الجمعة، فبراير 28، 2014

اللہ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی

ثناءاللہ صادق تیمی
 جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی 110067

    اس سے  پہلے ایمان کے ارکان کے بارے میں گفتگو ہوئي  تھی اور بتلایا گیا تھا کہ ایمان کے چھ ارکان ہیں ۔ اللہ پر ایمان ، اس کے فرشتوں پر ایمان ، اس کی کتابوں پر ایمان ، اس کے رسولوں پر ایمان ، یوم آخرت پر ایمان اور تقدیر کے خیروشر پر ایمان ۔ یہاں ہم اسلام کے ارکان کی بابت گفتگو کرینگے ۔ اس کا پہلا رکن اللہ کی وحدانیت اور رسول کی رسالت کی گواہی ہے ۔ اس رکن کے دو اجزاء ہیں اور ان دونوں اجزاء کے ٹھیک ٹھیک سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے پر ہی اسلام کی صحیح سمجھ منحصر ہے ۔ اس کے پہلے حصے کا تعلق اللہ کی وحدانیت کے قبول و اعتراف اور اظہار واعلان سے ہے اور دوسرے کا تعلق اللہ کے رسول محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسوہ اور آئیڈیل قبول کرنے اور اسی کے مطابق زندگی گزارنے سے ہے ۔ اور در اصل یہی بنیادی طور پر اسلام بھی ہے ۔
اللہ کی وحدانیت کا مطلب
: کسی بھی ملک ، قوم اور آرگنائزیشن کاکوئی نہ کوئی نشان ہوتا ہے جو اس کی پہچان بھی ہوتا ہے ۔ اسلام کا نشان یہی لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے ۔ بظاہر یہ سادہ سا جملہ ہے لیکن حقیقت کے اعتبارسے یہ اتنا سادہ بھی نہیں ہے ۔ درا صل اس کے اندر پورے دین کی شمولیت ہے ۔ یہ اقرار کرنا کہ معبود صرف اللہ ہے اور کوئی نہیں، ایک بہت بڑی سچائی کو سینے لگا کر اس کے مطابق خود کوڈھالنا ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس سچائی کا اعلان کیا اور مکہ کےلوگوں کو اس حقیقت کی طرف بلایا تو مکہ کے مشرکین نے اس دعوت کا مطلب سمجھا ۔ اس لیے جنہوں نے قبول کیا انہوں نے بھی دل سے قبول کیااور جنہوں نے انکار کیا انہوں نے بھی مطلب سمجھ کر اور یہ جان کر انکارکیاکہ اس دعوت کاپیغام کیا ہے اور اس کے تقاضے کیاہونے والے ہيں ۔ مکہ والوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ کیا تم نے تمام معبودوں کی  جگہ ایک ہی معبود ٹھہرادیا ہے ۔ یہ تو عجیب و غریب بات ہے ۔ ا جعل الالھۃ الھا واحدا ، ان ھذا لشیئ عجاب(ص: 6 ) ۔ اور جن اللہ والوں نے قبول کیا انہوں نے اپنی جان دے دی لیکن کلمہ کے اس تقاضے کو لمحہ بھر کے لیےفراموش نہ کیا ۔ اللہ نے مسلمانوں کو جو کلمہ دیا اور جس کے ذریعہ کوئی بھی انسان دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے ۔ اس کا پہلا حصہ در اصل انکار ہے ۔ انکار اس بات کا کہ کوئی معبود نہيں ہے ۔ کوئی اس قابل نہيں ہے کہ اس کی  عبادت کی جائے ، اسے سجدہ کیا جائے ، اس سے مدد مانگی جائے ، اسے مشکل کشا اور حاجت روا سمجھا جائے اور زندگی کی جملہ ضرورتوں میں اس کی طرف مراجعہ کیا جائے ۔ اور دوسراحصہ بتلاتا ہے کہ مگر ایک ذات ہے ۔ ایک اللہ ہے جو ان تمام صفات کا مالک ہے اور جس سے رجوع کیا جائيگا اور صرف اسی سے کیا جائيگا ۔ صرف اسی کی عبادت کی جائیگی اور کسی کی نہيں۔  اسلام نے انکار و اثبات کی اس ترتیب و ترکیب سے بڑی گہری معنویت پیدا کی ہے اور وہ ہے عقیدے کی وہ پختگی ، صلابت اور مضبوطی جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ اللہ نے شروعات ہی میں اس بات کو اتنا واضح کردیا ہے کہ اس میں کسی قسم کی کوئی ملاوٹ ، کوئي التباس یا پیچیدگی باقی نہ بچے ۔ یہی در اصل اسلام کی بنیاد ہے ۔ اسی دعوت کو لے کر تمام انبیاء کرام دنیا میں آئے تھے اور سبھوں نے اسی پیغام کو پہنچانے کا کام کیا تھا ۔ وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لاالہ الا انا فاعبدون۔(الانبیاء : 25 ) اس معاملے میں اللہ تعالی کافی غیور واقع ہوا ہے ، اس معاملے میں وہ کوئي کوتاہی قبول کرنے کا روادار نہيں ۔ اسی لیے اس نے اس قبیل کے گناہ معاف کرنے سے انکار کیا ۔ ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ و یغفر ما دون ذلک لمن یشاء ومن یشرک باللہ فقد ضل ضلالا بعیدا۔ (النساء : 116 )  اسلام اس حوالے سے کسی قسم کا کوئي کنفیوزن نہيں چھوڑتا ۔ اسی لیے وہ پہلے انکار سے شروع کرتا ہے اور پھر اعتراف تک لاتا ہے ۔ یہ در اصل اعلان براءت بھی ہے اور اعلان حق وصداقت بھی ۔ یہاں نہ تو صرف انکار ہے اور نہ صرف اقرار ۔ اب یہ بالکل بھی نہ چلے گا کہ اسے بھی مان لیا جائے اور کسی اور کو بھی مان لیا جائے اور نہ یہ چلے گا کہ اسے مانا ہی نہ جائے ۔  اس موقف میں وہ کسی قسم کے سمجھوتے کا روادار نہیں ۔ اس بارے میں اس کا موقف ہے کہ لکم دینکم ولی دین ۔ اگر کوئی اس سچائی کوئی نہيں مانتا تو نہ مانے لیکن ہم اس حقیقت پر اٹل ہیں اور اس بارےمیں کوئي سمجھوتہ نہيں کرسکتے ۔ اسی لیے اہل کتاب سے جب اتحاد کی بات کی گئي تو ان سے کہا گیا کہ ایسی بات کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں مشترک ہے اور وہ یہ کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے اور  ہم میں کا بعض بعض کو رب نہ بنائے ۔ اگر مانتے ہيں تو ٹھیک ورنہ اعلان کردیا جائے کہ بھائی ہم یہی مانتے ہیں ۔ قل یا اھل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا و بینکم ان لا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ فان تولوا فقولوا اشھدوابانا مسلمون۔( آل عمران : 64)
        مکہ کے کفار کو پتہ تھا کہ اس کلمہ کا مطلب کیا ہے ۔ تبھی تو انہوں نے اس کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن آج مسلمانوں کو اس کلمے کی حقیقت نہيں معلوم تبھی تو وہ کلمہ کا ورد بھی کرتے رہتے ہیں اور ہر طرح کے مشرکانہ اعمال بھی انجام دیتے ہیں ۔ ہر مصیبت ، پریشانی ، بیماری  اور دقت میں اللہ کے علاوہ نہ معلوم کتنے غیراللہ کی چوکھٹ پر ماتھے ٹیکتے ہيں اور اپنے سر کی عزت کو خاک میں ملاتے ہیں ۔ ٹھیک کہا تھا اقبال نے ۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
   آج کا مسلمان ایک اللہ کو چھوڑنے کی وجہ سے کہاں کہاں ٹھوکر کھا رہا ہے ۔ اور کیا کچھ وہ نہيں گنوا رہا ہے ۔ ایمان و علم کی ساری دولت کھو رہا ہے ۔ کسی اردو شاعر نے آج کے مسلمانوں کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے ۔
مشکل کشا سمجھ کے اٹھا لے گئی مجھے
حاجت روا سمجھ کے اٹھا لے گئی مجھے
میں اک شکستہ سنگ تھا لوح مزار کا
دنیا خدا سمجھ کے اٹھا لے گئی مجھے
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت :
کلمے کا دوسرا حصہ در اصل اس بات کاجواب ہے کہ وہ جو ایک اللہ کو ماننا ہے اور اسی کی عبادت کرنی ہے اور اسی کے مطابق چلنا ہے تو سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہوگاکیسے ؟  اور اس کیسے کاجواب یہ ہے کہ ویسے جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کرکے دکھلایا ۔ یعنی اصول بھی متعین اور شروح بھی متعین ۔ اسی حقیقت کو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے ۔ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ۔(الاحزاب: 21 ) اور اسی کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے "صلوا کما رایتمنونی اصلی " (البخاری) ویسے نماز پڑھو جیسےتم نے  مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ،کے اندر بیان کیا ہے ۔ اور اسی حقیقت کو اور زیادہ وضاحت سے اللہ نے قرآن کریم کی ایک آیت میں بیان کیا ہے کہ اگر مجھ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میرے رسول کی پیروی کرو ۔ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ۔(آل عمران: 31 ) یعنی کام صرف اللہ کے لیے ہو اور طریقہ صرف محمد رسول اللہ کا تبھی جاکر قابل قبول ہے ۔ اسی لیے علماءاسلام کے نزدیک کوئی کام تبھی جاکر اسلامی ہوتا ہے جب وہ خالص اللہ کے لیے کیا جائے اور اللہ کے رسول کے مطابق ہو ۔ اور اسی حقیقت کواس کلمے کے اندر بیان کیا گيا ہے ۔ اسلامی تاریخ اور اللہ کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ صحابہ کرام کو بھی اللہ کے رسول کی اس حیثیت کا بخوبی پتہ تھا اور اس معاملے میں وہ کسی قسم کی کوتا ہی کے شکار نہیں تھے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ جب مہاجرین و انصارکے درمیان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت کے موضوع پر اختلاف ہو گیا ۔ ان میں سے ہر دو فریق اپنے آپ کو زیادہ مستحق سمجھ رہا تھا اور اپنے اپنے دلائل پیش کررہا تھا ۔ اسی درمیان جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سنائی کہ الائمۃ من قریش کہ حکمراں قریشی ہوگا تو تمام صحابہ کرام نے اپنی اپنی دعویداری اس طرح واپس لے لی جیسے انہیں اس سے کوئي مطلب ہی نہ ہو ۔ اور خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معاملے میں کسی قسم کی کوئی چھوٹ نہيں دی ۔ اور اللہ تبارک وتعالی نے اس معاملے کو یہیں پر نہیں چھوڑا بلکہ اس نے یہ بھی ضروری قرار دیا کہ نہ صرف یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی جائے بلکہ پوری محبت ، آمادگی اور شرح صدر کے ساتھ آپ کے ایک ایک عمل اور ایک ایک حکم کو اپنا لیا جائے ۔ اللہ نے فرمایا کہ فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضيت و یسلموا تسلیما۔(النساء: 65 ) ایک مسلمان کے لیے در اصل یہی فلاح و کامرانی کی راہ بھی ہے ۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ آج کا مسلمان جہاں اللہ کے حقوق کے معاملے میں کوتاہ واقع ہوا ہے اور اس نے لا الہ الا اللہ کے تقاضے فراموش کررکھے ہیں وہیں اس نے محمد رسول اللہ کے مطلب کو بھی الجھاکر رکھ دیا ہے ۔  مختلف شخصیتوں کو اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ دے رکھی ہے اور اس طرح ہر چند کہ کلمہ رسول کا پڑھ رہا ہے لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کارویہ انتہائي درجے میں بے وفائی کا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر عقیدے کی سطح پر بھی اور عمل کی سطح پر بھی گمراہیوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ نظر آتاہے ۔ جب تک مسلمان لا الہ الا اللہ محمد رسول کے مطلب کو نہ سمجھےاور اس کے مطابق عمل نہ کرے ،نہ تواس کی دنیا بن سکتی ہے اور نہ آخرت سنور سکتی ہے ۔ اللہ ہمیں بہتر توفیق سے نوازے ۔ آمین 


ليست هناك تعليقات: