الاثنين، مايو 05، 2014

اسلام میں آفاقیت کے مباحث

ثناء اللہ صادق تیمی
جواہر لال نہرو یونیورسٹینئي دہلی
 9560878759
   
 اسلام میں آفاقیت کے مباحث کی  جب بات آتی ہے تو بالعموم اسے بین الاقوامی تعلقات کے تناظرمیں دیکھا جاتا ہے اور اکثر یہ ہوتا ہے کہ غلط طریقے سے چیزوں کو پیش کرنے کی کوشش کردی جاتی ہے ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اسلام اللہ کا بھیجا ہوا آخری دین ہے اور یہی واحد راستہ ہے جس کے اندر نجات ہے۔ اسلام کے علاوہ اور کوئي بھی دین انسان کی روحانی اور جسمانی سرور کا ذریعہ نہيں ہو سکتا ۔ سعادت کا واحد ذریعہ اسلام ہے  ۔ ان الدین عند اللہ الاسلام (آل عمران : 19 ) اور  ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الآخرۃ من الخاسرین ( آل عمران : 85 ) ۔ آفاقیت کی بات چھڑتی ہے تو زیادہ تر اقوام متحدہ کےحقوق انسانی  کے منشور اور حجۃ الوداع کی تقریر کا حوالہ دے کر موازنہ بھی کیا جاتا ہے اور اسلام کی برتری ثابت کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے ۔ یہ کوشش ٹھیک ہی ہے لیکن میری رائے میں یہ کوشش ناقص اور ادھوری ہے ۔ اسلام کی آفاقیت کا تعلق صرف بین الاقوامی تعلقات کی استواری پر منحصر نہيں بلکہ پورے اسلام کے اندر آفاقیت پائي جاتی ہے ۔
       اسلام کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ایک اللہ نے اس کائنات کو بنایا ہے اور وہی اس کائنات کا مالک ہے ۔اسی نےانسانوں کو پیدا کیا ہے اور وہی ان کی روزی روٹی کا مالک ہے ۔ اسی نے ان کی ہدایت و کامرانی کی خاطرانبیاء کرام کا سلسلہ رکھا ۔ اور اسی نے ان کے لیے دستور حیات بھی طے کیا جوانفرادی اور اجتماعی  ہر دو سطح پر انسان کی کامیابی کا ضامن ہے ۔ اسلام میں آفاقیت کے مباحث پر نظر رکھتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھنےکی ضرورت ہے کہ اسلام نےایک انسان کی سعادت و کامرانی کے جو ذرائع رکھے ہيں وہی ایک سماج اور ایک ملک کی کامرانی کے بھی ذرائع ہیں ۔ اس اجمال کی تفصیل یوں ہے کہ اسلام نے کامیابی کادارومدار ایمان اور عمل صالح پر رکھا ہے ۔ ایک اللہ پر ایمان اور صرف اور صرف اسی کی عبادت ۔ زندگی کےہرمعاملے میں سچ کی پابندی ،انصاف کو لازم پکڑنا ، بد عہدی،جھوٹ ، دھوکہ،دغا اوران جیسےدوسرے مذموم صفات سے اجتناب کو اسلام ایک فرد  کےتزکیےکےلیےضروری قراردیتاہے۔ تزکیہ کےیہ ذرائع اسلامی عقیدے کے زیراثراوربھی کارگرہوجاتےہیں ۔ در اصل یہ سوتے  اس عقیدے سے ہی پھوٹتے ہیں  جو انسان کوایک ایسے اللہ پر ایمان لانے کو کہتا ہے جو قادر مطلق ہے ، پوری دنیاکامالک ہے ،خالق کائنات ہے ، جو دلوں کے وسوسوں سے بھی واقف ہے اور جو قیامت کے دن ہر ایک فرد کو اس کے اعمال کے حساب سے بدلہ دے گا ۔ تعمیرفرد کا یہی وہ پیمانہ ہے جسے اسلام تعمیر انسانیت کا ذریعہ سمجھتا ہے ۔
 اسلام کی نظر میں جھوٹ، بد عہدی ،دھوکہ منافقت کی بڑی پہچان ہے ۔ آیۃالمنافق ثلاث اذا حدث کذب ،واذا وعد اخلف ، واذا اوتمن خان ۔ ظلم حرام ہے ۔ اللہ حدیث قدسی میں فرماتا ہے ۔ یا عبادی انی حرمت الظلم علی نفسی فلا تظالموا علی انفسکم۔ دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف کا رویہ اپنایا جائے کہ ناانصافی اسلام کے منافی ہے ۔  ولا یجرمنکم شنآن قوم علی الا تعدلوا اعدلو ھو اقرب للتقوی ۔ سچ ہی جیت ہے ۔ والعاقبۃ للمتقین ۔ اوریآیھاالذین آمنواکونوا مع الصادقین ۔ حرام کھانے سے نیک اعمال قبول نہیں ہوتے ۔ من اکل لقمۃ من حرام لن تقبل لہ صلاتہ اربعین یوما ۔ یعنی ایک فرد مسلمان تب بنتا ہے جب اس کےاندر یہ اعلا صفات گھرکرجائیں ۔ان صفا ت کے ساتھ ساتھ اسلام انسان کے اندر خدمت ،بہتر سلوک ،مثبت فکر ،جذبہ الفت ،اخوت ،ہمدردی،صلہ رحمی اور نفع رسانی کے داعیے کو پروان چڑھاتا ہے ۔اسلام کے مطابق اچھامسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ ہوں ، سب سے اچھا مسلمان وہ ہے جو لوگوں کاسب سے زیادہ فائدہ کرتاہو ،وہ مسلمان نہيں جو اپنے لیے  کچھ اور پسند کرے اور اپنے بھائي کےلیےکچھ اور ،اللہ اس وقت تک ایک بندے کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائي کی مدد کرنے میں لگا رہتا ہے ۔ ایک مسلمان وہ ہے جو راستے سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹا دیتا ہے ۔ مسلمان الفت و محبت کے ساتھ رہتا ہے اور قربانی و ایثار کا پیکر ہوتا ہے ۔ خود بھوکا رہ کر دوسروں کے پیٹ بھرتا ہے ۔ ایمان اور انسانیت نوازی کے انہیں اصولوں پر اسلام فرد اور سماج کی تعمیرکرتا ہے ۔ ایسےافراد سے آئيڈیل سماج بنتا ہے اور ظاہر ہے کہ مثالی سماج سے ہی مثالی دنیا کی تعمیر عمل میں آسکتی ہے ۔ اسلام میں کالے گورے ، عربی عجمی ، مالدار غریب اوردوسری درجہ بندیاں کام نہیں کرتیں ۔ اسلام کے نزدیک معیار فلاح تقوی ہے ۔ اسلام کے اندر آفاقیت  کے مباحث کو  یہاں سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کا روحانی نظام ہو یا اجتماعی نظام ہر جگہ آفاقیت پائی جاتی ہے ۔ یعنی ایک اللہ کی عبادت اور اللہ کے بندوں کے ساتھ بہتر سلوک اور ان کے ساتھ ایسی ہمدردی جو صرف دنیا ہی تک محدود نہ ہو ۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک غیر مسلم حکومت انصاف کے ساتھ زندہ رہ سکتی ہے اور ایک مسلم حکومت ناانصافی کےساتھ زندہ نہیں رہ سکتی ۔
   بہت سارے لوگ آفاقیت کامطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ہر دین کو صحیح سمجھتا ہے اور یہ کہ وہ صلح کل کا قائل ہے ۔ در اصل یہ اسلام کو نہ سمجھنے کی غلطی ہے ۔ اسلام اپنی خاص بنیادوں پر قائم اللہ کا بھیجاہوا دین ہے اور اس معاملے میں وہ کسی قسم کی رواداری کا قائل نہيں ۔ اس کا دعوی ہے کہ بس وہی حق ہے اور ماسوا باطل ۔ البتہ اس معاملے میں وہ زبردستی کا قائل نہيں ۔ لااکراہ فی الدین اور لکم دینکم ولی  دین کے ذریعہ در اصل یہی بتایا گیا ہے کہ اسلام دعوت دیتا ہے ۔ آپ مانیں تو ٹھیک ورنہ اسلام آپ کے ساتھ زبردستی نہ کرے گا بلکہ وہ آپ کو اجازت دیتا ہے کہ آپ جس کو مانتے ہیں اس کو مانیے البتہ ہم جس کو صحیح سمجھتے ہیں صحیح سمجھتے رہینگے۔ اسلام پر امن گفتگو اور محبت و حکمت کے ماحول میں دعوت کا قائل ہے ۔ اسی لیے جہاں وہ زبرستی کو غلط قراردیتا ہے وہیں وہ مسلمانوں کی ذمہ داری بتلاتا ہے کہ مسلمان اللہ کے دین کے نشرواشاعت اور دعوت کو عام کرنے کی کوشش کریں حکمت ،دانائی اور محبت کے راستے ۔ اسی لیے اسلام میں کسی دوسرے دین کے ماننے والوں یا ان کے مذہبی رہنماؤں کو برا بھلاکہنا غلط ہے ۔ لا تسبوا اللذین یدعون من دون اللہ فسبوا اللہ عدوا بغیر علم ۔ اسلام میں ان معنوں میں آفاقیت بالکل بھی  نہیں کہ سب کو درست سمجھ لیا جائے ۔ صلح کل کا یہ نظریہ اسلام کی بنیاد پر نشتر زنی کرنے جیسا ہے ۔ اسلام جب بین الاقوامی اتحاد کی بات کرتا ہے تو بھی  یہی نعرہ دیتا ہے کہ ایک اللہ کی عبادت ، شرک سے اجتناب اور انسانوں کی تشریع سازیوں کی مخالفت پر اتحاد کی بنیاد رکھی جائے ۔قل یا اھل الکتاب تعالواالی کلمۃ سواء بیننا و بینکم الا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ فان تولوا فقولوا اشھدوا بانا مسلمون ۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اسلام مثبت ، تعمیری اور کارگر چیزوں کو قبول کرنے کے معاملے میں کسی قسم کی بخیلی سے کام نہیں لیتا ۔ اسلام ان معنوں میں بہت کشادہ واقع ہوا ہے ۔ اس کی بنیاد یہ بھی ہے کہ انسان سب کے سب آدم کی اولاد ہیں ۔ ہوا ، پانی کا نظام سب کے لیے یکساں ہے ۔ سب اللہ کے بندے ہيں ۔ اس لیے ظلم غلط ہے لیکن حق کی اشاعت بھی ضروری ہے اور اہل حق اور اہل باطل کے درمیان تمیز بھی اتنی ہی اہم ہے ۔ دین مبین کے اندر آفاقیت کے مباحث کو اگر سائنسی مباحث کے تناظر میں دیکھا جائے تو بھی کوئی برائی نہیں لیکن یہ سچ ہے کہ اسلام کی بنیاد بہر حال ایمان ہے ۔ اسلام تکریم انسانیت کا قائل ہے اور اس کے جڑ میں ہمدردی ، محبت اور صلہ رحمی پائی جاتی ہے لیکن وہ اپنے اصولوں میں غیر ضروری رواداری یا انفعالیت کاقائل نہیں ۔ اسلام اللہ کا آخری دین ہے ۔  محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری اورفائنل رسول ہیں اور ان کی بعثت پوری دنیا کے لیے ہوئي ہے ۔  آفاقیت پر بحث کرتے ہوئے اس سچائی کو ذہن میں رکھنا  بھی ضروری ہے ۔

ليست هناك تعليقات: