الأربعاء، فبراير 19، 2014

مسلم سماج ، تعلیم اور خواتین


ثناءاللہ صادق تیمی
جواہرلال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی 110067
9560878759

عام طور سے کہا جاتا ہے کہ بہتر تعلیم سے بہتر سماج کی تشکیل عمل میں آتی ہے ۔ اور بہتر سماج تبھی بنتا ہے جب خواتین کی بہتر تعلیم ہوتی ہے ۔ پڑھے لکھے لوگ کہتے ہیں کہ ایک مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم اور ایک خاتون کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم ۔ تعلیم کو تحریک اور ترقی و بلندی کا ذریعہ بنا کر پیش کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ ادھر آکر مسلمانوں کے اندر بھی تعلیم پر زور بڑھا ہے اور مسلم لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں بھی لوگوں کے اندر سنجیدگی دیکھی جارہی ہے ۔ ورنہ ایک وقت تھا کہ جب ہمارے بڑے بڑے مفکرین خواتین کی اعلا تعلیم کے حق میں نہيں تھے ۔  اس سلسلے میں ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم محسن اور تعلیم کے بڑے رسیا سرسید احمد خان کا نام لیا جا سکتا ہے ۔ ہر چند کہ ان کے یہاں اس سلسلے میں ایک طرح کی حکمت اور دانائی کا بھی عنصر پایا جاتا تھا کہ جب لڑکے پڑھے لکھے نہ ہونگے اور لڑکیاں تعلیم یافتہ ہونگی تو لڑکے ان کی بے قدری بھی کریں گے اور زندگی میں مسائل بھی جنم لینگے ۔ لیکن عمومی صورت حال یہ تھی کہ جب غالبا مولانا حالی کی بہن کو تعلیم دی جانے لگی تو ان کی دادی کا رو رو کر برا حال تھا ۔ مانا جاتا تھا کہ لڑکیاں پڑھ لکھ کر بہک جائینگی ۔ اسی لیے ہم پاتے ہیں کہ اس بیچ جو ناول وغیرہ اردو میں لکھے گئے ان میں عورتوں کی گھریلو تعلیم کی طرف کافی توجہ دی گئی اور اسے ضرورت بنا کر پیش کیا گیا ۔ اس سلسلےمیں ڈپٹی نذیراحمد اور راشد الخیری کا نام لیا جا سکتا ہے ۔
         بہرحال اس کے بعد ایک وقت آیا جب لڑکیوں کی گھریلو تعلیم عام ہوئی اور ان کے اندر تھوڑی بہت دینی تعلیم اور اخلاقیات پڑھانے کا باضابطہ رواج ہوگیا ۔ اس کے بعد ایک مرحلہ وہ آیا جسے ہم ایک قسم کے انقلاب کے طور پر دیکھ سکتے ہيں ۔ قدم قدم پر تعلیم نسواں کے مراکز کھولے گئے ۔ لڑکیوں کی تعلیم کے نام پر بہت سے "بنات" کی تاسیس عمل میں آئی ۔ اور یکایک ایسا لگا جیسے واقعۃ اصل ضرورت صرف لڑکیوں کی تعلیم ہی ہے ۔ پھر کیا تھا بہت سے لوگوں کی تجارت چل پڑی اور خدمت و تعلیم کے نام پر خوب پیسے کمائے گئے  ۔ ذاتی طور پر میں تعلیم کی ترویج و اشاعت کو تجارتی نقطہ نظر سے بھی  آگے بڑھانے کے خلاف نہيں ہوں۔ اس لیے کہ تجارت بری چیز نہیں ۔ تعلیم ضرورت ہے اور ضرورت کی چیزوں میں ہی تجارت کی جاتی ہے ۔ البتہ تجارت میں ایمانداری ، دیانتداری اور اصول پسندی کی بہرحال اپنی معنویت ہے ۔
         لیکن شکایت اگر ہے تو ہماری اس روش سے ہے جسے آسانی سے تقلیدی روش سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ ایک طرف بنات کی بات چلی اور سب لوگ بنات کھولنے میں لگ گئے اور ساری قوت اسی کی نذر کردی ۔ میں یہاں اس بات پر زورر دونگا کہ بنات کی آج بھی ضرورت باقی ہے لیکن اس کے لیے ہمارے اندر بہتر حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔ ان علاقوں پر نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے جو اب بھی اس نعمت سے محروم ہيں ۔ بس یہ نہیں کہ سب کے سب جہاں تہاں یا بسا اوقات ایک ہی جگہ بغیر سوچے سمجھے بنات کھول رہے ہیں ۔ ضرورت دیکھی جائے اور پھر سرمایوں کا بہتر استعمال کیا جائے ۔ اور اس چکر میں اس بات کو فراموش نہ کیا جائے کہ خواتین سے متعلق ہماری دوسری ضروریات بھی ہیں ۔ اب ذرا تعلیم کو ہی لے لیجیے تو کیا یہ ضروری نہيں کہ ہمارے سماج میں مسلم خواتین ڈاکٹر ہوں ، نرس ہوں اور اعلا تعلیم یافتہ خواتین ہوں جو خواتین سے جڑے مسائل کو زیادہ بہتر طریقے سے حل کرسکیں ۔ مختلف یونیوسٹیز اور دعوہ سینٹرز میں میرے خطاب کے درمیان مجھ سے یہ بات پوچھی گئی کہ جہاں جہاں مخلوط تعلیم کا نظام رائج ہے وہاں اپنی بہن بیٹیوں کو تعلیم کے لیے بھیجنا مناسب ہے یا نہیں ۔ میں نے اس موقع اسے اپنے پڑھے لکھے ، اعلا تعلیم یافتہ اور کامیاب پروفیسنل لائف جینے والے یا اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنے  والے دوستوں سے پوچھا کہ کیا ایسا نہيں ہو سکتا کہ ہم متبادل کی تلاش کریں ۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم ایسے اداروں کی بنیاد ڈالیں جہاں کلچر ہمارا ہو ، تہذیب ہماری ہو ، اصول ہمارے ہوں اور تعلیم آج کی ضرورتوں کے مطابق ہو ۔ کیا ہم اپنی خواتین کے لیے طبی ادارے نہیں کھول سکتے ؟ کیا ہم اپنی خواتین کو نرسنگ اور مڈوائف وغیرہ کی ٹریننگ نہیں دے سکتے ۔ کیا ہم ایسا انتظام نہیں کر سکتے کہ ہماری خواتین اسلامی کوڈ آف لائف میں رہتے ہوئے بہتر اعلا تعلیم سے بہرہ ور ہوں اور پھر وہ بھی فکری سطح پر زیادہ اعتماد کے ساتھ اسلامی تعلیمات کا پرچار و پرسار کریں اور ضرورت پڑنے پر دشمنان دین مبین کو دنداں شکن جواب دے سکيں ۔
         مخلوط نظام تعلیم غیر اسلامی بھی ہے اور اس  کی مخالفت ضروری بھی ہے ۔ لیکن تاریخ بتلاتی ہے کہ صرف مخالفت کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی ۔ اگرہم اور آپ متبادل تلاش کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو اس کا واضح مطلب ہے کہ ضرورت رک نہیں سکتی ۔ ہم لاکھ مخلوط نظام تعلیم کی خطرناکی کا ہنگامہ کھڑا کریں لیکن چونکہ ہمارے پاس متبادل نہیں اس لیے یہ معلوم بات ہے کہ مسلمانوں میں جن کے پاس وسائل ہیں وہ اپنی بیٹیوں کو میڈیکل کی تعلیم دلانے کے لیے انہیں اداروں کا رخ کرتے ہیں ۔ ان میں بلاشبہ بہت سے ایسے لوگ ہيں جن کی ذہنیت اسلامی نہیں ، اس لیے ان پر کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ان میں کچھ ایسے بھی ہيں جو اسلامی ذہن رکھنے کے باوجود ایسا کرنے پر اس لیے مجبور ہیں کہ ان کے پاس متبادل نہیں ۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ایک طرف ہم اپنی عورتوں کی حد درجہ پردہ داری کے قایل ہیں جو بلاشبہ ہماری دینی اور اخلاقی غیرت کا اشاریہ ہے اور دوسری طرف ضرورت پڑنے پر خود ہمیں اپنی خواتین کو غیر محرم ہی نہیں ، غیر مسلم حضرات تک کے پاس بغرض علاج لے جانا پڑتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ہم اپنی ضرورتوں کو فراموش نہيں کرسکتے ۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے کہ ہماری ضرورتیں بھی پوری ہو جائیں اور ہمیں اپنی تہذيب و تمدن اور طرز معاشرت سے سمجھوتہ بھی نہ کرنا پڑے اور ہمارا دینی تشخص بھی مضبوط رہے ۔ عام طور سے مسلم برادری کی پہچان ایک غیر تعلیم یافتہ اور پچھڑی ہوئی کمیونیٹی کی ہے  ۔ اس میں بلاشبہ حکومتوں کی اپنی حصہ داریاں ہیں لیکن ہمارا اپنا قصور بھی کچھ کم نہیں ہے ۔ غیر ضروری جلسے جلوس اور بے مطلب کے دکھلاوے میں ہم جتنا سرمایہ ضائع کردیتے ہیں اگر اس کا عشر عشیر بھی پلاننگ کے تحت بہتر مقصد اور ضرورت کو سامنے رکھ کر خرچ کیا جائے تو کایا پلٹ ہو سکتی ہے ۔ یاد رہے کہ یہ کام آسان نہیں لیکن اگر ہمت ، حوصلے اور بلند فکری سے کام لیا جائے تو یہ ایسا کچھ مشکل بھی نہیں ہے ۔ یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ اس طرف تو جہ دینا ضروری بھی ہے اور مجبوری بھی ورنہ ان آنکھوں نے ان یونیورسٹیز کے اندر جہاں مخلوط نظام تعلیم رائج ہے دختران ملت کی جو کیفیت دیکھی ہے اس سے کسی اچھے نتیجے کی توقع فضول ہی ہے ۔ کبھی کبھی تو دینی تعلیم سے آراستہ ان بہنوں کی کیفیت بھی خون کے آنسو رلا دیتی ہے  جو مدرسوں سے عربی دینی تعلیم کے حصول کے بعد اعلا تعلیم کی غرض سے ان دانش گاہوں کا رخ کرتی ہیں ۔ بھائیوں کا ذکر یہاں اس لیے جان بوجھ کر نہيں کیا جارہا کہ وہ تو جو ہے سو ہے ہی ۔ لیکن سوچنے کا زاویہ یہ بھی ہونا چاہیے کہ تالاب میں کسی کو ڈھکیل کر اگر ہم یہ توقع رکھیں کہ اس کے کپڑے نہيں بھگیں گے تو ظاہر ہے اسے ہماری عقلمندی کے زمرے میں نہيں رکھا جاسکتا ۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہ نکالا جائے کہ اس معاملے میں کچھ لوگوں کا رویہ زبردست کردار وعمل کا مظہر نہیں لیکن اتنا تو ہم سب جانتے ہیں کہ استثناءات بہر حال استثناءات ہی ہوتے ہیں ۔


هناك تعليق واحد:

Safat Alam Taimi يقول...

ٌٌجزاكم الله خيرا