الجمعة، مايو 23، 2014


اسلامی شناخت ، نئي حکومت  اورمسلمان
ثناءاللہ صادق تیمی،جواہرلال نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی
پچھلے دنوں ہندوستانی مسلمانوں کے اوپر حسن سرور کی ایک دلچسپ کتاب منظر عام پر آ‏ئی ۔ انگریزی میں لکھی گئی اس کتاب کے اندر مختلف ذیلی عناوین کے تحت یہ بات بتلائی گئی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی نئی نسل زیادہ سمجھدار اور صحت بخش خیالات کی مالک ہے ۔ ان کے اندر جہاں اسلام کی طرف رجحان بڑھا ہے وہيں وہ ہندوستان کے مین اسٹریم کا حصہ بھی ہوئے ہیں ۔ یہ اپنے پروجوں کی مانند خوف کی نفسیات میں نہیں جیتے ۔ انہیں روزگارکی تلاش ہے ۔ مذہب ان کےلیے روحانی سکون و ارتقا کا ذریعہ ہے سیاست اور ہنگامہ آرائی کانہیں ۔ کتاب کا عنوان ہے " ہندوستانی مسلمانوں کا بہاریہ ۔ کوئي اس بارے میں بات کیوں نہیں کر رہا " ۔ اس کتاب کے اوپر جے این یو کے ایک پی ایچ ڈی اسکالر ابھے کمار نے بڑا زبردست اور تفصیلی تبصرہ لکھا ہے جس کے اندر جہاں انہوں نے بہت سارے معاملات میں مصنف سے اختلاف کیا ہے وہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہندوستان کا مسلمان اور خاص طورسے نوجوان بنیادی حقوق سے محروم ہے ۔ دوسری اقلیتوں کے مقابلے میں اسے تعصب کا سامنا زیادہ ہے اور یہ کہ تھوڑے بہت لوگ اگر مطمئن ہيں تو اس سے پوری قوم کا اندازہ نہيں لگایا جاسکتا ۔ ابھے کمار مانتے ہیں کہ مسلم نوجوانوں میں مثبت اور عملی افکار ہیں لیکن اس سے حکومت کی ذمہ داری کم نہیں ہوجاتی کہ وہ ان کے تئیں بہتررویہ اپنائے اوران کی ترقی کے لیے کام کرے ۔
       میں ذاتی طور پر حسن سرور کی اس کتاب کے بعض مشمولات کے انتہائی درجے میں گمراہ کن ہونے کے باوجود اس کتاب کو وقت کی ضرورت سمجھتا ہوں ۔ کتاب کےاندر حالانکہ مصنف کا تعصب بہت واضح جھلکتاہے ۔ ابھے کمار نے بجا طور پر گرفت کی ہے کہ تقسیم ہند کے لیے مسلم لیگ اور جناح کو الزام دینے والے سرور انڈین نیشنل کانگریس کی غلط پالیسیوں کا ذکر کیوں بھول جاتے ہیں ۔ ابھے کمار کی یہ گرفت بھی اچھی ہے کہ مسلمان فرقہ پرست طاقتوں کے لیے ووٹ کرنے لگیں، اپنی روشن خیالی اور مین اسٹریم سے جڑنے کی دلیل کے طور پر  ، جس کا مشورہ دبے لفظوں میں حسن سرور دے گئے ہیں ۔    
       لیکن ان تمام کے باوجود میں سرور کی کتاب کو کئی ایک اعتبار سے اہم سمجھتاہوں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ عام طور سے مین اسٹریم  میڈیا کے اندر مسلمانوں کی تصویرنہایت ناقص اور منفی دکھائی جاتی ہے ایسے میں اس قسم کی تحریر لوگوں کے سامنے ایک دوسری تصویر پیش ضرور کرتی ہے جو پوری طرح نہيں تو اسی فیصدی درست ضرور ہے ۔ تقسیم کے بعد فرقہ وارانہ فسادات کی مارجھیلنے والے ، روزگارسے بے دخل رکھے جانے والے اور شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھے جانے والے مسلمانوں کے اندر اگرتھوڑے  بہت تحفظات پائے گئے تو یہ کوئي زیادہ تعجب کی بات نہيں ۔ شاید اسی لیے نام نہاد سیکولر لوگوں نے اس کابھرپورفائدہ اٹھایا اور مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا ۔ 1992 کے بعد پیدا ہونے والی نسل نسبۃ زیادہ عملی اور مین اسٹریم سے جڑی ہوئی ہو ہی سکتی ہے ۔ سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ سارےتعصبات کے بعد بھی لیبرلائزیشن آف ایکونومی کا فائدہ جہاں ملک کے اور دوسرے افراد تک پہنچاوہيں اس سے مسلمانوں کو بھی فوائد حاصل ہوے ۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی کثرت نے ٹیلینٹیڈ نوجوانوں کے لیے اپنے دروازے وا کیے تو مسلمانوں کے اندر بھی ایسے نوجوانوں کی کوئی کمی نہیں تھی ۔ ادھر آکریہ بھی سچ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دم پر محنت مزدوری کرکے بھی بہت کچھ اپنے حالات اچھے کیے اور اپنے بچوں کو تعلیم و تعلم سے جوڑا اور اس طرح ان کے حالات بہتر ہوئے ۔ عام انسانی  زندگی میں تعلیم ، روزگار اور اچھی صحت بہت معنی رکھتی  ہے ۔ اس کے بالمقابل اگرمسلم قیادت کا جائزہ لیا جائے تو وہ بالعموم اشتعال انگیز بیان بازی پر منحصر رہی ۔ کچھ باشعور لوگوں نے ملت کی مثبت رہنمائی کا بھی فریضہ انجام دیا اور الحمد للہ اس کے اچھے اثرات بھی مرتب ہوئے ۔
     نئی نسل کے اندر اگر ایک طرف دین کی طرف مثبت رجحان بڑھا ہے اور دوسری طرف وہ مین اسٹریم لائف کا حصہ ہونے لگے ہيں تو اسے خوش آئند ہی کہا جائیگا ۔ دین کا یہ مطلب قطعا نہیں ہوتاہے کہ آدمی بات بات میں جائزناجائزاپنی کمیوں کودوسروں کے تعصبات سے جوڑکردیکھے ۔ ایسے ہندوستان کے اندر اسلامی شناخت کی حفاظت اور ساتھ ہی  قومی زندگی میں عام ترقی کی راہ پر گامزن رہنے کا مسئلہ شروع سے ایک پریشان کن اور پیچیدہ مسئلہ  رہا ہے ۔ اس پورے معاملے میں ہمیں اس حقیقت کو قبول کرنا چاہیےکہ ہم نے قومی سطح پر بالعموم عملی رویہ اپنانے کی بجائے ہنگامہ آرائی کا رویہ اپنایا اور ہماری پوری قومی اورملی زندگی ان ہنگامہ آرائیوں کی نذر ہوگئی۔ 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی کی زبردست جیت سے مسلم شناخت اور ملی زندگی کو لے کر کئی  سارے سوالات کھڑے ہوگئے ہیں ۔ عام حالات میں مسلم قیادت اور تھنک ٹینک کے اندر ایک قسم کی مایوسی کی سی کیفیت دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ اس پوری صورت حال سے مایوس ہونے کی بجائے حکمت اور دانائی کےساتھ ابرنے کی ضرور ت ہے۔ اسے مندرجہ ذیل تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے ۔
1۔  سامنے کا سچ یہ ہے کہ اس مرتبہ بی جے پی کی زبردست جیت ہوئی ہے اور سیکولرپارٹیاں بری طرح ناکام ہوئی ہیں۔ ہمیں قبول کرنا چاہیے کہ آئندہ پانچ سالوں تک حکومت ان کےہی ہاتھ میں رہے گی ۔ اس لیے جوشیلے بیانوں کی بجائے ایسے میکانزم سے کام لینا ہوگا جس سے حکومت اور مسلمانوں کے بیچ شکوک و شبہات کے دروازے بند ہو سکیں ۔
2۔ اس قسم کی صورت حال میں ملت کے اندر دو طرح کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔ عام لوگ عجیب و غریب قسم کے ڈر کی نفسیات میں جینے لگتے ہیں اور مایوسی کے  دلدل میں دھنس کر اپنے آپ کو بگاڑنے میں انرجی  صرف کرنےلگتے ہیں ۔ اور صورت حال کا فائدہ ایسے سماج دشمن عناصر اٹھالینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو دین کو تخریب کاری کا ذریعہ بنالیتے ہیں اور اپنی  الٹی سیدھی تاویلیوں سے غلط قسم کے جذبات برانگیختہ کرکے لوگوں کو انتہا پسندی کی راہ پر ڈال دیتے ہیں ۔ ایسے میں قائدین ملت اور سماج کے باشعور لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جہاں عوام الناس کے اندر خود اعتمادی کو پروان چڑھائیں وہيں ان کی بہتر تربیت کے ذریعہ ان کے اندر کارگر سنجیدگی کو مضبوط کرنے کی  کوشش کریں ۔
3۔  اس صورت حال کا تقاضہ ہے کہ قائدین اخـباری بیانبازیوں کی بجائے زمینی سطح پر لوگوں کے بیچ رہ کر کام کریں اور ملت کی تعمیر سے مزید غفلت کا ثبوت نہ دیں ۔
4 ۔ حکومت بی جے پی کی بنی  ہے ۔ عام حالات میں مسلمانوں نے مودی کو ووٹ نہیں دیا ہے ۔ لیکن بی جے پی اب ہندوستان چلائے گی اور ہندوستان کا جس طرح یہاں کے ہندو یا دوسرے لوگ حصہ ہیں وہيں ہم مسلمان بھی اسی کا حصہ ہیں ۔ ایسے میں یہ سوچنا کہ ہم حکومت کے سامنے اپنے مطالبات کیسے رکھ سکتے ہیں ۔ کوئی اچھی  بات نہیں ۔ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور جمہوریت میں کسی کے حق اور کسی کے خلاف ووٹ کرنے کا پورا حق حاصل ہوتا ہے ۔ ہم نے اگربی جےپی کے خلاف ووٹ کیا ہے تو بہت سے ہندؤں نے بھی تو ان کے خلاف ووٹ کیا ہے ۔ سمجھنےکی بات یہ بھی ہے کہ بی جے پی کو 31 ٪ ووٹ ہی ملے ہیں ۔ یعنی کم از کم ہم یہ کہ ہی سکتے ہیں کہ ہمارے علاوہ ملک کی اکثریت بھی بی جے پی کے ساتھ نہیں تھی لیکن بہر حال اوروں کے مقابلے میں انہیں ووٹ زیادہ ملا اور وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوں گے ۔  مایوسی کی اس دیوار کو پاٹنے کی ضرورت ہے ۔ خود بی جے پی کا سمجھدار طبقہ بھی یہی چاہے گا کہ مسلمانوں کے اندر ان کی پارٹی کی امیج صحیح بنے ۔
5۔ خدانخواستہ اگر بی جے پی گورنمنٹ مسلم مخالف رویے اپناتی  ہے تب بھی ہمیں مایوس ہونے کی بجائے حکمت اور دانائی کے ساتھ صورت حال کا مقابلہ کرنے کی ضرورت پیش آئيگی ۔ یوں بھی جمہوریت میں کسی کو مستقل دشمن سمجھ کر معاملہ کرنا بہت عقلمندی نہیں ہوتی ۔ ہمیں یہ تو طے کرنا ہی پڑےگاکہ ہم اپنے معاملات حکومت تک کس طرح پہنچائينگے ۔ پچھلے دنوں انگریزی کے مشہور فکشن نگار چیتن بھگت کی ایک متوازن تحریر سامنے آئی تھی جس کے اندر انہوں نے بی جے پی کومشورہ دیا تھا کہ مسلمانوں کے فلاح و بہبود کی جانب بھی توجہ صرف کرے اور مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ تھی وہ بی  جے پی کے ساتھ گفتگو کا آپشن کھلا رکھیں ۔ نئے امکانات کی تلاش کوئی بری بات بھی نہیں اور شاید ہم ان سے قریب ہو کر اپنی حقیقی صورت حال سے انہیں واقف بھی  کرا پائیں ۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہم اپنی بنیادوں کو کھودیں یا چاپلوسی کے رویے کے تحت ان سے تعلقات استوار کریں ۔ نہیں ، مطلب یہ ہے کہ کھلے دریچوں کے ساتھ ان سے گفتگوکریں اور ہندوستانی حکومت کے کرتا دھرتاہونے کے ناطے ان سے ہندوستان کی دوسری بڑی اکثریت کی  پوری معنویت کےساتھ  معاملہ کریں یہ ہماراحق بھی ہے کہ اور ہماری ضرورت بھی ۔
        یاد رہے کہ برے دنوں میں استقلال و ثبات قدمی کا ثبوت ہی سمجھدار قیادت کی علامت ہے ۔ ہمارے اوپر اس سے بھی خراب دن آئے ہیں اور ہم نے جم کر مقابلہ بھی کیا ہے ۔ مسلمان اللہ کی مدد اور اللہ کی قوت قاہرہ پر ایمان لانے والا ہوتا ہے مایوسی اس امت کا شعار نہیں ہو سکتی ۔ خوف کی بجائے شعور اور سنجیدگی اور حکمت   عملی طے کرنے کی ضرورت ہے ۔ پچھلے کچھ سالوں میں قومی  سطح پر تعلیم ، روزگار اور صحت کے ساتھ دین کی طرف مثبت رجحان اگر آیا تو ہے تو اسے مزید تقویت پہنچانے کی کوشش کرنا اور اس رجحان کو پٹری پر باقی رکھے رہنا قیادت کی بڑی ذمہ داری ہے ۔ دعاہے کہ اللہ ہمیں بہتر حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنے کی صلاحیت سے نوازے ۔ آمین ۔
         





ليست هناك تعليقات: