ہماری اکثریت دوسروں کی خدمات کا اعتراف بہت کم کرتی ہے، ہمارے بیچ مثبت سوچ کے حامل افراد خال خال نظرآتے ہیں، جبکہ منفی ذہن رکھنے والے بکثرت پائے جاتے ہیں، اگر اعتراض کرنے، بیجا نقدوتبصرہ کرنے اوربال کی کھال نکالنے کا معاملہ آئےتواس میں لوگوں کی اچھی خاصی تعداد مل جائے گی۔ لیکن جب خدما ت کے اعتراف اور کارناموں کی تحسین وستائش کا معاملہ آئے تو اکثر لوگوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے ۔
آج ہم اپنے معاشرے میں رول ماڈل کے فقدان کا رونا روتے ہیں، ہمیشہ ہماری یہ شکایت ہوتی ہے کہ ہمارے بیچ نمونہ کی زندگی گذارنے والے عنقا ہوتے جارہے ہیں۔ ہماری نئی نسل کے سامنےعملی پیکر اورکردار کے غازی دکھائی نہیں دیتے ۔ یہ شکایت صد فیصد بجا ہے لیکن کیا ہم نے اپنے معاشرے کے باہمت اوراعلی سوچ کی حامل شخصیات سے کم ازکم اپنی نئی نسل کو متعارف کرایا، کیا یہ واقعہ نہیں کہ ہمارے بیچ سے کتنے اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے افرادچلے گئے لیکن ان کی زندگی کے روشن پہلو ہماری نئی نسل کے سامنے نہ آ سکے ۔
انہیں باہمت اوراعلی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی شخصیات میں سرزمین کویت کی ایک گمنام شخصیت ڈاکٹر عبدالرحمن السمیط کی ہے، جو تقریباً گذشتہ ایک ماہ سے صاحبِ فراش ہیں، آپ عالم اسلام کے معروف داعی اورجمعیة العون المباشر کے مؤسس ہیں، آپ کی زندگی میں سارے مسلمانوں کے لیے بالعموم اور عصری تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کے لیے بالخصوص بہت بڑاپیغام ہےکہ وہ جہاں اورجس میدان میں رہیں اسلام کے سپوت بن کر رہیں، اسلام کے غلبہ کے لیے فکرمند رہیں، اوراسلام کی خدمت کے لیے ایک لمحہ بھی فروگذاشت نہ کریں۔
ڈاکٹرعبدالرحمن السمیط نے سن 1947ء میں کویت کی سرزمین پرایک خوشحال گھرانے میں آنکھیں کھولیں، بچپن سے خدمتِ خلق ان کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی، سیکنڈری میں زیرتعلیم تھے تواپنے دوستوں کے ساتھ مل کر یومیہ اخراجات میں سے کٹوتی کرکے کچھ رقم جمع کیا اوراس سے ایک گاڑی خریدی ، اوراپنے ایک ساتھی کواس خدمت پر مامورکیا کہ معمولی تنخواہ پانے والے تارکین وطن کو مفت میں ڈیوٹی کے مقامات اوران کی رہائش گاہوں تک پہنچا دیا کریں۔ بغداد یونیورسٹی میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے زمانہ میں اپنے اخراجات سے ایک خطیررقم نکالتے اوران سے اسلامی کتابیں خرید کر مساجد میں تقسیم کردیتے ۔ گھرکی مالی حالت اچھی تھی اوراسکولرشب بھی ملتا تھا پھربھی شب وروزمیں ایک مرتبہ ہی کھانا کھاتے، بیڈ پرسونے کوآرام پسندی اورآسائش خیال کرتے اور زمین پر سونے کوترجیح دیتے تھے، میڈیکل کی اعلی تعلیم کے لیے یورپ کا سفرکیا تو وہاں بھی ہرمسلم طالب علم سے ایک ڈالر ماہانہ جمع کرتے اوراسلامی کتابیں شائع کرکے جنوب مشرقی ایشیا اورافریقہ کے ممالک میں بھیج دیا کرتے تھے ۔
میڈیکل کی تعلیم سے فراغت کے بعد کویت کے صباح ہاسپیٹل میں بحیثیت ڈاکٹر بحال کئے گئے ، جہاں آپ مریضوں کے معالجہ کے ساتھ ان کی عیادت کرتے، ان کے خانگی، اجتماعی اوراقتصادی حالات کی جانکاری لیتے اوران کی امداد بھی کرتے تھے ۔ کمزوروں اور بدحالوں کے ساتھ آپ کی یہی حالت رہی یہاں تک کہ ایک مرتبہ افریقی ممالک کے دورہ کا موقع ملا جہاں آپ نے دیکھا کہ ایک طرف افریقہ کے مسلمان بری طرح سے قحط سالی اوربھوک مری کا شکار ہیں تو دوسری طرف عیسائی مشینریز ارتدادی مہم میں سرگرم اورپرجوش ہیں، اس نازک صورت حال کے سامنے ان کی غیرت ایمانی بیدار ہوئی،چنانچہ جسمانی علاج کی بجائے روحانی علاج کے لیے خود کووقف کردیا ۔ کویت کی آرام پسند زندگی کو خیرباد کہہ کر افریقی ممالک میں30سال کی طویل مدت گذاری ، اس عرصہ میں8500000 لوگ ان کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوئے، 590 مساجد تعمیر کیں، 860 مدرسے قائم کئے ، 4 یونیورسیٹیاں قائم کیں، 7ریڈیواسٹیشن لانچ کیے اور168ہاسپیٹلزبنائے ۔ دعوت کے لیے کسی بستی میں پہنچنا ہوتا تو سوسوکیلومیٹر تک پیدل چلتے، پیرکے جوتے ٹوٹ جاتے ۔ گاڑی خراب ہوجاتی، لیکن ہمت نہ ہارتے ۔
متعدد بار آپ پر جان لیوا حملے کیے گئے ، دومرتبہ آپ کو پابندسلاسل کیاگیا، پہلی بار قریب تھا کہ جان سے ہاتھ دھوناپڑے ۔ دوسری بارعراقی خفیہ ایجنسیوں نے غوا کرکے ان کے چہرے ، ہاتھ اورقدم سے گوشت تک نوچ ڈالا ۔ ذیابطيس کے مسلسل مریض تھے، تین بارسر اور دل کا دورہ پڑا لیکن یہ ستم سامانیاں اورجسمانی عارضے ان کے پائے استقلال میں کبھی جنبش نہ لاسکے، دین کی خدمت کے لیے گویا اپنی زندگی وقف کردی تھی، دعوت اور رفاہی خدمت کے لیے دوڑدھوپ کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا، یہ ساری کاوشیںجنت کی طلب میں تھیں۔ اسی لیے جب ان سے ایک مرتبہ ایک انٹرویومیں پوچھا گیا کہ آپ سفرکے مشاغل سے کب فرصت پائیں گے ؟ تو آپ کا جواب تھا :
”جس دن آپ مجھے جنت کی ضمانت دے دیں.... اورظاہرہے کہ جب جنت کی ضمانت نہیں دے سکتے تو پھرموت کے آنے تک عمل کرنے سے کسی کو چارہ کارنہیں، کہ حساب وکتاب کا مرحلہ بڑا سخت ہے۔ اورکیوں کرمیں بیٹھ جاؤں جب کہ لاکھوں لوگ اس بات کے ضرورتمند ہیں کہ کوئی ان کو ہدایت کا راستہ دکھائے، میں کیسے آرام پسند زندگی گزاروں جب کہ ہرہفتہ لوگ ایک کثیر تعداد میں حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں۔ “
ڈاکٹرعبدالرحمن السمیط کو ان کی گرانقدر رفاہی خدمات کے اعتراف میں ملک وبیرون ملک کی مختلف حکومتوں اور تنظیموںکی طرف سے بے شمار ایوارڈز سے نوازاگیا جن میں شاہ فیصل ایوارڈ قابل ذکرہے۔ آپ نے ایوارڈ میں ملنے والی خطیررقم کو افریقی بچوں کی تعلیم پروقف کردیا جس سے کتنے افریقی بچے اعلی تعلیم سے بہرہ ورہوئے ۔
عزیزقاری! جب ہم اس بے مثال شخصیت کی دعوتی اوررفاہی خدمات پر نظر ڈالتے ہیں تو لگتا ہے کہ انہوں نے صدیوں کا سفردنوں میں طے کیا ہے، ایک حکومت اورجماعت کے کرنے کا کام تنِ تنہا کیا ہے ، آپ صحیح معنوں میں اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔ علامہ اقبال نے بالکل صحیح کہا ہے
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
آئیے !عرش عظیم کے رب سے دعا کرتے ہیں کہ ڈاکٹر موصوف کو شفائے عاجلہ کاملہ نصیب فرما ئے اور ان کی خدمات کو اپنی رضا کا ذریعہ بنائے۔ آمین ۔ پھرموجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ہم ڈاکٹرموصوف کو ان کی گرانقدردعوتی اور رفاہی خدمات میں نمونہ بنائیں اور اپنی نئی نسل کی انہیں خطوط پرتربیت کریں تاکہ وہ جس میدان اورجس شعبہ میں رہیں اسلام کے علمبردار بن کر رہیں۔صفات عالم محمدزبیرتیمی
safatalam12@yahoo.co.in
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق