ہرقوم اورمذہب میں اخلاقیات کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ ہرمذہب اپنے ماننے والوں کو اچھے اخلاق کا پیکر بنانا چاہتا ہے ۔ قوموں اورملکوں کی ترقی میں بھی اخلا ق کا بنیادی رول ہے ۔ قومیں اپنے اخلاق کی بنیاد پر باقی رہتی ہیں اگران کا اخلاق جاتا رہا تو وہ خودبخود مٹ جاتی ہیں ۔ آج ہم اسی اخلاق کے بارے میں بات کریں گے ....لیکن یہ اخلاق ہوںگے ایک نبی کے .... اورایسے نبی کے جن کو صرف عربوں کے لیے نہیں....صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ....بلکہ پوری انسانیت کے لیے بھیجا گیا تھا ۔ ....جن کو حسن اخلاق کی تکمیل کے لیے ہی بھیجا گیا ۔جن کے اخلاق کی گواہی خود اللہ پاک نے دی وانک لعلی خلق عظیم "آپ بہت عمدہ اخلاق پر ہیں" ۔
چنانچہ آپ جب اس نبی کے اخلاق کا مطالعہ کریں گے تو واقعی پائیں گے کہ ان کے جیسا اخلاق کامالک انسان نہ پیدا ہوا اورنہ ہوسکتا ہے ۔ آپ کی نشونما یتیمی کے سایے میں ہوئی اس کے باوجود آپ ہوش سنبھالتے ہیں اعلی اقدار کے دلدادہ ہوگئے ۔ صلہ رحمی کرتے ، غریبوں کی مدد کرتے ، بیکسوں کی دست گیری کرتے ۔ نیکی ، پاکبازی ، امانت داری اور سچائی میں مشہور تھے ۔ لوگوں نے آپ کو صادق اور امین کا لقب دے رکھا تھا۔
آپ کے اندرحد درجہ کی خاکساری اور انکساری تھی ، آپ اپنے جوتے خود ٹانکتے، اپنے کپڑے خود سیتے، اپنی بکری خود دوہتے اور اپنا کام خود کرلیا کرتے تھے ۔ کوئی ملتا تو اسے سلام کرنے میں پیش قدمی کرتے، یہاں تک کہ بچوں کے پاس سے بھی آپ کا گذرہوتا تو آپ ان کو سلام کرتے، مصافحہ کے لیے بھی پہلے ہاتھ بڑھاتے، اوراپنا ہاتھ اس وقت تک نہ کھیچتے جب تک کہ وہ خود کھینچ لے ۔ کوئی دعوت دیتا تو اس کی دعوت قبول کرتے ، آپ کی خاکساری کا یہ عالم تھا کہ اپنے خادم کو کبھی اُف تک نہ کہا ۔ نہ کسی کو اپنے ہاتھ سے کبھی مارا ۔ نہ بیوی کو نہ نوکر کو .... آپ کی ذات عفو ودرگذر کا نمونہ تھی ۔ آپ نے کبھی بھی اپنے نفس کے لیے کسی سے بدلہ نہیں لیا .... یہاں تک کہ مکہ پر فتح پانے کے بعد ان دشمنوں کی بھی عام معافی کا اعلان کردیا جنہوں نے مسلسل اکیس سال تک ستایا ،پریشان کیا،جانیں لیں،اورجینا دوبھر کردیاتھا ۔
آپ نہایت حیادار اورپست نگاہ تھے ۔ پردہ نشین کنواری دوشیزاؤں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے۔ آپ اس کثرت سے عبادت کرتے کہ پاؤں مبارک میں ورم آجاتا لیکن اس کے باوجود رہبانیت اور جوگی پن کو پسند نہیں کرتے تھے ۔ آپ صلى الله عليه وسلم دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو ناپسند کرتے تھے لیکن جب آپ کی خدمت میں سائل آجاتا تو اسے کبھی نہ میں جواب نہ دیتے تھے ۔
زہدواستغنا اس قدر کہ آپ کا گھر نہایت تنگ ہے ۔ بستر ایسا ہے کہ جس میں کھجورکی چھال بھری ہوئی ہے ۔عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے کبھی پیٹ بھر کر نہیں کھایا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بھوک کی وجہ سے آپ کو رات بھر نیند نہ آتی ۔ یہ زہد کوئی اضطراری نہیں بلکہ اختیاری تھا ۔ مسند احمد اورترمذی کی روایت ہے آپ ا نے فرمایا: ترے رب نے میرے لیے یہ پیش کیا کہ مکہ کے پہاڑوں کو سونے کا پہاڑ بنادے ۔ میں نے کہا: لایا رب ولکن أشبع یوما وأجوع یوما " نہیں میرے رب میری خواہش یہ ہے کہ ایک دن کھانے کو ملے اورایک دن بھوکا رہوں۔" لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ خشک مزاج اور رہبانیت پسند تھے ۔ آپ دنیا سے بے پرواہ ضرور تھے لیکن تارک دنیا نہیں تھے ۔ اپنی بیویوں کے حقوق بھی ادا کرتے اورفرماتے خیرکم خیرکم لأھلہ وأنا خیرکم لأھلی ۔ " تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بہتر ہواور میں اپنے اہل خانہ کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں۔"
اس مختصر سی تمہید کے بعد اب ہم چلتے ہیں اپنے سامعین کی کالز کی طرف اورلیتے ہیں ایک کال ....
چنانچہ آپ جب اس نبی کے اخلاق کا مطالعہ کریں گے تو واقعی پائیں گے کہ ان کے جیسا اخلاق کامالک انسان نہ پیدا ہوا اورنہ ہوسکتا ہے ۔ آپ کی نشونما یتیمی کے سایے میں ہوئی اس کے باوجود آپ ہوش سنبھالتے ہیں اعلی اقدار کے دلدادہ ہوگئے ۔ صلہ رحمی کرتے ، غریبوں کی مدد کرتے ، بیکسوں کی دست گیری کرتے ۔ نیکی ، پاکبازی ، امانت داری اور سچائی میں مشہور تھے ۔ لوگوں نے آپ کو صادق اور امین کا لقب دے رکھا تھا۔
آپ کے اندرحد درجہ کی خاکساری اور انکساری تھی ، آپ اپنے جوتے خود ٹانکتے، اپنے کپڑے خود سیتے، اپنی بکری خود دوہتے اور اپنا کام خود کرلیا کرتے تھے ۔ کوئی ملتا تو اسے سلام کرنے میں پیش قدمی کرتے، یہاں تک کہ بچوں کے پاس سے بھی آپ کا گذرہوتا تو آپ ان کو سلام کرتے، مصافحہ کے لیے بھی پہلے ہاتھ بڑھاتے، اوراپنا ہاتھ اس وقت تک نہ کھیچتے جب تک کہ وہ خود کھینچ لے ۔ کوئی دعوت دیتا تو اس کی دعوت قبول کرتے ، آپ کی خاکساری کا یہ عالم تھا کہ اپنے خادم کو کبھی اُف تک نہ کہا ۔ نہ کسی کو اپنے ہاتھ سے کبھی مارا ۔ نہ بیوی کو نہ نوکر کو .... آپ کی ذات عفو ودرگذر کا نمونہ تھی ۔ آپ نے کبھی بھی اپنے نفس کے لیے کسی سے بدلہ نہیں لیا .... یہاں تک کہ مکہ پر فتح پانے کے بعد ان دشمنوں کی بھی عام معافی کا اعلان کردیا جنہوں نے مسلسل اکیس سال تک ستایا ،پریشان کیا،جانیں لیں،اورجینا دوبھر کردیاتھا ۔
آپ نہایت حیادار اورپست نگاہ تھے ۔ پردہ نشین کنواری دوشیزاؤں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے۔ آپ اس کثرت سے عبادت کرتے کہ پاؤں مبارک میں ورم آجاتا لیکن اس کے باوجود رہبانیت اور جوگی پن کو پسند نہیں کرتے تھے ۔ آپ صلى الله عليه وسلم دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو ناپسند کرتے تھے لیکن جب آپ کی خدمت میں سائل آجاتا تو اسے کبھی نہ میں جواب نہ دیتے تھے ۔
زہدواستغنا اس قدر کہ آپ کا گھر نہایت تنگ ہے ۔ بستر ایسا ہے کہ جس میں کھجورکی چھال بھری ہوئی ہے ۔عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے کبھی پیٹ بھر کر نہیں کھایا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بھوک کی وجہ سے آپ کو رات بھر نیند نہ آتی ۔ یہ زہد کوئی اضطراری نہیں بلکہ اختیاری تھا ۔ مسند احمد اورترمذی کی روایت ہے آپ ا نے فرمایا: ترے رب نے میرے لیے یہ پیش کیا کہ مکہ کے پہاڑوں کو سونے کا پہاڑ بنادے ۔ میں نے کہا: لایا رب ولکن أشبع یوما وأجوع یوما " نہیں میرے رب میری خواہش یہ ہے کہ ایک دن کھانے کو ملے اورایک دن بھوکا رہوں۔" لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ خشک مزاج اور رہبانیت پسند تھے ۔ آپ دنیا سے بے پرواہ ضرور تھے لیکن تارک دنیا نہیں تھے ۔ اپنی بیویوں کے حقوق بھی ادا کرتے اورفرماتے خیرکم خیرکم لأھلہ وأنا خیرکم لأھلی ۔ " تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بہتر ہواور میں اپنے اہل خانہ کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں۔"
اس مختصر سی تمہید کے بعد اب ہم چلتے ہیں اپنے سامعین کی کالز کی طرف اورلیتے ہیں ایک کال ....
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق