الثلاثاء، فبراير 07، 2012

کیا ہم نے موسم گرما کے پیغام پرغورکیا؟

ہمیں اپنی زندگی کے سارے معاملات کوشرعی نقطہ نظرسے دیکھنا چاہےے اور ملکوںاورقوموںکے حالات میںجو تبدیلیاںواقع ہو رہی ہیں شریعت کی روشنی میں اُن کا جائزہ لیناچاہےے کیونکہ اس سے انسان کی انفرادی واجتماعی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور انسان کو جس مقصد کے تحت اس دنیا  میں بسایا گیا ہے اُس کی یا دہانی ہوتی رہتی ہے ۔ اس طرح کی کچھ تبدیلیاں تو فطری ہوتی  ہیں جیسے رات ودن کا تغیراورموسموں کی تبدیلی وغیرہ اور کچھ انسانوں کے کرتوت کے نتیجے میں الٹی میٹم کے طور پر نمایاں ہوتی ہیں جیسے اقتصادی بحران ، سوائن(خنزیر) فلو ، برڈ فلو ، زلزلے اور ایڈس وغیرہ ، تاکہ انسان سدھر جائے ، سنبھل جائے اور اپنے مقصدحیات کی تکمیل میں لگ جائے۔
ابھی ہم موسم گرما سے گزر رہے ہیں، یہ بھی ہمارے لےے ایک پیغام لے کر آیا ہے ،گرچہ آج ہماراذہن اُس کی طرف نہیں جاتا، اِس کی واضح مثال یہ ہے کہ اگر میں یہ سوال کروں کہ گرمی میں شدت کیوںکر آتی ہے ؟ تواکثر لوگ یہی کہیں گے کہ یہ موسموں کی تبدیلی ، ملک کے محل وقوع اور آسمانی برجوں کا نتیجہ ہے لیکن جب ہم اِس مسئلے پر شرعی نقطہ نظر سے غور کرتے ہیں تو ایک دوسری حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے۔ وہ حقیقت کیا ہے....؟ آج سے چودہ سوسال پہلے صادق ومصدوق انے فرمایاتھا :
جہنم نے اپنے رب سے شکایت کرتے ہوئے کہا : میرے رب ! میرا ایک حصہ دوسرے حصہ کو کھا رہا ہے ، اس لےے تو مجھے سانس لینے کی اجازت عطا فرما ، چنانچہ اللہ تعالی نے جہنم کو دو سانس لینے کی اجازت دے دی ۔ایک سانس موسم سرما میں لینے کی اور ایک سانس موسم گرما میں چھوڑنے کی۔ لہذا (موسم گرما میں ) تم جو سخت گرمی پاتے ہو( اس کے سانس چھوڑنے کی وجہ سے ہے ) اور موسم سرما میں جو سخت ٹھنڈی پاتے ہو، اس کے سانس (لینے ) کے اثر سے ہے“ ۔ (بخاری ومسلم)
بخاری ومسلم کی ایک دوسری روایت کے مطابق نبی امی ا نے فرمایا :” جب گرمی کی شدت ہو تو اُس وقت ٹھنڈے وقت میں نماز ادا کرو ( یعنی انتظار کرلیا کرو کہ وقت ذرا ٹھنڈا ہوجائے ) کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی سانس کی لپیٹ سے پیدا ہوتی ہے “ ۔
شاید آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ گرمی میںشدت کیوںکر آتی ہے ؟ یعنی جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے .... آج ہم جس گرمی کی شدت اور تپش کا احساس کرتے ہیں اس کا مصدر اور سر چشمہ در اصل جہنم ہے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم سائنسی تحقیقات کا انکار کرتے ہیں ، سائنس اپنی جگہ پرمسلم ہے ‘ اگر سائنسی معلومات تحقیق اور تجربے سے سامنے آتی ہیں تو شرعی اسباب قرآن وسنت سے ثابت ہوتے ہیں اور یہ اُن سے زیادہ قوی ہيں ۔
عرض مدعا یہ ہے کہ جب گرمی کی شدت جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے توہم موسمِ گرما کی آمدپرجہنم کو یا دکریں۔ آج ہر شخص اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو آرام وراحت سے رکھنے کی کوشش کرتاہے، انکے لےے ٹھنڈی اور گرمی سے بچا کے وسائل کا بند وبست کرتاہے، کوئی ایر کنڈیشن روم میں رہتاہے،کوئی دنیا کے ٹھنڈے مقامات کی طرف منتقل ہوجاتاہے، کوئی کولر اور بجلی پنکھا کے ذریعہ گرمی سے بچا اختیار کرتاہے جبکہ کچھ لوگ ہاتھ کے پنکھا سے ہی گرمی کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ انہیں لوگوں کو آتش جہنم سے بچنے کی کوئی فکر نہیں، اپنے آپکو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کی پرواہ نہیں کرتے حالانکہ اللہ تعالی نے بندئہ مومن کو جہنم سے ڈرایا ہے اور اس سے بچنے کی ان لفظوں میں تاکید کی ہے ۔”اے ایمان والو ! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوںکو اس آگ سے بچا جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر، جس پر سخت دل فرشتے مقرر ہیں، جنہیں جو حکم اللہ تعالی دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیاجائے بجا لاتے ہیں“۔
آج ہم معمولی گرمی کی شدت سے پریشان ہوجاتے ہیں لیکن جہنم میں کیا حال ہوگا جہاں آگ کا بستر ہوگا، آگ کا لباس ہوگا ،پیپ کا کھانا ہوگا، اور آگ میں جلنا ہوگا، جو آگ گوشت، رگوں،پٹھوں اور چمڑے تک کو کھاجائے گی، پھر ان جلے ہوے اعضاءکے بدلے نئے اعضاءدیے جائیںگے اور یہ سلسلہ ہمیشہ کے لےے چلتا رہے گا ، وہاں کبھی موت نہیں آسکتی۔
لہذا اگر ہم آتشِ جہنم سے بچنا چاہتے ہیں اورجنت کی پرکیف نعمتوں کے متمنی ہیں توہمیں محاسبہ نفس اور فکرآخرت کے لےے شب وروز کی مشغولیات میںسے ذرا وقت نکالنا ہوگا، طبیعت پر شاق گزرنے والے اعمال انجام دینے ہوں گے اور شہوات کو قابو میں رکھنا ہوگا کیونکہ حضورپاک ا کا فرمان ہے ”جنت کو طبیعت پر گراں گزرنے والی چیزوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے اور جہنم کو شہوات سے ڈھانپ دیا گیا ہے “ ۔
اللہ تعالی ہم سب کو دین پر ثابت قدم رکھے۔ آمین


ليست هناك تعليقات: