الأحد، فبراير 09، 2014

رد عمل کی نفسیات خطرنا ک ہوتی ہے !!!


ثناءاللہ صادق تیمی
 جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی

       عام طور سے یہ بات مشہور ہے کہ عمل کا رد عمل ہوتا ہے ۔ ایکشن کا ری ایکشن ہوتا ہے اور یہ بات کچھ اتنی غلط بھی نہیں ہے ۔ تاریخ بتلاتی ہے کہ یقینا عمل کا رد عمل ہوا ہے لیکن اس معاملے میں یہ بات عام طور سے نظر انداز کی گئی ہے کہ یہ رد عمل بالعموم بہت اچھی شکل میں سامنے نہیں آتا ۔ اسی لیے اس کے نتائج بھی اچھے نہیں ہوتے ۔ ردعمل کی نفسیات در اصل ایک منفی نفسیات ہے ۔ رد عمل کے تحت سوچنے والوں کے اندر مثبت طرز فکروعمل کی کمی پائی جاتی ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مثبت فکر کا فقدان پایا جاتا ہے ۔ اس نفسیات کا شکار انسان بالعموم معاملے کے صرف ایک پہلو کو دیکھتا ہے اور دوسرے اہم پہلوؤں کو نظر انداز کردیتا ہے ۔ رد عمل کی نفسیات در اصل ایک قسم کے غلط ڈیفینس کے اظہار کے طور پر سامنے آتی ہے یا پھر اپنے فخر و اعتزاز کے بیان کے طور پر اور ان ہر دو صورت میں آدمی بہتر حکمت عملی اور صحیح شعور کی بجائے جذباتیت کا شکار ہوتا ہے اور یہ معلوم بات ہے کہ جذباتیت سے کبھی اچھے نتائج رونما نہیں ہوتے ۔
          تاریخ کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ رد عمل کی یہ نفسیات ہمیشہ غلط ہی رہی ہے ۔ ہر چند کہ وہ دینی،ملی اور قومی غیرت کی شکل میں ہی کبھی کبھی کیوں نہ ظاہر ہو ۔  اس قسم کے ایک رد عمل کی مثال ہمیں حضرت عمر رضي اللہ عنہ کے یہاں نظر آتی ہے جو انہوں نے صلح حدیبیہ کے موقع سے صلح کے کڑے شرائط پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی پر دکھلایا تھا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تیکھے قسم کے سوالات کیے تھے اور جن کا بہت ہی متوازن اور حکمت آمیز جواب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنی اس حرکت پر زندگی بھر ملال رہا اور آپ اللہ سے اپنی مغفرت کی دعا کرتے رہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع سے حضرت عمر کی نہ صرف یہ کہ بات نہيں مانی بلکہ آپ نے مثبت طرز فکرو عمل کی ایک نہایت روشن مثال قائم کردی اور پیار سے پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ اپنے عمل کو خدائی حکم قراردیا اور کسی قسم کے غصے یا رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس کی ایک مثال وہاں بھی نظر آتی ہے کہ جب ایک یہودی نے آپ کو السام علیک کہا تو آپ نے وعلیک کہا ۔ حضرت عائشہ رضي اللہ عنھا آپ کی بیوی تھیں اور آپ سے بلاشبہ بہت محبت کرتی تھیں ۔ یہودی کی یہ بات آپ کوبہت بری لگی اورآپ نے یہودی کو جلی کٹی سناتے ہوئے کہا کہ تم پر موت آجائے اور تم پر اللہ کی لعنت ہو ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کو ایسا کہنے سے منع کیا اور جب حضرت عائشہ نے کہا کہ آپ نے سنا نہیں کہ اس یہودی نے آپ کو کیا کہا تو آپ نے فرمایا اے عائشہ ! اور کیا تم نے سنا نہيں کہ میں نے اسے اس کا جواب بھی دے دیا اور پھر آپ نے حضرت عائشہ کو رفق و نرمی برتنے کی تلقین کی ۔ اسی طرح جب ایک کافر نے آپ کو مذمم کہا تو آپ نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ میں تو محمد ہوں ۔
         انسانی زندگی میں ایسے مواقع بہت آتے ہیں جب انسان کے اندر اس قسم کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہے ۔ در اصل انسان ایک سماجی جانور ہے ۔ اس کے اندرمختلف قسم کی خواہشیں پائی جاتی ہیں ۔ انسان اپنے تمام خواہشات کی تکمیل چاہتا ہے جب کہ اس محدود زندگی میں اس کی لامحدود خواہشات کی تکمیل ہو نہیں پاتی اور وہ ایک قسم کے احساس محرومی میں جینے لگتا ہے اور پھر یہ احساس محرومی اس کے اندر رد عمل کی نفسیات پیدا کردیتا ہے ۔ انسانوں سے گھرے ہونے کے باعث وہ بالعموم اپنی محرومی کا ذمہ دار خود کو سمجھنے کی بجائے دوسروں کو سمجھنے لگتا ہے کبھی کبھار بظاہر ایسا لگتا بھی ہے کہ اس کی پریشانی واقعی کسی اور کی وجہ سے ہی ہے اور پھروہ غلط سلط قسم کے اندازے لگا کر رد عمل کی نفسیات میں گھر جاتا ہے ۔ ایسے انسان کو در اصل ایک قسم کی بیماری لگ جاتی ہے ۔ وہ مریضانہ ذہنیت سے سوچنے لگتا ہے اور زندگی کے اس مختصر سے سفرمیں جس سے تس سے جھگڑنے لگتا ہے ۔
         اسلام سرے سے اس قسم کی نفسیات کو ختم کرنے کی تعلیم دیتا ہے ۔ در اصل وہ تمام ایسے طریقے سکھلاتا ہے جس سے انسان اس قسم کی رد عمل والی نفسیات سے بچ سکے ۔ وہ انسان کو سکھلاتا ہے کہ انسان کے پاس جب کوئي خبر پہنچے تو وہ کسی بھی قسم کے رد عمل سے پہلے اس خبر کے استناد کو تلاش کرے ۔ وہ پہلے یہ دیکھے کہ وہ خبر صحیح بھی ہے یا نہيں اور پھر ٹھہر کر اس کے ما لہ و ماعلیہ پر غور کرنے کے بعد حکمت و دانائی سے کوئی مثبت قدم اٹھائے ۔ اللہ فرماتا ہے ۔ یاایھا الذین آمنوا ان جاء کم فاسق بنبا فتبینوا ان تصیبوا قوما بجھالۃ فتصبحوا علی ما فعلتم نادمین( الحجرات : 6 )
          اسلام بتلاتا ہے کہ انسان کو اگر کسی معاملے میں بظاہر کوئی ناکامی ملے تو گھبرانے کی بجائے وہ اللہ سے امید باندھے اور صبر کا دامن تھام لے ۔ اس سے اس کے اندر بہتر خیالات پیدا ہوںگے اور وہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے پھر سے کوشش کرے گا ۔ حدیث کے اندر اسے مومن کی ایسی خصوصیت سے تعبیر کیا گیا ہے جو اور کسی کے اندر نہیں پائی جاتی ۔ حدیث کے الفاظ ہیں ۔ عجبا لامر المومن ان امرہ کلہ لہ خیرو ما ذلک الا للمومن۔ ان اصابتہ سراء شکر فکان خیرا لہ و ان اصابتہ ضراء صبر فکان خیرا لہ  ۔ اسلام سکھلاتا ہے کہ انسان کو جو کچھ ملتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے ۔ یہ عقیدہ در اصل انسان کے اندر ایک قسم کا اطمینان اور سکون پیدا کرتا ہے ۔ وہ رد عمل یا احساس محرومی تلے نہیں جیتا ۔ وہ اللہ سے لو لگاتا ہے اور ہر ایک ناکامی کے بعد زیادہ اعتماد سے کوشش کرتا ہے اور بالآخر وہ اپنی منزل کو پا ہی لیتا ہے ۔ قرآن کریم کے اندر اللہ نے فرمایا ہے ۔ والعاقبۃ للمتقین ۔ اس موقع سے  مجھے اس سلسلے میں کسی مفکر کی وہ بات یاد آتی ہے کہ آپ کوشش کرتے رہیں اور جب تک آپ کو آپ کا رزلٹ نہیں ملتا اس وقت تک یہ سمجھیں کہ ابھی اس کا آخری مرحلہ نہیں آیا ہے ۔
   رد عمل کے تحت جینے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آدمی مثبت انداز فکروعمل سے محروم ہو جاتا ہے ۔ وہ بات بات میں غصہ کرتا ہے اور لڑنے جھگڑنے کو تیار ہوجاتا ہے اور ہر جگہ اپنا نقصان کرتا ہے ۔  اسی لیے حدیث کے اندر آتا ہے کہ جب ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ انہيں نصیحت کریں تو آپ نے کہا کہ غصہ مت کرو۔ صحابی رسول نے تین مرتبہ آپ سے نصیحت کی درخواست کی اور آپ نے تینوں  مرتبہ یہی نصیحت کی کہ غصہ مت کرو ۔ اسلام اسی لیے کہتا ہے کہ انسان اپنے اندر زیادہ سے زیادہ جذبہ شکر کو پروان چڑھائے اور اپنے سے نیچے کو دیکھے اوپر کو نہیں تاکہ اس کے اندر شکر کے جذبات پیدا ہو سکیں ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ انظروا الی من ھو اسفل منکم ولا تنظروا الی من ھو فوقکم فھو اجدر ان لا تزدروا بنعمۃ اللہ علیکم ۔
       اجتماعی زندگی میں بھی اس نفسیات سے بچنا بہت ضروری ہوتا ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بتلاتی ہے کہ آپ نے حضرت خالد بن ولید کو اس جنگ کے موقع سے سیف اللہ کے خطاب سے نوازا جس کے اندر انہوں نے کمال ہوشیاری سے مسلم فوج کو بچ بچاکر دشمنوں کے نرغے سے نکال لیا تھا ۔ جب کچھ لوگوں نے اس  پر طنز کیا تو آپ نے اس کی تردید کی اور حضرت خالد کی تعریف کی ۔ حکمت عملی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی اس رد عمل کی نفسیات کا شکار ہوئے بغیر حقیقت کی روشنی میں کوئی فیصلہ لیتا ہے ۔ اس کی ایک مثال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے یہاں ملتی ہے کہ انہوں نے اپنے مثبت فکرو عمل کو کام  میں لاتے ہوئے اور صورت حال سے ڈرے بغیر نہایت حکمت و دانائی کا ثبوت پیش کیا اور حضرت اسامہ کے لشکر کو نہ صرف یہ کہ  روانہ کیا بلکہ منعین زکوۃ اور مرتدین کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑی اور کامیاب و کامران ہوئے ۔ اس کی ایک مثال خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی ملتی ہے کہ جب اہل مکہ نے بد عہدی کی اور صلح حدیبیہ کے دفعات کی خلاف ورزی کی تو آپ نے 8 ہجری میں مکہ پر چڑھائی کا منصوبہ بنایا ۔ حضرت سفیان رضی اللہ عنہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔ وہ مکہ کے سردار تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ اب مسلمانوں کی قوت کافی بڑھ چکی ہے اور اکر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چڑھائی کردی تو ان کی فتح طے ہے ۔ اس لیے انہوں نے اپنی پوری کوشش اس بات میں لگادی کہ کسی بھی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کو باقی رکھنے پر رضامند کیا جائے ۔ لیکن یہ معلوم بات ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی کسی بھی صلح سے بالکلیہ انکار کردیا اور حالات کو سامنے رکھتے ہوئے مکہ پر چڑھائی بھی کی اور کامران و کامیاب بھی  ہوئے ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ آپ نے اس سلسلے میں پوری انسانیت نوازی کا مظاہرہ کیا اور بے مثال فراخی اور کشادہ قلبی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے بد ترین جانی دشمنوں کو بھی بخش دیا۔
       آج مسلمانوں کے اندر انفرادی اور اجتماعی  سطح پر رد عمل کی نفسیات پیدا ہوگئی ہے ۔ اسی لیے وہ بجائے اس کے کہ حکمت و دانائی کا راستہ اپنائیں غلط سلط انداز میں رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ اسی لیے وہ مہیا مواقع سے فائدہ اٹھانے کی بجائے الٹی سیدھی مشکلوں کا رونا روتے ہیں اور ہر چھوٹی بڑی بات پر لڑنے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔ اس معاملے میں برصغیر ہندو پاک کے مسلمانوں کا گراف تھوڑا زیادہ ہی اونچا ہے ۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ زندگی کے ہر معاملے میں پچھڑے ہوئے ہیں ۔ ان کے  پاس عذر بہت ہے ۔ شکایتیں بہت ہيں ۔ جا و بے جا شکووں کی بھرمار ہے لیکن ان کے اندر کچھ کرگزرنے کا جذبہ نہیں ۔ کوئي بہتر پلان نہیں ۔ حمکت و دانائی نہيں ۔ موجود مواقع سے فائدہ اٹھانے کا سلیقہ نہيں ۔ یاد رہے کہ رد عمل کی نفیسیات سے الگ ہو کر سوچنے کی دعوت دینے کا یہ مطلب ہرگز نہ نکالا جائے کہ آدمی بزدلی کا راستہ اختیار کرلے ۔ اس کا مطلب اصلا یہ ہے کہ آدمی صورت حال کا صحیح طریقے سے جائزہ لے کر مناسب قدم اٹھائے  ۔ اگر ضرورت اقدام کی ہو تو اقدام کرے اور اگر دفاع کی ہو تودفاع کرے اور اگر خموشی کے تقاضے ہوں تو خموشی کو ترجیح دے ۔ وہ جذباتیت سے بچے اور ہر ممکن کوشش کرے کہ مثبت انداز میں اپنا فریضہ ادا کرتا رہے ۔ اسے ایک حدیث کے اندر اس طرح سمجھا یا گیا ہے کہ اپنی ذمہ داری ادا کرو اور اپنے حقوق اللہ کے ذمے لگادو۔ حدیث کے الفاظ ہیں ۔ ادوا ماعلیکم و اسئلوا اللہ حقکم  ۔  دعا ہے کہ اللہ ہمیں رد عمل کی غلط نفسیات سے محفوظ رکھے ۔ آمین ۔

ليست هناك تعليقات: