الثلاثاء، فبراير 04، 2014

روشنی ( ایک افسانہ )

ساگر تیمی
 جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی 110067

" پروردگار عالم ! تجھے خبر ہے کہ یہ سارا کام میں صرف اور صرف تیری رضا جوئی کےلیے کرتا ہوں ۔ مجھے پتہ ہے کہ میرے احباب اور دوست مجھے بے وقوف سمجھتے ہیں ۔  لیکن میں یہ سب صرف اس لیے کرتا ہوں کہ میرا ان کے اوپر اثر باقی رہے اور میں ان سے دینی مشن میں کام لے سکوں ۔ اے اللہ ! تو جانتا ہے کہ میرا مقصد سوائے تیری خوشنودی اور تیرے پیغام کی اشاعت کے اور کچھ نہیں ۔  پروردگار! میرا مال ، میری جان اور میری تعلیم اگر اس مشن میں کام آسکی تو ٹھیک ورنہ ان کا حاصل بھی کیا ہے ؟ "
     اجمل  کے سامنے یادوں کا سارا دریچہ کھل گيا ۔ وہ ملک کی بہت مشہور اور بہترین یونیورسٹی تھی ۔ صرف قابل اور محنتی طلبہ ہی اس یونیورسٹی میں داخلہ پاتے تھے ۔ وہاں داخلہ ملنے کا مطلب یہ مانا جاتا تھا کہ اب آپ کی زندگی کامیابی کے زینے پر قدم رکھ چکی ہے ۔ طلبہ بڑے جوش اور فخر سے بیان کرتے تھے کہ وہ اس یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں ۔ یونیورسٹی کا ماحول تھوڑا زیادہ ہی کھلا ہوا تھا ۔ آزادی اور الحاد کی تو جیسے وہاں سے ہوا ہی اٹھتی تھی ۔ ہم جنس پرستوں سےلے کر ہر طرح کے فیشن کو یہاں سے تقویت ملتی تھی ۔ لڑکیوں کی آزادی ہی نہیں بلکہ مکمل آزادی کی صدا جیسے اس یونیورسٹی کے بام ودر سے آتی تھی ۔ لڑکیوں کو ماں ، بہن ، بیوی اور دیوی ہونے تک پر اعتراض تھا ۔ وہ صرف لڑکیاں بننا چاہتی تھیں اور وہ بھی ایسی جیسی وہ خود چاتی تھیں ۔ انہیں یہ بالکل بھی گوارہ نہیں تھا کہ ان کے لباس ، بود و باش یا سوچنے سمجھنے کے انداز میں کسی قسم کی رخنہ اندازی کی جائے ۔ یونیورسٹی میں مخلوط تعلیم کا نظام نافذ تھا ۔ لڑکے اور لڑکیاں ہاسٹل میں رہتے تھے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی کوئی قید نہیں تھے ۔ رات رات بھر ڈھابے کھلے رہتے تھے ۔ وہاں تو جیسے رات ہوتی ہیں نہیں تھی ۔ پڑھنے والے بھی رات کو شب بیداری کا فریضہ انجام دیتے تھے اور مستیاں کرنے والے بھی شام کےبعد ہی حرکت میں آتے تھے ۔
       اجمل ایک متوسط گھرانے کا لڑکا تھا ۔ یونیورسٹی سے پہلے کی  تعلیم مدرسے میں ہوئی تھی ۔ جھارکھنڈ کے ایک چھوٹے سے قصبے سے اس کا تعلق تھا ۔ وہ سانولے رنگت کا خوش شکل اور لمبا چوڑا  لڑکا تھا ۔ اس یونیورسٹی میں داخلہ سے پہلے اس نے ملک کی ایک دوسری یونیورسٹی سے بے ایڈ کیا تھا ۔ اس کے اندر بلا کی کشش پائی جاتی تھی ۔ مسکراہٹ جیسے اس کے وجود کا حصہ ہو ۔ اس کی آنکھوں میں گہرائی اور پیشانی  پر چمک تھی ۔ لڑکیاں بالعموم اس پر نثار ہو جاتی تھیں ۔ بی ایڈ کے زمانے میں اس کے اندر کافی تبدیلی رونما ہوئی تھی ۔ در اصل مدرسے کی پابند زندگی کے مقابلے میں اتنی آزاد زندگی میں وہ کچھ سے کچھ ہو گیا تھا ۔ یہ بات اس کے صرف قریبی دوست ہی جانتے تھے کہ وہ ایک مدرسے کا باضابطہ فارغ التحصیل عالم ہے ۔ دراصل وہ چاہتا بھی نہیں تھا کہ لوگ اسے اس حیثیت سے جانیں ۔ لیکن اتنی ساری تبدیلی اور آزادی کے باوجود اس کے اندر ایک چیز بڑی ریمارکیبل تھی ۔ وہ لوگوں کے کام بہت آتا تھا ۔ اس کی ایک بڑی خاصیت یہ تھی کہ وہ لوگوں کی باتوں کو بالعموم ہنس کر ٹال دیتا تھا ۔ اس لیے اس کی کبھی کسی سے برائي نہيں ہوتی تھی ۔ وہ اپنے سرکل میں لڑکیوں سے تھوڑا زیادہ ہی کھلا ہوا تھا ۔ بات یہ تھی کہ وہ لڑکیوں کی تعریف کرنے کی خوبی سے واقف تھا ۔ لیکن بہرحال وہ اپنے حدود کو بھی نظر میں رکھتا تھا ۔
         یونیورسٹی میں اس کی دوستی ایک دوسری ہی  قسم کے طالب علم سے ہو گئی ۔ وہ در اصل اتفاق ہی تھا ۔ لیکن اجمل کے  سماجی اعتبارسے متحرک ہونے  اور اس کے  دوست شاداب کے خلوص کی وجہ سے اس کے اندر بہت گہرائي آگئی تھی۔ شاداب مضبوط ارادوں کا مالک جوان تھا ۔ لمبا چہرا ، چوڑی پیشانی ، چھوٹی چھوٹی سمجھدار آنھکیں اور اس پر لجائی ہوئي مسکراہٹ اسے وقار و اعتبار عطا کرتی تھی ۔ بہار کے ایک قصبے سے اس کا تعلق تھا۔ وضعداری اور دینداری اس کی اصل پہچان تھی   ۔ ان دونوں کے بیچ ایک اور تیسرا طلب بھی تھا نوید ۔ یہ در اصل ان دو انتہاؤں کے بیچ ایک پل کی حیثيت رکھتا تھا ۔ شاداب ایک ایمان والے عملی مسلمان کا نمونہ تھا ۔ پوری یونیورسٹی میں ہر طرح کے مسلم اور انسانیت کے مسائل کو لے کر وہ پریشان رہا کرتا تھا ۔ وہ اس دین بیزار دانش گاہ میں پکا سچا مسلمان تھا ۔ پانچ وقت کی نمازین ، ہفتے میں دو روزے سموار اور جمعرات کے اور ہمہ وقت وضو کی حالت میں رہنا اس کی عادت میں شامل تھا ۔ وہ نہ تو کوئي فلم دیکھتا تھا اور نہ فلموں سے اسے کسی قسم کی کوئي دلچسپی تھی۔ وہ کسی قسم کی بے مقصد مجلس کا حصہ بننا پسند نہیں کرتا تھا۔ یونیورسٹی میں کلچر کے نام پر آئے دن رقص و سرود وغیرہ کی محفلیں سجاکرتی تھیں لیکن اسے ان سے کوئی سروکارنہيں تھا ۔ در اصل اس کی پچھلی زندگی اس کے بقول جاہلیت کی تھی ۔ جب وہ صرف نام کا مسلمان تھا اور سارے کام غیر مسلموں والے کیا کرتا تھا ۔ اس کی عملی زندگی کو دیکھ کر اسیا لگتا جیسے وہ اپنی پچھلی زندگی کی تلافی کررہا ہو ۔ عام طور سے طلبہ اس کا مذاق اڑاتے اور اس پر پھبتیاں کسا کرتے تھے ۔ در اصل وہ ایک الگ ہی قسم کا انسان تھا ۔ لوگوں کو اس کی اخلاقی بلندی اور اصول پسندی کا بھی اعتراف تھا اس کے باوجو نہ جانے کیوں اسے لوگ قبول کرنے کوتیار نہیں رہا کرتے تھے ۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا جیسے اپنے مقابلے میں اس کی نیکیوں کی وجہ سے لوگ اس سے چڑھ جاتے ہوں ۔ لیکن وہ تھا کہ بس اپنے کام میں لگاہوا تھا ۔ اس کے اندر ایسا نہیں کہ خامیاں نہیں تھیں۔ اسے تعریف بہت پسند تھی ۔ وہ بھی اپنے آپ کو کبھی کبھی اس طرح پیش کرتا جیسے واقعۃ اس کے علاوہ کوئی نیک ہو ہی نہیں لیکن ایسا کم کم ہی ہوتا تھا ۔ ان بن کی صورت میں وہ ہمیشہ معافی مانگنے میں جلدی کیا کرتا تھا ۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تیرتے رہتے تھے اور جب اللہ رسول کا ذکر آتا تو وہ سیلاب کی مانند بہ جاتے ۔
           اجمل اور نوید بالعموم ایک طرف ہو جاتے اوراسے دق کیا کرتے ۔ اس کا مزہ لیتے ۔ اور جب وہ غصہ کیا کرتا تو یہ خوب خوش ہوتے ۔ پھر یہ دونوں ناراض ہو جاتے اور وہ انہیں منانے کے لیے کسی اچھے ریستوراں میں پارٹی دیتا اور پھر سب کچھ ٹھیک ہوجاتا ۔ لیکن دوسرے طلبہ کے لیے یہ بڑی عجیب بات تھی ۔ وہ سوچتے کہ یہ دونوں آخر ایک ساتھ رہتے کیوں ہیں ۔ ان کی ایک ساتھ اتنی اچھی کیوں کر بن جاتی ہے ۔ کمال کی بات یہ تھی کہ اجمل اور نوید اس کے ساتھ ہونے کی وجہ سے نماز وغیرہ کی پابندی بھی کرلیا کرتے اور ہر طرح کے دینی اور سماجی کاموں کا حصہ ہو جایا کرتے ۔ البتہ ہر سموار اور جمعرات کو افطار کرنے کے باوجود انہیں کبھی نفلی روزے کی توفیق نہیں ملی تھی ۔ لیکن شاداب کے لیے اتنا بھی کم نہیں تھا کہ یہ لوگ نماز ادا کرلیتے ہیں ۔ دینی اور سماجی کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں اور ان کی وجہ سے اسے اپنے مقاصد کے حصول میں آسانی ہوتی ہے ۔ ایسے وہ ان کی مدد بھی کم نہیں کرتا تھا ۔ وہ ہمیشہ یہ کوشش بھی کرتا تھا کہ اگر وہ کوئی علمی کام کررہا ہے تو اس کے ساتھ اس کے دوست بھی ایسا ضرور کریں ۔ وہ ٹیم ورک میں یقین رکھتا تھا ۔ وہ اتنا سماجی تھا کہ کبھی کبھی نوید اسے الٹے نصیحتوں سے نوازنے لگتا۔ اکیڈمک پر دھیان دینے کی گزارش کرنے لگتا۔ اور بالعموم وہ یا تو ہوں ہاں کرکے رہ جاتا یا پھر ٹوپک چینج کردیتا۔ در اصل وہ اپنے اسٹڈیز میں بھی اچھا ہی تھا ۔
             اتنے لمبے عرصے کی دوستی میں بہت سے ایسے مواقع آئے جب ان کے درمیان تو تو میں میں ہوئي ۔ وہ ایک دوسرے سے ناراض ہوئے اور پھر بات بن گئي۔ بات یہ تھی کہ نوید بالعموم الجھنے کی بجائے مذاق میں ٹال جاتا تھا اور اجمل کے اندر رد عمل کی نفیسات تھی نہیں ۔ اور اگر کبھی ایسا ہو بھی جاتا تو شاداب کی معافی کےبعد  معاملے کے نہ بننے کا سوال ہی نہیں بچتا ۔ حالانکہ ایسی کوششیں بھی کی جاتیں کہ ان تینوں میں کچھ گڑ بڑ ہوجائے ۔ لیکن شاداب کا خلوص سب پر حاوی پڑ جاتا ۔
         لیکن اس مرتبہ کی صورت حال کچھ اور ہی تھی ۔ شاداب کی معافی اور نوید کی صلح کرانے کی کوشش سب بے کار ہو چکی تھی ۔ در اصل اجمل نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ اسے اب اس پابند زندگی سے پیچھا چھڑا ہی لینا ہے ۔ وہ یوں بھی اپنے لبرل دوستوں کے درمیان زیادہ ہی طنز کا نشانہ بن جایا کرتا تھا ۔ اسی لیے جب کسی بات پر شاداب نے اسے کچھ کہ دیا تو اب اسے جیسے ایک بہانہ ہاتھ لگ گیا ہو ۔ ایسے شاداب کے اندر بھی ایک قسم کا تحکمانہ انداز پایا جاتا تھا ۔ یہ سچ تھا کہ وہ اپنے دوستوں کا کچھ زیادہ ہی خیال رکھتا تھا لیکن یہ بھی سچ تھا کہ اس خیال میں کبھی کبھی وہ دوستوں کی آزادی میں مخل بھی  ہو جایا کرتا تھا ۔ وہ جذبہ خلوص کی شدت میں بھول جاتا کہ لوگوں کے اپنے بھی احساسات ہوتے ہیں ۔ اس کے دوست باتوں باتوں میں اسے اس کا احساس بھی دلاتے لیکن وہ دوسری باتوں کی طرح اسے بھی ان کا مذاق ہی خیال کرتا ۔
 یہ صورت حال سب سے زیادہ نوید کے لیے  پریشان کن تھی ۔ اس لیے کہ وہ بہرحال یہ نہيں چاہتا تھا کہ جو رشتے اتنی مدت تک چلتے رہے ہیں ، وہ یوں ٹوٹ جائیں ۔ بات یہ بھی تھی کہ خود نوید بھی اس رشتے سے اتنا جڑ گيا تھا کہ اس کے بغیر اس کی پوری یونویرسٹی لائف بے کیف سی معلوم ہوتی تھی ۔ لیکن وہ دیکھ رہا تھا کہ اس کی کوششیں بھی کچھ خاص نہیں کرپارہی ہیں ۔ اس کے سامنے ایک مرحلہ یہ بھی تھا کہ آخر وہ کیا کرے ۔ وہ دونوں سے محبت کرتا تھا ۔ اس کے لیے دونوں کو یوں الگ کرکے دیکھنا آسان نہیں تھا ۔ اسے کبھی کبھی شاداب کے مشن کی بھی یاد آتی تھی ۔ اور وہ جانتا تھا کہ ہر چند کہ وہ اور اجمل عملی سطح پر اس کے لیے بہت اچھے معاون نہيں ہیں لیکن یہ بھی سچ تھا کہ وہ دونوں دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اس کے مشن کے لیے مفید تھے ۔ بات یہ تھی کہ خود نوید کے اندر بھی بہتر سماج بنانے کی للک کچھ کم نہ تھی ۔ وہ دین کے نظری پہلوؤں پر بطور خاص بہت گہری نظر رکھتا تھا ۔ اس نے اپنے وقت کے اچھے اسلامی مفکرین کو پڑھا تھا ۔ لیکن اس کی سیمابیت اسے کچھ کرنے نہيں دیتی تھی ۔ وہ اپنے آپ کو بیلینس نہیں کرپاتا تھا۔  در اصل مختلف میدانوں کی آری ترچھی معلومات کے سہارے وہ چاہتا تھا کہ ہر ایک فیلڈ سر کرلے ۔ اس لیے وہ کہیں پر اپنی پوری حصہ داری نبھا نہیں پاتا تھا۔ لیکن اس کا اصل پیشن در اصل یہی تھا کہ وہ بھی کچھ قابل ذکر کام کر سکے ۔ اس معاملے میں اسے اکثر اپنے والد کی یاد آتی تھی جو اسے ایک آئڈیل انسان کے طورپر دیکھنا چاہتے تھے ۔
        اجمل نے  آخری بار یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ اب اسے شاداب سے تعلق توڑ لینا ہے ۔ وہ اپنا بچا کھچا سامان شاداب کے روم سے لے کر نکل جانا چاہتا تھا ۔ لیپ ٹاپ ، کپڑے اور کتابیں جب وہ لے کر نکلنے کا ارادہ کررہا تھا تو اس کی نظر شاداب کی  ڈائری پر پڑي اور وہ یہ سوچ کر اسے دیکھنے لگا کہ اتنی دیر میں اگر شاداب آگیا تو اسے آخری سلام کرکے نکل جائيگا ۔ اس کے سامنے ڈائری کا جو صفحہ کھلا اس نے اسے پریشان ہی کردیا ۔ اکثر وہ اور نوید یہ باتیں کیا کرتے تھے کہ اگرہم دونوں نہ ہوں تو شاداب اکیلا مر جائے ۔ اس دقیہ نوس انسان کو بھلا کون اپنا ساتھ دے۔ ہم تو کسی کے ساتھ بھی نباہ سکتے ہیں ۔ اس کا تو کسی کے ساتھ نہيں چل پائیگا۔ یہ الگ بات تھی کہ کبھی کبھی وہ دونوں اس پر رشک بھی کیا کرتے تھے لیکن انہيں اپنی برتری کا احساس رہتا ہی تھا ۔ یہاں ڈائری یہ کہ رہی تھی کہ وہ تو ان دونوں کو ان دونوں سے بھی زیادہ جانتا ہے اور صرف اس لیے ان کے سارے نخرے برداشت کرتا ہے کہ اس کے اپنے نیک دینی اور ایمانی مقاصد حاصل ہو سکیں ۔ اجمل اب ایک دوسری ہی قسم کی پشیمانی میں مبتلا تھا۔ اس کے من میں آرہا تھا کہ ہم کتنی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے فکرمند تھے اور شاداب کتنی دور رس نگاہ سے دیکھ رہا تھا ۔ تیری تجارت کامیاب رہی دوست! کاش ہم تمہيں پہلے اس طرح سمجھ سکتے ! ہم تمہاری مجبوری نہیں تھے ۔ تم نے تو ہمیں اپنے اتنے اونچے مقاصد کا حصہ بنا لیا تھا ۔ اور اس کے لیے تم نے کیا کیا نہيں برداشت کیا تھا  ۔ اس نے سارا سامان وہیں چھوڑ دیا اور جب نوید کو ٹیلی فون کرکے اس نے یہ کہا کہ وہ شاداب سے معافی مانگنا چاہتا ہے تو نوید کے لیے اپنی خوشیوں پر قابو پانا آسان نہيں رہا اور اس کے آنسو نکل پڑے۔

هناك تعليق واحد: