الأحد، فبراير 16، 2014

ہندوستانی مسلمان اور پارلیمانی انتخابات


رحمت کلیم امواوی
(جواہر لعل یونیورسیٹی ،نئی دہلی(

ملک عزیز میں عام انتخابات کی تیاری پورے زورو شورکے ساتھ چل رہی ہے ،ساری پارٹیا ں حتی المقدور اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے کی سعی پیہم کر رہی ہیں لیکن ایک مسئلہ جو کہ آزادی کے بعد سے ا ب تک دامن گیر رہا ہے اور اس کا اب تک کوئی حل نہیں نکل پایا ہے کہ آخر مسلمان کس کوووٹ دیں؟اگر بی جے پی کو اپنا ووٹ دیتے ہیں تو پھر گجرات کا دلدوزسانحہ رونما ہوجاتا ہے،اگر کانگریس کے ہاتھوں میں زمام پادشاہی دیتے ہیں تو پھر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری عام ہو جاتی ہے اور بٹلہ ہاوس انکانٹر جیسا جانکاہ حادثہ وقوع پذیر ہوجاتا ہے اور اگر سماجوادی پارٹی کو اپنا مسیحا بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر دھولیہ اور مظفر نگر کے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے ،الغرض ایسی کوئی پارٹی آزادی کے بعد سے اب تک معرکہ وجود میں نہیں آئی جوواقعتا ہندو مسلم ،سکھ عیسائی تصادم سے بالا تر ہوکر صرف ہندوستان کی تعمیر و ترقی کیلئے کام کرے ،بلکہ سبھوں نے اپنی سیاسی دنیا کو رنگا رنگ رکھنے کیلئے فرقہ وارانہ فسادات کرائے اور لاچار و بے بس عوام کی زندگی لیکر اپنی دنیا چمکائے،شاید یہی وجہ کہ اب یہ بات کہی جانے لگی ہے اور بڑے اعتما سے کہی جا رہی ہے کہ سیاست کا فساد سے بڑا گہرا تعلق ہے،یعنی سیاست میں کامیابی اور ناکامی کیلئے فسادات برپا کرنا یا کرانا انتہائی اہم اور کا رآمد ہوتا ہے،اب ایسے میں یہ فیصلہ کرناتقریباً ناممکن ہے کہ فی الوقت ہندوستان میں موجود سیاسی پارٹیوں میں کون سی پارٹی سیکولر ہے اور مسلمانوں کی ہمدرد ہے پھر کھلے عام یہ بھی نہیں کہا جانا چاہیے کہ فلاں پارٹی فرقہ پرست ہے چونکہ یہاں جمہوریت ہے اور جمہوریت میں سب سے بڑی یہاں کی عدلیہ ہوتی ہے،گرچہ کچھ پارٹیاں ایک دوسرے کوفرقہ پرست کہنے اور زبانی دعوی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی لیکن یہ سب اس لیے کیا جاتا ہے تا کہ سیدھے سادھے بھولے بھالے عوام کی نظروں میں مخالفین کو ظالم و جابر اور اپنے آپ کو عوام کا سب سے بڑا مسیحا ثابت کر سکے،لیکن اب عوام پوری طرح سے ہوشیار و بیدار ہو چکی ہے اور بہت حد تک موجودہ سیاسی پارٹیوں کے حقیقت کی تہ تک پہنچ چکی ہے،انہیں ان پارٹیوں کا اصلی چہرہ صاف دکھ گیا ہے اور وہ سمجھنے لگے ہیں کہ کونسی پارٹی ملک اور ملک کے عوام کے حق میں کتنا بہتر ثابت ہو سکتی ہے،جہاں تک مسلمانوں کا مسئلہ ہے کہ انہیں کیا کرنا چاہیے اور آنے والے انتخابات کیلئے کس طرح کی تیاری کرنی چاہیے،تو اس کیلئے بعض لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ بہتری اسی میں ہے کہ ہم ایک علیحدہ سیکولر مسلم پارٹی بنالیں۔یہ ان لوگوں کی ذاتی رائے ہے جنہیں لگتا ہے کہ مسلمان بڑی آسانی کے ساتھ ہندوستان کی گدی پر بیٹھ سکتا ہے،بہر کیف یہاں آزادی رائے کی پوری اجازت ہے اور ہر کسی کو اسکاپروانہ حاصل ہے کہ وہ اپنی رائے اس ملک میں پوری آزادی کے ساتھ پیش کرسکے۔لیکن میںذاتی طورپر ایسے لوگوں کی رائے سے فی الوقت اتفاق نہیں رکھتا اس لیے کہ یہ فیصلہ ابھی خطرے سے خالی نہیں معلوم پڑتا ہے،چونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہندوستان میں ایک ایسی پارٹی ہے جس کو استحکام صرف ان ہندں کی وجہ سے ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان میں صرف ہندو راج ہی ہو اور مسلمان یہاں سے پاکستان چلے جائیں،لیکن یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہندوں کی ایک اچھی خاصی تعداد سیکولر ذہنیت کی حامل ہیں جو ایسا نہیں چاہتے اورجس کی وجہ سے مذہب کی سیاست کرنے والی پارٹی پوری طرح قدم نہیں جما پارہی ہے ایسے میں ہم نے اگر سیکولر مسلم سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان کردیا تو بہت ممکن ہے کہ ہم سے ان جماعتوں کا ساتھ چھوٹ جائے جو سیکولر ہیں اور ہندوستان کی کرسی پر سیکولر رہنما بیٹھانا پسند کرتے ہیں اور جب ایسا ہوگا تو پھر فرقہ پرست طاقتیں پوری طرح ملک پر قابض ہو جائیں گی اور پھر مسلم اقلیت کا کیا حال ہوگا وہ اللہ ہی جانے۔
علاوہ ازیں ایک سوال جو بار بار اٹھایا جاتا رہا ہے کہ اخر مسلمانوں میں سیاسی قیادت کا فقدان کیوں ہوا؟اس سلسلے میں اول تو ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تقسیم ہند و پاک کے بعد مسلمانوں کی وہ اکثریت پاکستان ہجرت کر گئیں جو دولت و ثروت کے بادشاہ تھے اور بیشتر کمزور مسلمان ہندوستان میں رہ گئے،لیکن اس کے باوجود بھی جو لوگ اس وقت مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کر رہے تھے وہ پوری ایمانداری کے ساتھ کر رہے تھے ،تاریخ گواہ ہے کہ مولانا آزاد کے بعد سے اب تک کوئی ایسا مسلم قائد کا ہندوستانی سیاست میں جنم نہیں ہوا جو مسلمانوں کے مسائل کو ایوان بالا میں ببانگ دہل رکھتا ہو اور پوری طرح مسلمانوں کے حقوق کی لڑائی لڑتا رہا ہو یہ واحد آزاد کی ذات تھی جنہوں نے صحیح معانی میں مسلم قیادت کا حق ادا کیا ہے،لیکن ان کے بعد آج تک کوئی ایسا مسلم چہرہ ہندوستانی سیات میں نظر نہیں اآتا جنہوں نے اس طرح کی جواں مردی کا ثبوت دیا ہو،دوسری بات یہ کہ ہم مسلمانوں نے اپنی تاریخ کو بہت حد تک فراموش کردی ہے،ہم نے اپنی پہچان کھودی ہے،اور ہم نے اپنے اسلاف کے طور سیاست کو بھلا دیاہے،ورنہ قیادت و سیادت تو ہم مسلمانوں کی خمیر کا عنصر رہا ہے ،دنیا بھر میں ہماری حکومت کا چرچہ رہا ہے لیکن جب ہم نے اپنی زندگی کا لبادہ بدلہ،مادہ پرستی،مفاد پرستی اور دنیا پرستی کو اپنے گلے لگایا تو یہ نعمت عظمی ہمارے ہاتھ سے یکسر نکلتی چلی گئی اور پھر ہم حاکم سے محکوم بن گئے۔یہاں پر یہ سوال بھی کافی اہم ہے کہ آخر مسلمانوں میں سیاسی لیڈروں کی کمی کا ذمہ دار کون ہے ؟مسلم عوام،مسلم قائدین یا سیکولر جماعتیں؟میرا ماننا یہ ہے کہ اس کے ذمہ دار ہم خود مسلم عوام ہیں ۔چونکہ ہم اپنے ووٹ کی قدرو قیمت کا اندازہ نہیں کرتے۔ہم اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتے ،ہم اس کو چند سکوں کے عوض فروخت کر دیتے ہیں،ہم لالچ میں آکر سونے کو کوئلے کے دام تول دیتے ہیں۔ہم نے دیکھا ہے کہ بعض خطے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں سے بھی مسلم نمائندے کو کامیابی نہیں مل پاتی،ہم نے دیکھا ہے کہ بیشتر مسلمان لوگوں کے بہلاوے میں آجاتے ہیں،ہم نے یہ بھی دیکھا ہے مسلمان لالچ میں آ کر فریب کھا جاتے ہیں۔اگر ہم ایسا نہ کریں اور اپنے ووٹ کی اہمیت کو سمجھ کر ایک ساتھ مناسب نمائندہ چنے تو پھر یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ مسلم لیڈران کی کمی نہ ہوکر آئے دن اضافہ ہی ہوتا جائے گا ۔اگر ضرورت ہے تو صرف اس بات کی کے ہم پورے اتحاد و اتفاق کے ساتھ ووٹ کریں، اس کا بیک وقت دو فائدہ ہو گا ،اول تو یہ کہ آپ کے اتحاد کی ایک بڑے پیمانے پر پہچان بنے گی اور دوئم یہ کہ مسلم نمائندگان کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ آخر ہم کانگریس یا بی جے پی دونوں میں سے کسی ایک کو کھل کر کیوں نہیں سپورٹ کرتے؟کیا دونوں مسلم دشمن پارٹی ہیں؟کیا دونوں کا ایک ہی منشور ہے ؟اور کیا دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں؟جواباً یہ عرض کیا جا سکتا ہے کہ دونوں پارٹی ایک سکے کے دورخ کے جیسے گرچہ نہیں ہیں لیکن دونوں پارٹی” نہلے پے دہلا“کے مانند ہیں ،بی جے پی کھلے عام مسلمانوں کا قتل عام کراتی ہے تو کانگریس آستین میں پل کر اچانک ڈنک مار دیتی ہے یعنی دونوں پارٹیاں مسلمانوں کے حق میں بھلائی کیلئے بہت کم سوچتی ہے ،بی جے پی تو سرے سے مسلمانوں کو کامیاب دیکھنا ہی نہیں چاہتی البتہ کانگریس کچھ حد تک مسلمانوں کے حق میں مثبت اقدام کرتی ہے۔اب بات یہ سمجھنے کی رہ جاتی ہے کہ مسلمان آخر کیسے اپنے ووٹ کو موثر بنا سکتے ہیں؟چونکہ ملک عزیز کے چند ریاستوں میں مسلمانوں کا ووٹ فیصلہ کن ووٹ ہوتا ہے ،لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کا اپنا فیصلہ نہیں ہوپا تا اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہے باہمی انتشار ،اور مادیت کا بخار ۔اول تو یہ کہ ہم کسی بھی مسئلے پر چاہے وہ سیاسی ہو یا مذہبی،معاشی ہو یا تعلیمی جلد متحد نہیں ہوتے اور دوسری بات یہ کہ ہم اپنے ووٹ کی قدر نہیں کرتے ،ہم اس کی طاقت کا اندازہ نہیں کرتے،اور سیاسی کھلونوں سے باآسانی بہل جاتے ہیں جس کی وجہ سے جب نتائج کا اعلان ہوتا ہے تو وہ ہمارافیصلہ نہیں ہوتا اور جو نمائندہ منتخب ہو کے آتا ہے وہ بھی ہمارا نہیں ہوتا چونکہ ہم نے آدمی دیکھ کر کے ووٹ نہیں دیا ہے۔لیکن ہمیں اپنے ووٹ کو موثر بنانا ہی ہوگا چونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ فرقہ پرست طاقتیں دن بہ دن سر اٹھاتے ہی جا رہی ہیں اگر ہم اس کے خلاف اپنے قائد کی قیادت میں نہیں کھرے ہوں گے تو پھر ہم کہیں کے نہیں رہ پائیں ،یہ صرف میری رائے ہی نہیں ہے بلکہ یہ وقت کی پکار ہے جس پر مسلمانوں کا کان دھرنا اور اس کو عملی جاما پہنانا ہی ایک کار آمد راستہ معلوم پڑتا ہے،اس لیے ہمیں اپنے ووٹ کی قدر وقیمت کا اندازہ لگا نا ہوگا ،اتحاد کا دامن تھامنا ہوگا اور مادر وطن کے سیاسی میدان میں ہمیں اپنا قائد و نمائندہ زیادہ سے زیادہ بھیجنا ہوگا،چونکہ فرقہ پرست طاقتیں ہمارے خلاف ہر وقت گھات لگائے بیٹھی ہیں اور موقع ملتے ہی ہماری زندگی میں دخل اندازی شروع کرنے لگیں گی۔اور اگر ہمیںاپنے مضبوط قائد کا ساتھ نہ ملا تو وہ بہت جلد کامیاب ہو جائیں گی۔اس لیے ہمیں اپنے ووٹ کو موثر و کا رآمد بنانے کیلئے اس کی طاقت کو سمجھنا ہوگا۔اب فیصلہ یہ کرنا باقی رہ جاتا ہے کہ آخر آنے والے عام انتخابا ت میں مسلمان کس کو ووٹ دیں؟پہلے تو ہمیں یہ کرنا چاہیے کہ ہم جہاں جہاں سے ہو مسلم نمائندگان کو کامیاب بنانے کی جان توڑسعی کریں اس کے بعد دوسری یہ کہ کانگریس کو مرکز میں لانے کی کامیاب کوشش کریں چونکہ ہم مسلمان جانتے ہیں کہ بی جے پی کی حکومت ابھی ریاستی سطح پر ہے تو اس طرح ہمیں تباہ وبرباد کر رہی کہ کچھ کہا نہیں جاسکتا اور اگر مرکز میں آگئی تو پھر نہ جانے کیا کرےگی جس کا ہم لوگ شاید تصور بھی نہیں کرپائیں البتہ کانگریس پارٹی سے کچھ حد تک امیدلگانے کے جواز کا ثبوت ملتا ہے اس لیے ہمیں فی الوقت اسی بینر تلے اپنے نمائندگان کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کی کوشش کرنی چاہیے ،پھر ایسا ہوگا کہ ایک دن کانگریس پارٹی کی پہچان ہی مسلمان پارٹی سے ہوجائے گی۔اللہ ہم سب مسلمانوں کو ہندوستانیسیاست میں تاریخی انقلاب پیدا کرنے کی توفیق دے:آمین
rahmatkalim91@gmail.com

ليست هناك تعليقات: