آج بروز اتوار تقریبا دس بجے صبح برصغير كے معروف عالم دين بقية السلف حافظ عبدالمنان نور پوری صاحب کی وفات کی جانكاه خبر ملی، إنا لله وإنا إليه راجعون . مولانا محمد انور محمد قاسم السلفی صاحب اور مولانا حافظ ابو بکر صاحب دونوں کا يكے بعد ديگرے فون آیا اور یہ اطلاع دی کہ بعد نماز مغرب مسجد فرحان عباسيہ (كويت) میں تعزیتی نشست کے ساتھ غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا كى جائے گی .
چنانچہ نمازمغرب کے بعد محترم مولانا عارف جاويد محمدی صاحب نے غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی، معا بعد تعزیتی نشست رکھی گئی جس میں مختلف سلفی علماء نے مرحوم كے تئيں اپنی عقیدت کا اظہار کیا اور ان كے ليے دعائے مغفرت کی.
حافظ ابو بکر صاحب نے فرمایا کہ آپ میرے اور والد محترم رحمه الله دونوں کے استاد تھے، ہم نے آپ کو بڑا سادگی پسند اور بےتکلف زندگی گزارنے والا انسان پایا، آپ بڑےخاموش طبع انسان تھے، آپ کو علم کے ہر فن پر عبور حاصل تھا ،
مولانا عارف جاويد محمدی صاحب نے فرمایا که حافظ صاحب بڑے قناعت پسند انسان تھے ، ایک بار اساتذہ کی تنخواہ بڑھانے کی بات چلی تو سب سے رائے لی گئی، حافظ صاحب سے پوچها گیا تو آپ نے فرمایا كہ مجھے جتنی تنخواہ ملتی ہے وہ ميرے ليے کافی ہے -
مولانا محمد انور محمد قاسم سلفي صاحب نے فرمايا كه ميں نےمرحوم كو ان كى تاليفات كے ذريعہ جانا ہے كيونكه انسان كى تحرير بهي اس كى شخصيت كى عكاس ہوتى ہے، آپ نے مزيد فرمايا كہ مولانا كے فتوے بڑے علمى ہوتے تهے ، بيع التقسيط كےتعلق سے ان كے فتوے نے ميرى سارى الجهن دور كردى، ان كى وجه سے علم كا جو نقصان ہواہے الله پاك اس كى تلافى فرمائے.
شيخ صلاح الدين مقبول احمد حفظه الله نے قرآن كريم كى يه آيت تلاوت كى " إنما يخشى الله من عباده العلماء" اور فرمايا كه يه خبر متواتر ہے كہ مولانا علم كے مطابق عمل بهى كرتے تهے، آپ سلف كے نمونہ تهے، آپ چوٹی کے عالم دین تھے، آپ نے صاحب فیض الباری کے بخارى پركيے گيے اعتراضات کے عربى زبان ميں مدلل جوابات ديئے ہيں-
آپ نے مزید فرمایا که حافظ صاحب نے اپنے علم کے ذریعہ دين کی خدمت کی ہے، آپ کی تقویٰ شعاری كا ایسا چرچہ تھا کہ علاقے میں جو لوگ مرتے تھے وہ وصیت کرجاتے تھے که حافظ صاحب ہى ان کی نمازجنازہ پڑھائیں گے، آپ نے مزید فرمایا کہ "جو وہ کام کر رہے تھے شاید برصغير میں کوئی عالم دين نہیں جو ان کے جیسے كام كر رہے ہوں-"
مرحوم کی حالات زندگی کے متعلق جب نیٹ پر سرچ کیا تو اردو مجلس پر کچھ معلومات دستیاب ہوئیں جو پیش خدمت ہیں،
"حافظ صاحب نام ونمود سے پاك بالكل ساده زندگى بسر كرتے تهے، نہ كسى سے كوئى جهگڑا نه كسى قسم كى ہنگامه آرائى كا شوق، تمام وقت پڑهنے پڑهانے اور لكهنے لكهانے ميں گذرتاہے، عام جلسون ميں جانے سے گريزاں اور بڑے بڑے القاب سے نفور،ان كى تصانيف كو علوم كے خزانے اور مسائل كے گنجينے سے تعبير كرنا جاهيے، اسلوب تحرير ايسا آسان كه ہربات ہر شخص كو بآسانى سمجه ميں آ جاتى ہے." مزيد يه كه بهٹی صاحب نے اپنی اس كتاب ميں آپ کی 42 مؤلفات کا تعارف بهى كرايا ہے،تفصیل کے لیے مذکورہ کتاب کا مطالعه کیا جا سکتا ہے.
چنانچہ نمازمغرب کے بعد محترم مولانا عارف جاويد محمدی صاحب نے غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی، معا بعد تعزیتی نشست رکھی گئی جس میں مختلف سلفی علماء نے مرحوم كے تئيں اپنی عقیدت کا اظہار کیا اور ان كے ليے دعائے مغفرت کی.
حافظ ابو بکر صاحب نے فرمایا کہ آپ میرے اور والد محترم رحمه الله دونوں کے استاد تھے، ہم نے آپ کو بڑا سادگی پسند اور بےتکلف زندگی گزارنے والا انسان پایا، آپ بڑےخاموش طبع انسان تھے، آپ کو علم کے ہر فن پر عبور حاصل تھا ،
مولانا عارف جاويد محمدی صاحب نے فرمایا که حافظ صاحب بڑے قناعت پسند انسان تھے ، ایک بار اساتذہ کی تنخواہ بڑھانے کی بات چلی تو سب سے رائے لی گئی، حافظ صاحب سے پوچها گیا تو آپ نے فرمایا كہ مجھے جتنی تنخواہ ملتی ہے وہ ميرے ليے کافی ہے -
مولانا محمد انور محمد قاسم سلفي صاحب نے فرمايا كه ميں نےمرحوم كو ان كى تاليفات كے ذريعہ جانا ہے كيونكه انسان كى تحرير بهي اس كى شخصيت كى عكاس ہوتى ہے، آپ نے مزيد فرمايا كہ مولانا كے فتوے بڑے علمى ہوتے تهے ، بيع التقسيط كےتعلق سے ان كے فتوے نے ميرى سارى الجهن دور كردى، ان كى وجه سے علم كا جو نقصان ہواہے الله پاك اس كى تلافى فرمائے.
شيخ صلاح الدين مقبول احمد حفظه الله نے قرآن كريم كى يه آيت تلاوت كى " إنما يخشى الله من عباده العلماء" اور فرمايا كه يه خبر متواتر ہے كہ مولانا علم كے مطابق عمل بهى كرتے تهے، آپ سلف كے نمونہ تهے، آپ چوٹی کے عالم دین تھے، آپ نے صاحب فیض الباری کے بخارى پركيے گيے اعتراضات کے عربى زبان ميں مدلل جوابات ديئے ہيں-
آپ نے مزید فرمایا که حافظ صاحب نے اپنے علم کے ذریعہ دين کی خدمت کی ہے، آپ کی تقویٰ شعاری كا ایسا چرچہ تھا کہ علاقے میں جو لوگ مرتے تھے وہ وصیت کرجاتے تھے که حافظ صاحب ہى ان کی نمازجنازہ پڑھائیں گے، آپ نے مزید فرمایا کہ "جو وہ کام کر رہے تھے شاید برصغير میں کوئی عالم دين نہیں جو ان کے جیسے كام كر رہے ہوں-"
مرحوم کی حالات زندگی کے متعلق جب نیٹ پر سرچ کیا تو اردو مجلس پر کچھ معلومات دستیاب ہوئیں جو پیش خدمت ہیں،
حافظ صلاح الدین یوسف حفظ اللہ لکھتے ہیں کہ :
فضیلتہ الشیخ حافظ عبدالمنان نور پوری حفظ اللہ تعالیٰ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ، آپ زہد و روع اور علم و فضل کی جامعیت کے اعتبار سے اپنے اقران واماثل میں ممتاز ہیں ـ اللہ تعالٰی نے جہاں آپ کو علم و فضل کے ذروہ علیا پر فائز کیا ہے ، وہاں آپ کو عمل و تقوٰی کی خوبیوں اور اخلاق و کردار کی رفعتوں سے بھی نوازا ہے ـ علاو ہ ازیں اوائل عمری ہی سے سند تدریس پرجلوہ افروز ہونے کی وجہ سے آپ کو علوم و فنون میں بھی جامعیت یعنی معقول او رمنقول دونوں علوم میں یکسان عبور و دسترس ہے ـ زادہ اللہ علما و شرفا و بارک فی حیاتہ و جھودہ و کثراللہ امثالہ فینا ـ
تدریس و تحقیقی ذوق ، خلوص و للہیت اور مطالعہ کی وسعت کہرائی کی وجہ سے آپ کے اندر جو علمی رسوخ ، محدثانہ فقاہت اور استدلال و استنباط کی قوت پائی جاتی ہے ـ اس نے آپ کو مجع خلائق بنایا ہوا ہے ـ چنانچہ عوام ہیں نہیں خواص بھی ـ ان پڑھ ہی نہیں ـ علماء فضلاء بھی ـ اصحاب منبر و محراب ہی نہیں ـ اہل تحقیق و اہل فتوٰی بھی مسائل کی تحقیق کے لے لیے آپ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور آپ تدریسی و تصنیفی مصروفیات کے باوصف سب کو اپنے علم کے چشمہ صافی سیراب فرماتے ہیں ـ جزاہ اللہ عن الاسلام والمسلمین خیر الجزاء ـ '' آمین
فضیلتہ الشیخ حافظ عبدالمنان نور پوری حفظ اللہ تعالیٰ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ، آپ زہد و روع اور علم و فضل کی جامعیت کے اعتبار سے اپنے اقران واماثل میں ممتاز ہیں ـ اللہ تعالٰی نے جہاں آپ کو علم و فضل کے ذروہ علیا پر فائز کیا ہے ، وہاں آپ کو عمل و تقوٰی کی خوبیوں اور اخلاق و کردار کی رفعتوں سے بھی نوازا ہے ـ علاو ہ ازیں اوائل عمری ہی سے سند تدریس پرجلوہ افروز ہونے کی وجہ سے آپ کو علوم و فنون میں بھی جامعیت یعنی معقول او رمنقول دونوں علوم میں یکسان عبور و دسترس ہے ـ زادہ اللہ علما و شرفا و بارک فی حیاتہ و جھودہ و کثراللہ امثالہ فینا ـ
تدریس و تحقیقی ذوق ، خلوص و للہیت اور مطالعہ کی وسعت کہرائی کی وجہ سے آپ کے اندر جو علمی رسوخ ، محدثانہ فقاہت اور استدلال و استنباط کی قوت پائی جاتی ہے ـ اس نے آپ کو مجع خلائق بنایا ہوا ہے ـ چنانچہ عوام ہیں نہیں خواص بھی ـ ان پڑھ ہی نہیں ـ علماء فضلاء بھی ـ اصحاب منبر و محراب ہی نہیں ـ اہل تحقیق و اہل فتوٰی بھی مسائل کی تحقیق کے لے لیے آپ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور آپ تدریسی و تصنیفی مصروفیات کے باوصف سب کو اپنے علم کے چشمہ صافی سیراب فرماتے ہیں ـ جزاہ اللہ عن الاسلام والمسلمین خیر الجزاء ـ '' آمین
حافظ صاحب علم وعمل کے پہاڑ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک غیر متنازعہ شخصیت بھی تھے۔۔۔۔عام طور پر آج کل کے معاشرہ میں علماء کو اچھے نظروں سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔۔۔اسی طرح کا ایک واقعہ ہے کہ جب میں پڑتا تھا تو ایک استاد محترم نے مجھے بینک میں کسی کام کے لئے بھجا۔۔وہاں پر لوگوں کی لائن لگی ہوئی تھی۔۔اور ہر طبقہ کے لوگ یقینا موجود تھے۔۔۔اور لوگ آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔۔۔اور علماء کے خلاف باتیں بھی کر رہے تھے ۔۔کہ ایک آدمی بول پڑا۔۔۔وہ کہتا ہے ۔۔کہ میں ہوں شیعہ لیکن علماء کو برا کہتے ہوئے سوچا کریں وہابیوں کا عبدالمنان بھی عالم ہے۔۔اور بے داغ ہے۔۔واللہ اس دن اس شیعہ کی زبان سے جب میں نے حضرت حافظ صاحب کی تعریف سنی تو مجھے انتہائی خوشی ہوئی ۔۔اور مجھے اپنے آپ پر فخر ہونے لگا کہ میں اس عظیم ہستی کا شاگرد ہوں جس کے اپنے تو اپنے بیگانے بھی تعریف کرتے ہیں۔۔۔اللہ اس عظیم ہستی کو جس طرح کا عظیم مقام دنیا میں عطا کیا تھا ۔۔۔اس سے کہیں بڑھ کر دوسری جہاں میں مقام عطا فرما آمین ثم آمین
اسی طرح مولانا محمّد اسحاق بهٹی صاحب نے اپنی تالیف "دبستان حدیث" کے صفحه 538 سے 553 تک میں بڑی تفصیل سے آپ کی زندگی پر روشنی ڈالی ہے جس میں انہوں نے لكها هے كه آپ پاكستان كے ضلع گوجراں والا كے ايك قصبه نور بور ميں بيدا هوئے- سات سال کی عمر کو پہنچے تو والدہ بھی وفات پا گئیں، گاؤں کے پرائمری سکول میں ابتدائی تعليم حاصل کرنے کے بعد مولانا محمّد اسماعیل سلفی کے حلقہ درس سے وابستہ ہو گيے،حافظ صاحب ہمیشہ مصروف کار رہے، کبھی وقت ضائع نہیں کیا."حافظ صاحب نام ونمود سے پاك بالكل ساده زندگى بسر كرتے تهے، نہ كسى سے كوئى جهگڑا نه كسى قسم كى ہنگامه آرائى كا شوق، تمام وقت پڑهنے پڑهانے اور لكهنے لكهانے ميں گذرتاہے، عام جلسون ميں جانے سے گريزاں اور بڑے بڑے القاب سے نفور،ان كى تصانيف كو علوم كے خزانے اور مسائل كے گنجينے سے تعبير كرنا جاهيے، اسلوب تحرير ايسا آسان كه ہربات ہر شخص كو بآسانى سمجه ميں آ جاتى ہے." مزيد يه كه بهٹی صاحب نے اپنی اس كتاب ميں آپ کی 42 مؤلفات کا تعارف بهى كرايا ہے،تفصیل کے لیے مذکورہ کتاب کا مطالعه کیا جا سکتا ہے.
اللهم اغفر له وارحمه , وعافه , واعف عنه , وأكرم نزله , ووسع مدخله , واغسله بالماء والثلج والبرد , ونقه من الخطايا كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس , وأبدله دارا خيرا من داره , وأهلا خيرا من أهله , وزوجا خيرا من زوجه , وأدخله الجنة , وأعذه من عذاب القبر وعذاب النار.
اللهم اغفر لحينا ، وميتنا , وشاهدنا, وغائبنا , وصغيرنا وكبيرنا , وذكرنا وأنثانا , اللهم من أحييته منا فأحيه على الإسلام , ومن توفيته منا فتوفه على الإيمان , اللهم لا تحرمنا أجره ولا تضلنا بعده .
اللهم إن عبد المنان بن عبد الحق في ذمتك , وحبل جوارك , فَقِهِ من فتنة القبر وعذاب النار , وأنت أهل الوفاء والحق ، فاغفر له وارحمه إنك أنت الغفور الرحيم
اللهم عبدك وابن أمتك احتاج إلى رحمتك , وأنت غني عن عذابه , إن كان محسنا فزد في حسناته , وإن كان مسيئا فتجاوز عنه
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق