اسلام ساری انسانیت کے لیے رحمت کا پیغام بن کرآیاہے ، اس کی آفاقی تعلیمات میں انسانی زندگی میں پیش آنے والے سارے مسائل کا مکمل حل موجودہے ، اس میں انسانی فطرت اوراس کے تقاضے کی پوری رعایت رکھی گئی ہے تاکہ انسان چاہے وہ جس ملک، جس زمانے اورجس قبیلے سے تعلق رکھتا ہو‘اس کے گہوارہ میں امن وسکون اورسعادت کی زندگی گذار سکے۔ لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سامان گوکہ بیش قیمت اورگراںمایہ ہو اگراس کی تشہیر مطلوبہ طریقے سے نہ کی گئی توصارفین کی نظروں میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ، بلکہ رفتارِ زمانہ کے ساتھ لوگ اسے فرسودہ اورازکاررفتہ سمجھنے لگتے ہیں۔ صد حیف آج یہی صورتحال تقریباً اسلام کی ہے، چنانچہ ایک طرف عالمی میڈیا جہالت اور مذہبی تعصب کی بنیاد پر اسلام پرمختلف قسم کے اعتراضات کئے جارہاہے، تودوسری طرف خودہماری نئی نسل کے ذہنوں میں اسلام کے خلاف بھانت بھانت کے سوالات پیدا ہورہے ہیں، ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہورہا ہوکہ ہم شاید اپنی قوم سے بدظنی کے شکار ہیں یا ان کی کوششوں کی ناقدری کررہے ہیں،ایسا ہرگز نہیں ہے،ہمیں اپنی قوم کے باہمت نوجوانوں پرفخر ہے، تاہم جس حدتک ہمارے پاس افراد ہونے چاہیے تھے نہیں ہیں، جب ہم اپنے حلقے میں ہوتے ہیں تو خوش فہمی کے شکار ہونے لگتے ہیں کہ ماشاءاللہ ہمارے پاس دین کی خدمت کرنے والے احباب کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے لیکن جب ملکی اورعالمی سطح پراہل باطل کی چستی ، اورباطل کے فروغ کے لیے منصوبہ بندی کے سامنے اہل حق کی سستی اورحق کے فروغ میںبے حسی پر غورکرتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے ۔ اورہمیں اپنی کوتاہی کاپورا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ اگرہمارے پاس کسی چیز کی کمی ہے تو بلند ہمت ، اولوالعزم اورفولادی ارادہ کے مالک افراد کی ، جواسلام کوعملاً اپنی زندگی میں نافذ کرکے گھرگھراس کی تشہیرکرتے ۔ اسلامیات کاگہرا مطالعہ کرنے والا ایک مستشرق جب اس نکتہ پر پہنچتا ہے توبے لاگ یہ تبصرہ کرنے پر مجبورہوتا ہے کہ :
یا لہ من دین لوکان لہ رجال”کیاہی عمدہ دین ہے کاش کہ اسے ویسے افراد مل جاتے“۔ شاید امیرالمؤمنین عمرفاروق رضى الله عنه نے ایسی ہی نازک حالت کے لیے یہ دعا کی تھی اللھم انی أعوذ بک من جلد الفاجروعجزالثقة ”اے اللہ ! میں تجھ سے فاجرکی ہمت وقوت اورثقہ کی پست ہمتی وکوتاہی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ “
جی ہاں! اگرایک مسلم کوتاہ ہے تواس سے اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا گوکہ اس کے ایمان کی گواہی پوری زمین دیتی ہو، وہ معاشرے کے لیے مفید نہیں بن سکتا ،بلکہ بسا اوقات اس کی کوتاہی باطل کومعاشرے میں پروان چڑھنے کا موقع فراہم کرے گی ۔ ایک انسان جو اپنی ذات تک محدود ہووہ معاشرے کے لیے عضومعطل ہے ، کتنے لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہم نے نماز روزے کی پابندی کرلی تواپنی ذمہ داری سے عہدہ برآہوگئے ، حالانکہ ایک مسلمان کی ذمہ داری محض یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی ذات کی اصلاح کرلے اوربس بلکہ اسے’ خیرامت‘ کا لقب اس بنیادپر دیاگیا ہے کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہے ،وہ خیر کا ہرکارہ ہے۔آج انسانی معاشرے کو غفلت کیش اورپست ہمت عابد وزاہد کی ضرورت نہیںبلکہ بیدارمغزاوربلند ہمت داعی کی ضرورت ہے جو خود کی اصلاح کے ساتھ کفروشرک کی شب تاریک میں ایمان وعمل کی قندیل روشن کرسکے ۔اس
کی ذات سے دوسروں کو فیض پہنچ سکے ،اس کا وجود انسانیت کے لیے نیک فال بن سکے ۔ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ شخص وہ ہے جو لوگوںکے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہو،اوراللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل یہ ہے کہ کسی مسلمان کے دل میں خوشی کی لہر دوڑا دو ، یا اس کی کسی پریشانی کودور کردو،یا اس کا قر ض ادا کردو ،یا اس کی بھوک مٹادو، میں کسی مسلمان کی ضرورت پوری کرنے کے لیے چلوں‘ یہ میرے لیے مسجد (نبوی ) میں ایک مہینہ اعتکاف میں بیٹھنے سے بہتر ہے “۔ (رواہ الطبرانی فی الکبیرو حسنہ الالبانی فی الصحیحة 906)
یہ ہے ایک سچے مسلمان کا حقیقی خدوخال جو ہمیشہ حرکت میں ہوتا ہے ، جوشجرسایہ دار ہوتا ہے جس کے سایہ سے خاص وعام سب کویکساں فائدہ پہنچتا ہے ۔ لیکن جب ہم قوم مسلم کا عمومی تجزیہ کرتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ آج ہماری اکثریت اپنی ذات کے خول میں گم ہے ، ہمیں دوسروں کی کوئی پرواہ نہیں ، اورجہاں اسلامی تشخص کا مسئلہ ہو وہاں ہماری بے حسی اس قدربڑھ جاتی ہے کہ ہم اپنی پہچان تک کھوبیٹھتے ہیں بالخصوص جب کثیرمذہبی معاشرے میں کسی منصب اورعہدے پر فائز کردئیے جائیں توہماری بے حسی مزید دوآتشہ ہوجاتی ہے،بسااوقات روشن خیالی اوررواداری کے نام پر اپنے دین وایمان تک کا سودا کربیٹھتے ہیں۔ ہماری ذات سے اپنی قوم کو فائدہ کم پہنچتا اوردوسروں کو زیادہ پہنچتا ہے ۔
دوسری جانب کفارومشرکین قوم پروری میں پیش پیش اوراپنے باطل مذہب کے فروغ میں تن من دھن کی بازی لگاتے ہوئے دکھائی دیں گے ۔عالمی سطح پراہل باطل ذرائع ابلاغ کے ذریعہ شہوات اورشبہات کو ہوادینے کے لیے ان سارے وسائل کوبروئے کار لا ہی رہے ہیں جو ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکیں۔جب ملکی اورقومی سطح پر ان کی کوششوں کا جائزہ لیں توشہر، قصبہ اوربستی کا وہ کو ن سا علاقہ نہیں ہے جہاں عیسائی مشینریز اورقادیانیت کی ارتدادی سرگرمیاں جاری نہ ہوں۔ ایک عیسائی کو اس کا باطل مذہب اتنا پیار اہے کہ ملازمت سے فارغ ہوتے ہی کلیسا کی ایما ء پربائبل بغل میں دبائے عوامی مقامات پرپہنچتا ہے ، اورجہاں موقع ملا بائبل کی تعلیم شروع کردیتا ہے ،گھر گھر عیسائی لٹریچر پہنچاتا ہے ، کمپنیوں میں اپنے افراد پر کڑی نظر رکھتا ہے ۔ ایک پاکستانی نومسلم نے ہمارے سامنے اعتراف کیا کہ وہ وفرہ کے علاقے میں ہرہفتہ غذائی اشیاء کے ساتھ بائبل تقسیم کیا کرتا تھا ۔ قوم پروری کی طرف دھیان دیں توایک غیرمسلم جب کہیں برسرروزگارہوتا ہے تو اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہاں اس کے ہم مذہب زیادہ سے زیادہ تعداد میں پہنچ سکیں۔
کویت میں راقم سطورنے ہندوستان کے ہندوؤں کو بھی قریب سے دیکھا ہے ، وہ اپنی اجتماعیت بحال رکھنے کے لیے خاص علاقے میں رہنا پسند کرتے ہیں، مذہبی شعارکی ادائیگی کے لیے روزانہ اکٹھا ہوتے ہیں ، اپنی قوم کے تنگ دستوں کے لیے ماہانہ رقم جمع کرتے ہیں۔
اب ذرا دل کو ٹٹولیں اورمن سے پوچھیں کہ ان کے مقابلہ میں ہم نے کیا کیا ہے ؟ کس حدتک ہم نے اپنی قوم کے بارے میں سوچا ہے؟ کس حدتک ہم نے انسانیت کی رہنمائی کا فریضہ ادا کیا ہے؟ آخر ہم کیسے خود کوآفاقی پیام کا علمبردار کہہ سکتے ہیں؟ ؟؟
بیدارہوئی جاتی ہے دنیا کی ہرایک قوم
افسوس میری قوم بدلتی نہیں کروٹ
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق