الاثنين، مايو 26، 2014

غزل
ساگر تیمی
اتنی الجھی ہوئی تحریر نہیں ہو سکتی
نیند ہی خواب کی تعبیر نہیں ہو سکتی
میں مصور کی لیاقت کا بھی قائل ہوں مگر
آپ سی آپ کی تصویر نہیں ہو سکتی
میری کوشش میرا انجام بدل سکتی ہے
نامرادی میری تقدیر نہیں ہو سکتی
ایسا وعدہ کہ میں وعدہ نہ کبھی توڑونگا
زندگی ہے تو یہ تقصیر نہیں ہو سکتی
عزم انسان کو پابند و مقید کرلے
اتنی مضبوط بھی زنجیر نہیں ہو سکتی
اس کا مطلب ہے اعمال ہی کھوٹے ہونگے
جادو ٹونا کی یہ تاثیر نہیں ہو سکتی
میں بھی ساگر اسے انسان کا بچہ سمجھوں
مجھ سے ظالم کی یہ توقیر نہیں ہو سکتی 

ليست هناك تعليقات: