السبت، مايو 10، 2014

انسانیت نوازی‘خدابیزاری‘ دین داری

سیف الرحمان حفظ الرحمان تیمی
جامعہ اسلامیہ‘مدینہ منورہ

اسے ہمارے عہد کا المیہ کہئے کہ ہر لفظ اپنا معنی کھو چکا ہے ‘ اصطلاحات الٹ دئے گئے ہیں ‘ صحیح غلط کا معیار بدل گیا ہے‘ دین سے راہ فراری اور مذہب سے گلوخلاصی کے نئے نئے طریقے ڈھونڈ لئے گئے ہیں ‘ الحاد نظریہ کی شکل اختیار کرچکا ہے‘ لادینیت ایک مستقل مذہب کا روپ دھار چکی ہے‘ خدا بیزاری کو جدت پسندی اور روشن خیا لی کے سنہرے نام دئے جارہے ہیں ‘ انسانیت نوازی کے نام پر اور  خوش اخلاقی کے درپردہ دین متین کا انکار کیا جارہا ہے‘ مزہ کی بات تو یہ ہے کہ اسی کو تہذیب وتمدن اوربلند فکری سے موسوم کیا جاتا ہے‘ کسی یتیم کے گال کو تھپتپا کر‘بیوہ کی دادرسی کر‘ مسکین ودرماندہ کی فریادرسی کر‘ڈبڈباتی آنکھوں سے آنسو پوچھ کر‘ اور روٹھے لبوں پر مسکان چھیڑکرخدا کو پانے کاخواب سجایا جارہا ہے یا کہئے کہ دین بے زاری کے نئے اور دلفریب راستے وا ہورہے ہیں‘ مسجد ومحراب کے بجائے کسی غریب خانہ کے بجھے ہوئے چھولے میں خدا کو تلاشنے کا فلسفہ پیش کیا جارہا ہے‘ بلکہ معبودیت کو انسانیت کی ضد تسلیم کر لئے جانے پر ایک خاص حلقہ میں اتفاق سا ہو گیا ہے:
بچہ بولا دیکھ کے مسجد عالی شان 
اللہ تیرے ایک کو اتنا بڑا مکان 

اور یہ کہ:
کسی گہر کے کسی بجھتے ہوئے چھولے میں ڈھونڈ اس کو
جو چوٹی اور داڑھی تک رہے وہ دین داری کیا
اور یہ کہ :
مسجدیں ہیں نمازیوں کے لئے
اپنے گھر میں کہیں خدا رکھنا
یہ اشعار اسی قبیل کے مغربی اور دین بیزارانہ افکار کے معمولی نمونے ہیں_
ایسے نازک حالات میں اس نام نہاد انسانیت نوازی اور اخلاق نمائی کی حقیقت ‘ اور سچی دین داری کا صحیح مظہر سامنے لانا ضروری ہوگیا ہے کہ یہیں سے تکفیر کی راہ ہموار ہوتی اور دین میں تشدد کا راسبہ کھلتا ہے-
لفظ دین بنیادی طور پر اپنے اندر دو معنی کوشامل ہے‘ عام(لغوی) اور خاص(دینی): دین کے عمومی معنی میں خیروبھلائی اور نصح ونصیحت کی تمام قسمیں داخل ہیں‘ جبکہ دین اپنے خصوصی معنی کے اعتبار سے شعائر کی پابندی‘ رب کی طاعت گزاری‘ نوافل کے اہتمام‘ محرمات سے اجتناب‘ اور اسلامی تقدس کے احترام جیسے خالص مذہبی معانی پر دلالت کرتا ہے‘ اور اسکا درجئہ کمال رب سے تعلق کی استواری کے بقدر گھٹتا اور بڑھتا رہتا ہے-
دین کے عمومی اور خصوصی معانی کا یہ باریک سا فرق عام آدمی کی نظروں سے اوجھل پایا گیا ہے‘ بیشتر لوگ اسی تمیز سے بے بہرہ ہونے کے سبب دین کے معاملہ میں التباس کے شکار پائے گئے ہیں‘ کوئی محض ظاہری بود وباش ‘ خارجی طرز معیشت اوروقتی آداب تعامل سے متاثر ہو کر کسی کو دیندار ‘ خدا پرست اور انسانیت نواز ہونےکی سند دیدیتاہے‘ تو کوئی صرف اخلاق واقدار میں کمزوری اور عوامی رکھرکھاؤمیں ڈھیلا پن جیسے معمولی نقائص کی بنیاد پر ہی بے دینی کا فتوی دینے سے گریزاں نہیں‘  جبکہ انصاف کی بات یہ ہےکہ دین ایک الگ شیئ ہے ‘ اور عوامی سلوک وبرتاؤ اور اخلاقی قدروں کا لحاظ الگ..... یہ اور بات ہے کہ دین اپنے مبادئ اور اصول میں حسن تعامل اور خوش اخلاقی کو بہی شامل ہے‘ تاہم کسی انسان کے ظاہری خلق میں کمزرو ہونے سے دین کےتمام معاملات میں اس کے ہیچ ہونے کا حکم لگانا کسی بہی طرح بجا نہیں‘جس طرح کہ کسی شخص کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ دین داری میں اعلی مقام پر فائز ہے ‘ صرف اس بنیاد پر کہ سلوک وبرتاؤ اور خلق وتعامل میں وہ عوام کا ہردلعزیز ہے-
گویا ایک انسان دین داراور اور اطاعت گزار ہونے کے باوجود حسن اخلاق سے تہی داماں ہو سکتا ہے‘ بعینہ کوئی شخص اخلاق وکردار کے اوج ثریا پر ہو کربھی دین کے ادنی حصہ سے محروم پایا جاسکتا ہے‘ اس آخری قسم کے لوگ آج کے "تہذیب یافتہ اور انسانیت نواز"کہے جانے والے معاشرے میں ڈگ ڈگ پر نظر آتے ہیں‘کہ جہاں اخلاق واقدار کا معیار ہی بدل چکا ہے-
دین اور خلق کے باب میں تیسری قسم ایسے لوگوں کی ہے جو دین داری اور حقوق اللہ کی پاسداری  کے دست بدست خوش مزاجی‘ حسن سلوک‘ خندہ جبینی‘ نرم گفتاری اور تواضع وانکساری جیسے حقوق العباد سے متعلق ضروری صفات سے بھی متصف ہوتے ہیں‘ یہی وہ لوگ ہیں جو عباد الہی کے ساتھ بندگان الہی کے تئیں  حسن تعامل کو اتمام دین سمجھتے بلکہ ہر ایک کو دوسرے کا لازمہ گردانتے ہیں اور اس میں تشدد کی درآرائی سے گریزکرتے ہیں-در اصل یہی صحیح اسلام کی سچی تصویر ہے ‘ گرچہ اس کے نمونے خال خال ہی ہمیں نظر آئیں-
ہرچند کہ دین اسلام کی تکمیل حسن خلق کے بنیادی اساس پر ہوتی ہے‘ پھر بھی بظاہر بد خلق اور بدزبان نظرآنے والے انسان سے بہر صورت دین وایمان کی نفی نہیں کی جاسکتی-ہمارے سماج میں ایسے بھی لوگ ہیں جوخود تو شب وروزفسق وفجور میں لت پت رہتے ہیں لیکن عوام کے ساتھ انکا معاملہ ایسا ہوتا ہے کہ بولیں تو باتوں سے پھول جھڑیں‘ انکے گھرآنگن عام آدمی کا دسترخان‘ احسان واکرام میں اتنے اعلا وبالا کہ قطرئہ شبنم مانگو تو ابرباراں سے نوازدیں-اس کے برعکس ایسے دین داربھی  ہمارے بیچ آپ کو مل جائینگے جو اللہ والے‘ تہجد گزار اور شب بیدار تو ضرور ہیں لیکن دنیا انکی پھوٹی کوڑی تک نہیں جانتی-
دین واخلاق کا جورشتہ آپ نے دیکھا بالعموم یہی مفہوم عام انسان کے ذہن میں رچابسا ہوا ہے ‘ جس کا نتیجہ ہے کہ ہر اخلاق مند ‘ شیریں زباں اورخندہ رو انسان کومتدین سمجھ لیا جاتا ہے‘ اور اس کے برعکس ہر اس بندے پر بے دینیت اور لامذہبیت کا فتوی داغ دیا جاتا ہے جو ان اوصاف سے تہی داماں ہو‘جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کا نظریہ صرف اور صرف کج فہمی ‘ نقطئہ نظر کی کوتاہی ‘ جانبداری‘ تعصب پسندی ‘ بدگمانی اور ذاتی پرخاش جیسے موہوم اور مذموم صفات سے عبارت ہے‘ کیوں کہ دین اپنے خاص معنوں میں ان کو لازمی طور پر اس لئے شامل نہیں کہ کمال اور اتمام کے درجہ پر پہنچنے کے بعد ہی فضائل وشمائل کا وہ حصہ نصیب میں آسکتا ہے جس کی توقع ہم ہرکس وناکس سے کر لیتے ہیں اور ہمیں بدلے میں زک پھنچتا ہے-
دور حاضر کی موجودہ صورت حال سے رو شناس انسان اس بات سے بھی بخوبی واقف ہے کہ ہمارے اس عہد میں ایسے نام نہاد دین پسند کس قدرکثرت سے موجود ہیں جو جو بزعم خویش تودین وایمان کے ٹھیکیدار ہیں لیکن عوام کے سامنے انکی حیثیت بھیگی بلی سے زیادہ کچھ بھی نہیں-لوگ انکی وعدہ خلافی‘ افترا پردازی ‘ مکاری و کذب بیانی اور ناجائز طریقے سے مال ومنال ھڑپنے جیسی بیہودہ صفات سے تنگ آچکے ہیں‘ انکی حالت یہ ہوتی ہے کہ اپنے مفاد سے جڑے ہوئے معاملات میں ایسے چپ سادھے بیٹھے ہوتے ہیں گویا منہ میں زبان ہی نہ ہو‘ اور جب بات دوسروں کی ہو اور اپنی ذات پہ آنچ
آنے کا اندیشہ نہ ہوتو پھر انکی پھانکے بازی‘ لمبی چوڑی تقریر‘ تقوی کے سیلان اورزہدوورع کے ہیجان کا پوچہئے ہی مت‘ کان پک پک سے جاتے اور طبیعت جھنجھلا سی جاتی ہے! ایسے ہی لوگ انسانی جذبات سے کھیلتے ‘ دین کی تجارت کرتے ‘ ایمان فروشی کابازار سجاتے‘اور حرص و طمع کی دیوی کو مالا چڑھاتے-
نبی اکرم رسول اعظم کر اسوئہ حسنہ کی روشنی میں ایک کامیاب بندئہ مومن کے اندردین داری کی اعلی معیاری کے دست بدست حسن اخلاق کی اعلی مقامی بھی ہونی چاھئے‘ عفت وحیا‘ امانت وفا‘ عفووصفح‘ اور ہیبت وسکینت ایسے اوصاف حمیدہ ہیں کہ جن سے دین اسلام کے منشا ومزاج کی درست ترجمانی ہوتی ہے اور یہی صفات صحابئہ کرام کو تمام بشریت سے ممتاز کرتی ہیں‘ ہر مسلم کو بحیثیت مسلمان ان سے اپنی زندگی کو سجانے سنوارنے اور انہی کے نقش پا پر اپنے کردار کی تعمیر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے—
دین داری اور وفا شعاری کے ہمراہ اخلاق واقدار کی پاسداری رضائے الہی کا موجب ہے‘ اصلاح نفس کے بعد جو عظیم ترین ذمہ داری ایک بندئہ مسلم پھ عائد ہوتی ہے وہ ہے دین کی ترویج:اس حقیقت  کا تاریخی ثبوت موجود ہے کہ اسلام کی کما حقہ ترویج کے لئے کردار وگفتار میں اسلامی امتیازات سے لیس ہونا ازحد زیادہ ضروری ہے کہ دنیا ہماری بات سے پہلے ہماری ذات کو دیکھتی ہے ‘ اور ذات کی تاثیریت اخلاق وکردار میں نہاں ہے‘ جس قدر اخلاق کے اعلی مقام پہ آپ فائز ہونگے کامیابی آپکی قدموں سے اتنی ہی نزدیک ہوتی جائیگی‘ اور دنیاآپکے گردپا میں آتی چلی جائیگی-تقریر سے ممکن ہے نہ تحریر سے ممکن –وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے -    

هناك تعليقان (2):

Sanaullah Sadique Taimi يقول...

مضمون اچھالکھاگیاہے۔مشاءاللہ،اللہ کرے زور قلم اورزیادہ۔دراصل دین ایک کل ہے جس کےاندراخلاق و ایمان اور معاملات کے سارے گوشے آجاتے ہیں۔ ان کے تمام کے اندر توازن اور بہتر تال میل ہی اچھے دین دار ہونے کی علامت ہے ۔

Sanaullah Sadique Taimi يقول...

مضمون اچھالکھاگیاہے۔مشاءاللہ،اللہ کرے زور قلم اورزیادہ۔دراصل دین ایک کل ہے جس کےاندراخلاق و ایمان اور معاملات کے سارے گوشے آجاتے ہیں۔ ان کے تمام کے اندر توازن اور بہتر تال میل ہی اچھے دین دار ہونے کی علامت ہے ۔