الأحد، مايو 11، 2014

عدل ، اسلام اور ہم

ثناءاللہ صادق تیمی 
جواہر لال نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی

اسلام میں عدل کی کافی زیادہ اہمیت ہے ۔ اسلام کی بنیاد توحید پر ہے ۔ قرآنی تعلمیات کے مطابق تمام انبیاء کرام دنیا کو اسی توحید کا پیغام دینے آئے تھے ۔  توحید کی ضد شرک ہے اور قرآن حکیم کے اندر شرک کو ظلم عظیم یعنی بڑا ظلم کہا گیا ہے ۔ ان الشرک لظلم عظیم ۔ معلوم ہوا کہ اسلام کی بنیاد عظیم عدل پر قائم ہے ۔ اور اس عدل کا تعلق محدود نہيں ۔ اسلامی تعلیمات کے اعتبارسے عدل انسانی زندگی کے تمام گوشوں کو محیط ہے۔ ظلم کسی چيز کو اس کے اصل اورجائز مقام سے ہٹا کر کہیں اور رکھنے دینے کا نام ہے۔ مطلب یہ کہ عدل کسی چیز کو اس کے صحیح جگہ رکھنے سے عبارت ہے۔ اس تناظر میں عدل کی آفاقیت اور وسعت کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے کائنات کی تخلیق اللہ نے کی ۔ وہی اس کا مالک ہے اور اسی کے حکم و ارداے سے اس پوری کائنات کا نظام چلتا ہے تو پھر ایک وہی ایسا ہے جو اس قابل ہے کہ اس کی عبادت کی جائے ۔ اللہ نے در اصل اسی غرض کے لیے بنی نوع انس و جن کوپیدا بھی کیا ۔ اللہ فرماتا ہے ۔ وماخلقت الجن و الانس الا لیعبدون (الذاریات :56) اس لیے عدل کا تقاضہ یہی ہے کہ عبادت صرف اسی ایک اللہ کی کی جائے ۔ اللہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا اس لیے بھیجا کہ وہ لوگوں کو اس دین کی طرف بلائیں اور اس دین پر عمل کرکے دکھلادیں ۔ اللہ نے ان کا یہ حق بتلایا کہ ان سے محبت کی جائے ، اطاعت کی جائے اور ان کو ان کے اسی مقام پر رکھا جائے جس سے اللہ نے انہیں نوازا ہے ۔ خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث کے اندر فرمایا کہ لاتطرونی کما اطرت النصاری عیسی بن مریم ، انما انا عبد فقولوا عبداللہ و رسولہ (متفق علیہ ) مجھے اس طرح مت بڑھاؤ جس طرح نصاری نے عیسی علیہ السلام کو بڑھادیا میں تو اللہ کا بندہ ہوں تو مجھے اللہ کا بندہ اور رسول کہا کرو ۔ حدیث پرغور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں غلو کرنے سے منع کیا وہیں اپنی اصل حقیقت سے آگاہ بھی کیا ۔ آپ کی زندگی بھی بتلاتی ہے کہ آپ نے افراط وتفریط ہردو صورت کو غلط قراردیا اور دین کی بنیاد عدل پر رکھی ۔ اسلام میں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کو عدل کے اس علامت کے طور پر بھی دیکھا جانا چاہیے لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہم مسلمان اس بنیادی عدل سے بھی ناواقف ہیں اور اللہ رسول کے معاملے میں طرح طرح کے ظلم روا رکھے ہوئے ہیں ۔ رسول کو اللہ  بنالینا بھی خلاف عدل ہے اور اللہ کا ساجھی و شریک بنا لینا بھی ظلم ہے ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے مقام نبوت سے اس طور پر نیچے لانے کی کوشش کرنا کہ ان کی بجائے کسی اور کو ان کا درجہ دے دیا جائے یہ بھی خلاف عدل ہے ۔ اسے ہماری بے حسی کہیں یا جو کہیں لیکن ہمارے یہاں یہ ظلم بہت رائج ہے ۔ اللہ بھلا کرے ۔ عدل کا یہ نظام انسان کے اپنے معاملے میں بھی لاگو ہے ۔ اسلامی تعلیم کا ایک پہلو یہ ہے کہ انسان تزکیہ  کی خاطربھی  کوئي ایسا اقدام نہ کرے جس سے تعذیب نفس لازم آئے ۔ اسی لیے اسلام میں رہبانیت حرام اور ترک دنیا کو غلط کہا گیا ہے ۔ حضرت ابودرداء کے قصے میں یہ بات آئی ہے کہ انسان کے نفس کا اس پر حق ہے ، اس کے اہل و عیال کا اس پر حق ہے اور اس کے رب کا اس پر حق ہے تو اسے سب کا حق ادا کرنا چاہیے ۔ (البخاری )
       عام طور سے لوگ اسلام میں عدل کے تصور کو سماجی اور معاشرتی زندگی سے جوڑ کر دیکھتے ہیں ۔ لیکن در اصل یہ عدل کے اسلامی تصور کا ناقص فہم ہے ۔ اسلام میں سماجی عدل کا تصور تو اتنا مضبوط ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مخزومیہ عورت کے چوری کیے جانے پر سفارش کی گئی تو آپ نے کہا کہ اگرفاطمہ بنت محمد نے بھی چوری کیا ہوتا تو ان کا ہاتھ بھی کاٹا جاتا ۔ ( البخاری ) ۔ ایک موقع سے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوج کی صف درست کررہے تھے اور ایک صحابی نے نیزے سے چوٹ لگنے اور ایذا پہنچانے کی شکایت کرکے عدل کا تقاضہ کیا تو آپ نے بلا تامل اپنے پیٹ سے کپڑے الگ کردیے ۔ حضرت عمر نے بھری سبھا میں عمروبن العاص گورنر مصر کے بیٹے کو ایک حبشی غلام سے انصاف دلاتے ہوئے پٹوایا ۔ لیکن اسلام کا تصور عدل سماجی زندگی کے ساتھ ساتھ پوری انسانی زندگی کو شامل ہے ۔ عدل و انصاف کے اس معاملے میں اسلام قوم و ملت کی کوئی تفریق نہیں کرتا ۔ وہ ہر معاملے میں عدل سکھلاتا ہے کہ اسلام دین حق ہے اور عدل سچ کا ہی دوسرا نام ہے ۔ اسلام کی بنیاد افسانوں پر نہيں ۔ اس لیے اسلام کبھی بھی ان چیزوں پر فخر نہيں سکھلا سکتا جو اصل نہ ہو ۔ اللہ نے تو اس امت کو اسی حق کی گواہی کے لیے بھیجا ہے ۔ لتکونوا شھداء علی الناس ۔ حضرت ربعی بن عامر نے کسری کے سامنے اسی حقیقت کا بر ملا اظہار کرتے ہوئے کہا" ان اللہ ابتعثنا لنخرج الناس من عبادۃ الناس الی عبادۃ اللہ ومن ضیق الدنیا الی سعتھا ومن جور الادیان الی عدل الاسلام " ہمیں اللہ نے بھیجا ہے کہ ہم لوگوں کو لوگوں کی عبادت سے نکال کر اللہ کی عبادت میں لگادیں ۔ دنیا کی تنگی سے نجات دلا کر اس کی وسعتوں سے ہمکنار کردیں اور ادیان باطلہ کے مظالم سے رہائي دے کر  اسلام کے شاہراہ عدل سے آشنا کردیں ۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ صحابہ کرام اوراسلاف کے مقابلے میں ہم مسلمانوں کے اندر عدل کا جذبہ سرد پڑتا چلاگیا ہے ۔ انفرادی زندگي سے لے کر اجتماعی زندگي  تک  میں ہم نے عدل کو بھلا دیا ہے ۔ ہمارے اندر اس عدل کے ختم ہونے کی وجہ سے قومی سطح پر دو بڑی خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں ۔ ہمارے اندر اعتراف حقیقت نہيں اور اس کے نتیجے کے طور پر اگر دیکھیے تو ہمارے اندر جذبہ شکربھی نہیں ہے ۔ ہم مسلمانوں نے شکوے شکایت اور الزام تراشی کی نفسیات کو اپنا لیا ہے جس کی وجہ سے ہمارے اندر غصہ ، چرچراپن اور ملال کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ ہم خود کو مظلوم اور پوری دنیا کو ظالم کی نظر سے دیکھنے لگے ہيں ۔ اسلام نے تو یہ سکھلایا تھا کہ عدل کا تقاضہ یہ ہے کہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرو اور اپنے حقوق اللہ کے سپرد کردو ۔ لیکن ہم نے بالکل الٹا رویہ اپنایا ہوا ہے ۔ ہم غلط طور پر فخر کی نفسیات میں جیتے ہیں اور افسانوں پر عمارتیں کھڑی کرتے ہیں جس سے سوائے نقصان کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔ کچھ مثالوں سے اسے سمجھا جا سکتا ہے ۔ یہ بات سچ ہے کہ جنگ آزادی ہند میں مسلمانوں کا زبردست کردار رہا ہے ۔ 1857 سے پہلے پہلے جنگ آزادی کی تمام کوششیں لگ بھگ مسلمانوں نے اپنے دم پر کیں ۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ 1857 کے بعد بالعموم مسلمانوں کا رویہ سرسید کی مفاہمانہ روش کےزیر اثر رہا ۔ ہاں 1900 کے بعد جب مولانا آزاد جیسے لوگ سیاست میں آئے تو پھر مسلمانوں نے جی جان کی بازی لگا کر برادران وطن کے ساتھ دیش کو آزاد کرانے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا ۔ اور اس طرح اس مشترکہ کوشش سے یہ دیش آزاد ہوا ۔  ہم میں سے بہت سے مسلمان جوش میں آکر پوری جنگ آزادی کو صرف مسلمانوں کا کارنامہ بتلاتے ہیں ۔ اس سے دو بڑا نقصان ہوتا ہے ۔ پہلا تو یہ کہ ہم عدل کا دامن چھوڑ دیتے ہيں جو اسلام کی بنیاد ہے اور دوسرے یہ کہ انصاف پسند برادران وطن کو بھی یہ لگنے لگتا ہے کہ مسلمان جوشیلے اور غیر سنجیدہ ہیں اور اس طرح فرقہ پرستوں کو من مانی کرنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ اس کی ایک اور مثال کے طور پر ہم سائنس کو لے سکتے ہیں ۔ ہمارا دعوی ہوتا ہے کہ اسلام نے ہی سائنس کے پروان چڑھنے کے اسباب مہیا کیے ۔ پوری کائنات کو انسانوں کے لیے مسخر بتلایا اور اس طرح یہ دنیا یہ سوچنے کو تیار ہوئی کہ دنیا کو زیر نگیں کیا جاسکتا ہے ۔ ہمارا دعوی یہ بھی ہوتا ہے کہ دنیا کو میڈیکل سائنس اوردوسرے سائنسی علوم کا تحفہ ہم نے ہی دیا ۔ یہ بات بالکل سچ ہے لیکن ایک سچ یہ بھی ہے کہ ہم نے ان علوم کو یونانیوں اور رومیوں سے بھی لیا اور اپنی محنتوں اور کاوشوں سے انہيں آگے بڑھایا ، ان میں اختراعات کیے اور اپنی حصہ داری نبھائی پھر جب ہم سوگئے اور یورپ جگا تو اس نے ہماری کوششوں سے استفادہ کرتے ہوئے اس قافلے کواور بھی آگے بڑھایا اور وہ لگاتا ر ایسا کربھی رہا ہے ۔ جہاں ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم نے کیا کیا وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ جو دنیا نے کیا ہم اس کا اعتراف بھی کریں اور انہيں اس کا کریڈٹ بھی دیں ۔ اسلام کی تعلیم یہی ہے ۔ ولا یجرمنکم شنآن قوم علی الا تعدلوا اعدلوا ھواقرب للتقوی ( المائدۃ : 8 ) کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر نہ ابھار دے کہ عدل نہ کرو ، عدل کرو یہی تقوی کے قریب ہے ۔ ہم اگر اعتراف نہيں کر سکتے تو شکر نہیں کر پائینگے اور اگر انسانوں کا شکرنہ ادا کیا جاسکے تو اللہ کا بھی شکر ادا کرپانا ممکن نہیں ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لا یشکر اللہ من لا یشکر الناس ( صحیح الجامع ) ۔ یہاں الناس سے مراد ظاہر ہے کہ صرف مسلمان نہیں ہو سکتے ۔ ہم عام طور سے تنقید کرتے ہوئے اس عدل سے کام نہيں لیتے ۔ غلط پر نقد نہ کرنا غلط ہے لیکن صحیح پر نہ سراہنا بھی غلط ہے ۔ ہمارے یہاں جہاں غلط کو الحمد للہ بالعموم غلط کہنے کی تہذیب پائی جاتی ہے وہيں صحیح کو صحیح کہنے کا رجحان کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ہمارے غیر منصفانہ رویے نے صورت حال ایسی بنادی ہوئي ہے کہ اگر صحیح کو صحیح کہا جائے تو بالعموم یہ ڈر رہتا ہے کہ کہيں چاپلوسی کا الزام نہ لگ جائے ۔ ہم جب دنیا کو یہ بتلا تے ہوئے فخرمحسوس کرتے ہیں کہ اسلام میں عدل ہے مساوات یا ظلم نہیں تو کیا یہ ذمہ داری ہماری نہیں بنتی کہ ہم اپنی سطح پر بھی اس عدل کو اپنی زندگیوں میں اتارلیں ۔ اللہ ہمیں عدل کو اس کے آفاقی تناظرمیں سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے ۔

ليست هناك تعليقات: