الجمعة، فبراير 28، 2014

کوئی بے وقوف نہیں ہے


ثناءاللہ صادق تیمی
جواہرلال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی 110067

    یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم بھی ایک خاص قسم کی نوکری سے جڑے ہوئے تھے ۔ ہم دو تین لوگوں کا گروپ تھا ۔ ایک پر ایک سمجھدار لوگ ، بزعم خویش عقلمند ترین اور دوسروں کی سادگی سے فائدہ اٹھانے والے ۔ ہم تین لوگوں میں ایک صاحب تھوڑے زیادہ ہی عقلمند تھے ۔ نہ معلوم کیسے انہيں کوئی نہ کوئي شکار مل ہی جاتا تھا ۔ ایک صاحب کو تو انہوں نے بطور خاص
اپنا نشانہ بنا رکھا تھا ۔ بات یہ تھی کہ وہ تقریر اچھی کرتے تھے ۔ انہیں اپنی تقریر پسند بھی بہت تھی اور انہیں ایسا لگتا تھا کہ ان کی تقریر کے بعد ان کی تعریف تو ہونی ہی ہے ۔ اس لیے وہ اکثر لوگوں کا فیڈ بیک جاننا چاہتے تھے ۔ اس کا مطلب یہ نہ نکالا جائے کہ وہ تنقید بھی سننے کے روادار تھے ۔ نہيں ایسا بالکل بھی نہیں تھا ۔ اگر ان سے کوئی یہ کہتا کہ آپ کی تقریر میں فلاں کمی تھی تو جھٹ کہ دیتے کہ آپ کیا جانینگے ۔ ہم میں جو صاحب زیادہ عقلمند تھے وہ ان کی اس کمزوری سے واقف تھے اور جب کبھی انہیں معلوم ہوتا کہ آج حضرت کی تقریر ہوئی ہے وہ ان سے مل کر ان کی تعریف کرتے ۔ تعریف کرنے کا انداز یہ ہوتا تھا کہ وہ ان کے بعض اچھے جملے اور استدلالات یاد رکھتے اور ان کی اہمیت اور اس کی بلندی کا احساس دلاتے ۔ اس سے حضرت خوب خوش ہو لیتے تھے اور ہمارے عقلمند صاحب کا ناشتہ ہوجاتا تھا۔ ایک روز انہوں نے اپنی عقلمندی اور بیوقوف بنانےکی اپنی اس صلاحیت کا جب ہمارے سامنے ذکر کرنا شروع کیا تو ہم انہیں نہ صرف یہ کہ دیکھتے رہ گئے بلکہ ہمیں ان پر ایک قسم کا رشک بھی آیا ۔ ہم انہیں حسرتوں بھری نگاہوں سے دیکھ ہی رہے تھے کہ ہمارے دوسرے عقلمند جناب نے کہا: بھائی اصل عقلمندی تو ہمارے حصے میں آئی ہے ۔ جناب کو ناشتے پر ٹرخایا جاتا ہے اور ہمیں تو ناشتے ، چائے کے ہمراہ مٹھائی کی سوغات بھی نصیب ہوتی ہے ۔ اس سے پہلے کہ ہم ان سے حیرت میں ڈالنے والی اس صلاحیت کی گہرائی کی بابت پوچھتے وہ گویا ہوئے کہ بھائی ہم اس راز سے اس لیے پردہ نہيں اٹھا سکتے کہ ہم اس سے دیر تک محظوظ ہونا چاہ رہے ہیں ۔ میں منہ بنائے حیرت کی تصویر بنا انہیں دیکھ رہا تھا کہ بے نام خاں نے کہا: بیٹے تم اتنے بھی تو بے وقوف نہیں کہ کچھ قسمت آزمائی نہ کر سکو ۔ چلو تم اپنے طور پر کوشش کرکے دیکھو کچھ نہ کچھ تو کامیابی مل ہی جائيگی ۔ دوسرے دن میں بھی ایک ارادہ لیے ان کی طرف بڑھا کہ انہوں نے حال چال دریافت کرنے کے بعد کہا : بابو یہ دنیا ہے ۔ لوگ آپ کو بے وقوف ہی سمجھتے ہیں ۔ ہر نیک اور شریف آدمی کو بے وقوف سمجھاجاتا ہے ۔ اب تم میری ہی مثال لے لو کہ لوگ میرے سامنے میری تقریروں کی تعریف کیا کرتے ہیں اور جب میں انہیں ناشتہ چائے پلاکر رخصت کرتا ہوں تو وہ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ انہوں نے مجھے بے وقوف بنا دیا ۔ میں جانتا ہوں کہ وہ ایسا کہتے ہیں اور کہتے رہيںگے لیکن میں یہ سوچتا ہوں کہ میں ان کے بارے میں نہيں وہ میرے بارے میں بات کرتے ہیں اور یہی کیا کم ہے ۔ کل ان کو اور میرے چائے ناشتے کو بھلا دیا جائيگا لیکن میں اور میری تقریر مزید پختہ ہوتی جائیگی ۔ اس زاویے سے سوچو تو وہ مجھے کم اور میں انہیں زیادہ بے وقوف بنا رہا ہوں ۔ مجھے لگا کہ واقعۃ کوئی بے وقوف نہيں ہے ۔
           میرے پاس میرے دوست بے نام خاں آئے اور انہوں نے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یار ان دنوں تمہارے بار ے ميں بڑی الٹی سیدھی باتیں ہورہی  ہیں ۔ تمہيں پتہ ہے ایک یونیورسٹی کی ایک بڑی اسکالر تمہارا نام لے کر تم پر فتنہ پردازی کا الزام لگا رہی تھیں ۔ میرے کئی ایک دوست تمہارے بارے میں پوچھ رہے تھے کہ کہیں تم واقعۃ ایسی ویسی کوئی حرکت تو نہیں کررہے ۔ مجھے اپنے دوست کی بات پر پہلے پہل تو بڑی پریشانی ہوئی لیکن جب میں نے سوچا اور اس پر کسی قسم کا کوئی منفی رد عمل ظاہر نہيں کیا تو وہ بڑے پریشان ہوئے اور کہنے لگے مجھے ڈر ہے کہ کہیں اب تم بھی عقلمند تو نہیں ہو گئے ۔ کچھ تو بولو یار اول فول اور میری محنت وصول ہو ۔ تھوڑی دیر بعد خود ہی گویا ہوئے کہ یارمجھے لگتا ہے کہ اب تم بھی بے وقوف نہیں رہے ۔
         ہمارے ایک دوست تھے ۔ جناب کو عشق کا دورہ پڑتا رہتا تھا اور بڑے معصومانہ سوالات کرتے رہتے تھے ۔ ہم انہيں ایک پر ایک ٹپس دیتے اور اپنی محفلوں میں ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے ۔ ایک روز اسی عمل میں مصروف تھے کہ بے نام خاں نے کہا بیٹے بے وقوف وہ نہیں تم لوگ ہو ۔ ہمیں غصہ آیا اور پوچھا وہ کیسے ؟  اور بے نام خاں کا جواب تھا کہ تمہارا وہ عاشق دوست بتارہا تھا کہ علمی طور پر تو تم اس کا نام لے نہیں سکتے اور نہ وہ بے چارہ اس معاملے میں تم سے سبقت کر سکتا ہے ۔ کم ازکم اسی عشق اور بے وقوفی کی وجہ سے وہ تمہاری گفتگو کا حصہ تو ہو جاتا ہے ۔ مجھے سمجھ میں آیا کہ کوئی بے وقوف نہیں ۔
        وہ ہمارے جاننے والے تھے اور انتہائی غریب اور پریشان حال پریوار سے ان کا تعلق تھا ۔ ہمارے اور ان کے درمیان انسانیت کا رشتہ تھا ۔ ان دنوں مکھیا کا الیشن ہونے والا تھا ۔ کافی گہما گہمی تھی اور ایک پر ایک افواہ کا بازار گرم تھا ۔ ہم اپنے کسی علمی کام میں مصروف تھے کہ بے نام خاں آئے اور میری طرف دیکھ کر مسکرانے لگے ۔ ہم نے ان سے  مسکرانے کی وجہ پوچھی تھی کہ وہ اور بھی مسکرانے لگے ۔ اب مجھے غصہ آنے لگا تھا اور بے نام خاں تاڑ رہے تھے ۔ انہوں نے مجھے اور بھی  پریشان کرتے ہوئے قہقہ لگانا شروع کردیا ۔ میں اپنا قلم لے کر ان کی طرف چلانے ہی والا تھا کہ انہوں نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہا کہ بھائی  اصل میں ایک بڑی زبردست انفارمیشن دینے آیا ہوں ۔ جانتے ہو تمہارے انسان دوست نے مکھیا کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ میں نے یوں ہی ٹالتے ہوئے کہا کہ چلو کچھ اور سناؤ اور بے نام خاں نے سمجھ لیا کہ ہم نے ان کی خبر کو درست نہيں مانا اور انہوں نے کہا دیکھو دوست میں سنجیدہ ہوں ۔ بعد میں یہ مت کہنا کہ ہم نے تمہیں بتایا نہيں ۔ میں نے اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا اور بے نام خاں قسمیہ بیان دینے کو تیار ہوگئے ۔ میں نے مان لیا کہ وہ جھوٹ نہيں بول رہے ۔ لیکن پھربھی میں نے جب کوئی جواب نہيں دیا تووہ پریشان ہوکر چلے گئے ۔ شام کو ہماری ملاقات ہمارے انسان دوست سے ہوئی اور جب ہم نے انہيں کہا کہ یہ کیا بے وقوفی کررہے ہو تو وہ مجھے عجیب و غریب نگاہوں سے دیکھنے لگے ۔ گویا ہوئے تو جیسے ستم ہی نازل ہوگیا ۔ کہنے لگے کم از کم آپ سے اس رد عمل کی توقع نہيں تھی ۔ اکیلے آپ ہی کو تو میں اپنا خیرخواہ اور عقلمند دوست سمجھتا تھا ۔ آج آپ نے وہ بھرم بھی توڑ دیا ۔ میں نے کہا اس کا مطلب ہے کہ مجھے خبر دینے میں دھوکہ دیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بھائی صاحب ہم تو آئے تھے کہ آپ سے حوصلہ افزائی کے چند کلمات سننے کو ملینگے ۔ اور ہم زیادہ تندہی کے ساتھ کام کرسکیںگے۔ میں نے کہا کہ آپ کا خیر خواہ ہوں اور عقلمند بھی تبھی تو آپ سے یہ کہ رہا ہوں کہ آپ یہ کیا حماقت کرنے جارہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آپ  زرا مجھے یہ بتلائیں کہ اس میں برائی کیا ہے ؟  میں نے کہا کہ بھائی آپ کے جیتنے کی ایک فیصد  بھی توقع نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لیکن میں جیتنے کے لیے کب لڑ رہا ہوں ؟  میں نے کہا : مطلب ؟ انہوں نے کہا کہ بھائی  میں نہیں جیتونگا یہ آپ سوچتے ہيں لیکن کیا ضروری ہے کہ میں ہار ہی  جاؤں ، ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو مجھ سے ہمدردی ہو جائے اور میں جیت جاؤں ۔ واضح رہے کہ تاریخ میں ایسا ہو بھی چکا ہے ۔ میں نے کہا کہ آپ کی سادگی پر مجھے ہنسی آرہی ہے ۔ اس پر ہمارے انسان دوست گویا ہوئے : مولانا صاحب ! اگر لڑونگا تو کم از کم لوگوں کی نگاہوں میں رہونگا ۔ میرا ذکر ہوگا ۔ تاریخ کا حصہ بن جاؤنگا ۔ ورنہ مجھ غریب کو جانتا کون ہے اور پہچانتا کون ہے ؟ جب سے میں نے الیکشن لڑنے کی گھوشنا کی ہے کئی سارے لوگ مجھ سے اپروچ کرچکے ہیں ۔ کچھ لوگوں نے تومجھے پیسوں سے مدد کرنے کا بھی  یقین دلایا ہے ۔ آپ مجھے بے وقوف سمجھ رہے ہيں اور اب تو مجھے لگتا ہے کہ اب تک میں آپ کوعقلمند سمجھ کر کچھ عقلمندی نہیں کررہا تھا ۔ یہ کہ کر وہ اٹھ بیٹھے اورمیں انہیں جاتا ہوا بس دیکھتا رہ گیا ۔
           ان دنوں جناب عالی ڈاکٹری کررہے ہیں ۔ ایک وقت تھا جب ہمارے ساتھ اسلامی علوم پڑھ رہے تھے ۔ جناب جھوٹ نہیں بولتے تھے ۔ کچھ بھی بولتے تو ایسا لگتا کہ سچ ہی بول رہے ہیں ۔ ایک عجیب و غریب قسم کی معصومیت ٹپکی پڑتی تھی ۔ ایک روز کلاس میں نہیں تھے ۔ دوسرے دن جب استاذ نے سوال کیا اور پوچھا کہ کل آپ کیوں نہیں تھے تو ان کا جواب تھا کہ شیخ موڈ نہیں تھا ! ہم سب پریشان تھے کہ آج تو ان کا ہوا ستیا ناس لیکن استاذ محترم نے کہا تو یہ کہا کہ چلیے کم از کم کوئي تو ہے جو سچ بولتا ہے اور ہم بس استاذ محترم کے ساتھ ساتھ اس معصوم بے وقوف دوست کو بھی دیکھتے رہ گئے ۔ حد تو تب ہوگئی جب وہ ایک مرتبہ مغرب بعد مین گیٹ سے مدرسے میں داخل ہو رہے تھے اور جب ایک پروقار، بارعب اور پر ہیبت  استاذ نے سوال کیا کہ بھائی اس وقت کہاں سے نمودار ہورہے ہو تو عالی جناب کا جواب تھا کہ شیخ ایک اچھی فلم لگی ہوئی تھی اسے ہی دیکھنے چلا گیا تھا ۔ شیخ نے کہا تو بس یہ کہا کہ آئندہ احتیاط برتیے ۔ فلم دیکھنا کوئی اچھی بات نہیں ۔ اور کوئي باز پرس نہیں ہوئي ۔ ہم نے ایک مرتبہ کہا کہ بھائی تم اتنی سچائی سے سچ کیسے بول دیتے ہو تو اس نے کہا کہ بھائی بچنے کا یہی راستہ سب سے یقینی ہوتا ہے ۔ میں  سوچتا رہ گيا کہ ہم بے وقوف تھے کہ ایک سچ کو چھپانے کے لیے ہزاروں جھوٹ کا سہارا لیتے تھے یا پھر یہ کہ جو سچ بول کر بھی بچ جاتے تھے ۔ ہمارے جھوٹ کا مقصد بھی تو بچنا ہی ہوتا تھا ۔ ہمارے تعجب کی انتہا تو اس وقت ہوگئی جب انہوں نے مدرسے کے اعلا ذمہ دار کے یہ کہنے پر کہ مولانا دو جوتے لگاؤنگا تو چار ہو جاؤگے۔ تہمیں میں نے  پہلے بھی  کہا ہے کہ چھٹی نہیں ملیگی  ۔ جناب نے ان کے قدموں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ لیکن شیخ آپ نے توچپل پہن رکھا ہے ۔ آپ کو کیا معلوم اس بات پر کتنا یقین آئے لیکن اس کے بعد مدرسے کے اعلا ذمہ دار نے مسکراتے ہوئے انہیں چھٹی دے دی تھی ۔ کبھی کبھی دل کہا کرتا ہے کہ اے کاش ہم بھی انہی کی طرح بے وقوف ہوتے !!


ليست هناك تعليقات: