑی تھی پڑی رہی
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق