السبت، مارس 08، 2014

جدوجہد آزادی میں وہابی ادب کا کردار

محمد شیث ادریس تیمی

وہابی تحریک ایسے حالات میں برپاہوئی جب کہ ملک کے اندر طوائف الملوکی پھیلی ہوئی تھی۔ انگریز بہادر اپنی مکاری وعیاری کے ذریعہ اپنا خونیں پنجہ پورے ملک پرگاڑچکا تھا۔ عوام وخواص کے ذہنی وفکری جمودکا عالم یہ تھا کہ وہ بد عقیدگی وبے عملی اورمبتذل رسوم ورواج کے دلدل میں پھنسے ہوئے تھی۔ اورغلامی وآزاد ی کا تصوراکثر کے ذہن سے محو ہوچکا تھا ۔ ان حالات میں وہابی تحریک نے برصغیر ہند وپاک کے مطلع پر نمودار ہوکر اپنی ضیاپاش کرنوں سے لوگوں کے اند رحرارت وتازگی اوربیداری پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس تحریک نے نہ صرف یہ کہ لوگوں کے خوابیدہ تارنفس کو چھیڑا بلکہ ناعاقبت اندیش سماج کے بنائے ہوئے ظالمانہ وغیرعادلانہ رسوم ورواج اور طورطریقوں اورانگریزی اقتدار کے خلاف صدائے احتجاج بلندکیا ، عملا دعوت واصلاح ، ازالہ اوہام وخرافات اورانگریزی استعمار کو دیش نکالا دینے کے لئے مورچہ سنبھالا اوراس راہ میں بے مثال جانی ومالی قربانیاں پیش کیں۔

وہابی تحریک چاربنیادوں پر استوارہوئی تھی یعنی عقیدہ توحید، اتباع سنت، جذبہ جہاد اورانابت الی اللہ ۔ اس نے فکر ونظر، عقیدہ اوررسوم ورواج کی اصلاح کے ساتھ ساتھ خدمت انسانیت کی بھی روایت قائم کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس تحریک کو برصغیر ہندوپاک میںبلا تفریق مذہب وملت تقریبا ہرگروہ کا تعاون حاصل رہا۔ اکثرفرقوں نے خادم وطن وانسانیت تحریک ہونے کی وجہ سے اس کی کم ازکم اخلاقی حمایت ضرورکی۔
اس تحریک کے حوالے سے عام تاثریہ ہے کہ ۶۱مئی ۱۳۸۱ئ؁ میں میدان بالا کوٹ کے اندر بانیان تحریک سید احمد شہید اورمولانا محمد اسماعیل شہید کی شہادت کے بعد یہ تحریک ختم ہوگئی اوریہ اپنے مقصدمیں ناکام رہی۔ جوکہ بالکلیہ صحیح نہیں ہی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہابی تحریک فاجعہ بالا کوٹ کے بعد گوکہ زیادہ عرصے تک منظم نہیں رہ سکی، لیکن اس نے سواسوسال کی مدت میں جمود وتعطل کے ماحول کے اندر حریت فکر ونظر کا جو چراغ روشن کیا تھا اور غلامی کی شب تاریک میں آزادی کی جوشمع فروزاں کی تھی اس کی لودن بدن تیز سے تیز ترہوتی گئی اور جس کی روحانی روشنی میںکاروان روشن خیالی وآزادی وطن بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے لگا۔ وہ وہابی تحریک ہی تھی جس نے بعدکے ادوار میں اصلاح معاشرہ، آزادی وطن اور زبان وادب کی تحریکات کو اساس فراہم کیا۔ اورجس کی بے لوث کوششوں کے نتیجے میں لوگ آزادانہ طورپر سوچنے لگے اوردین کے اصل سرچشموں سے دوری ،توہم پرستی ،جاہلانہ وفرسودہ رسوم ورواج اورغلامی کی قباحتوںپر گفتگو ہونے لگی۔ یہ وہابی مجاہدین ہندؤں یا اورکسی اورمذہبی فرقے کے مخالف نہیں تھی۔ البتہ اسلام میں غیراسلامی عناصر کے شمول کے خلاف تھے اورمذہب خواہ کو ئی بھی ہو اس کو اصل حالت میںقائم رکھنے کے قائل تھی۔
یہ وہابی بڑے سخت جاں واقع ہوئے تھی۔ انہوںنے مقصدکے حصول کے لیے ہجرتیں کیں، خویش واقارب کی جدائی مول لی ، شاہی ترک کرکے گدائی پر قانع ہوئے ، معرکہ کرب وبلا میں شجاعت وبہادری کی جوہر دکھائے اوراپنے خون شہادت سے دعوت واصلاح اورصبروعزیمت کی روشن تاریخ رقم کی۔ حقیقت یہ ہے کہ جوسر ایک اللہ کے آگے جھکنے کا عادی ہوجاتا ہے تواس کے آگے ساری خدائی ہیچ ہوجاتی ہے اوروہ کسی کی کبریائی کوتسلیم نہیں کرتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہابی تحریک ایک مذہبی واصلاحی تحریک تھی اوراس نے برصغیر ہندوپاک میں طغیان فکرونظر پیدا کیا۔ بایں ہمہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے بلاواسطہ طورپر زبان وادب کو متاثرہی نہیں کیا بلکہ اس نے روش عام میں تبدیلی لانے اور اصلاحی وتعمیری مقاصد کے پیش نظر ایسا ادب تیارکیا جس میں موجودہ دینی،سماجی اورسیاسی رویوں اور رجحانات کی بیخ کنی کی گئی، قرآن وحدیث کی روشنی میں بدعقیدگی واوہام پرستی اورفرسودہ رسم ورواج کی مخالفت کی گئی۔ نہایت منطقی انداز میں توحید خالص ، اتباع سنت اورملک وانسانیت کے دشمنوں کے خلاف جہاد کی دعوت دی گئی۔ اورآزادی کا اجتماعی شعورپیدا کیا گیا۔
وہابی تحریک نے پہلی بار راست اورسلیس اردو کو رواج دیا ۔ اسلوب کو جرأت اظہار اوربرجستگی عطا کی، بھاری بھرکم الفاظ اورفارسیت زدگی پرلگام لگایا۔اور اردو ادب کو ہندستانی الفاظ ومحاورے اورتعبیرات سے مزین کیا۔ ایہام کے بغیر اچھی شاعری کس طرح ہوسکتی ہے اس کا سلیقہ بخشا۔ نئی نثر ونظم کے لیے راہ ہموار کی۔ تکلف وتصنع سے پاک کرکے اردو کو صحیح معنوں میں اردو بنایا، اس کا دائرہ وسیع کیا اوراس کے دامن کو گلہائے رنگارنگ سے بھردیا ۔ وہابی تحریک کے زیراثر قرآن مجید کے اردومیں ترجمے ہوئی۔ ہزاروں کتابیں تالیف کی گئیں۔ عربی وفارسی مصنفات کے تراجم تیار کیے گئے ۔ قصیدہ، مثنوی اورنظم کی دیگر اصناف میں شاعری کی گئی ۔ صحافت کو رواج دیا گیا۔ اوراس طرح منطقیت وقوت استدلال سے پر ایک صاف ستھری اورالبیلی اردو وجود میں آئی۔ بجا طورپر فرمایا خواجہ احمد فاروقی نے کہ ’’وہابی ادب کو موجودہ اردو نثرکے ارتقامیں ایک اہم مقام حاصل ہی، اگروہ نہ ہوتا تودہلی کا لج کی نثر اورسرسید احمد خاں کی نثر وجودمیں نہ آتیں‘‘ نیز یہ کہ’’ راست اورسلیس نثرکا رواج محض فورٹ ولیم کا لج یادہلی کالج کی بدولت نہیں ہوا اس نیکی کے پھیلانے میں وہابی تحریک کو بھی دخل ہے جس نے ملک کی ایک بڑی دیہی آبادی کو اپنے دائرہ اثر میں لے لیا تھا‘‘ لیکن اس سب کے باوجود طرہ یہ ہے کہ آج اردو ادب کے عروج وارتقاء کے حوالہ سے وہابی ادب کے تذکرہ کو عموما ًشجر ممنوعہ سمجھ لیا گیاہی۔
جہاں تک جدوجہد آزادی میںوہابی ادب کے کردار کا تعلق ہے تویہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کا اعتراف اپنوں نے توبوجوہ بہت کم کیا ہے لیکن غیروں نے بڑی وضاحت کے ساتھ کیا ہی۔ ان میں معروف انگریزی مصنف ڈبلیو ڈبلیوہنٹرسرفہرست ہی۔ وہابیوں نے نہ صرف اپنی تقریروں کے ذریعہ لوگوں کو انگریزوں کے خلاف بھڑکایا بلکہ انگریزی اقتدار کے خلاف کتابیں تصنیف کیں۔ فتوے صادرکےی۔ نظمیں لکھیں، پوسٹر شائع کیے اوربعد کے ادوارمیں زورصحافت کا بھی مظاہرہ کیا۔ ان تحریروں کی ضربیں اتنی سخت اور جان لیوا تھیں کہ انگریز ان کی تاب نہ لاسکے اوران کا اسلوب اس قدر دل کو چھولینے والا تھا کہ ان کو پڑھ کر لاکھوں سرفروش مجاہدین آزادی انگریزی اقتدارکے قلع قمع کے لیے میدان جنگ میں کود پڑی۔ شروع شروع میں ان مجاہدین کی تعداد بہت کم تھی۔ لیکن انہوں نے اخلاص وللہیت کے ساز پرزندگی کا ایسا سدا بہار نغمہ گایا کہ’’ لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا‘‘ کی کیفیت پیداہوگئی۔
وہابی تحریک کے پس منظراورگرانقدرعلمی، اصلاحی، سیاسی اورادبی خدمات کے پیش نظریہ عرض کرنا مبالغہ نہ ہوگا کہ اگروہابی تحریک وجود میں نہیں آتی ،وہابیوںنے انگریزمخالف ادب تیار نہیں کیا ہوتا۔نوائے آزادی گائی نہیں ہوتی اورانگریزوں کے خلاف چوطرفہ محاذ قائم نہیں کیا ہوتا توشاید فکری جموداورخونیں غلامی کا سلسلہ کچھ مدت تک کے لئے اوردراز ہوجاتا کیوں کہ اس تحریک نے اسلامیت اورآزادی وطن کے لیے جدوجہد اس وقت شروع کی جب کہ اکثر گروہوں پرافسردگی وبے حسی طاری تھی اوران کی غفلت وسرشاری اس حدتک پہنچ چکی تھی کہ وہ آزادی وغلامی کی حقیقت کو سرے سے فراموش کرچکے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے درمیان حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہنگامہ مسابقت بپا تھا۔ اس وقت عزت وحرمت اورآزادی کے اندازشناس بھی بہت کم تھی۔
مختصر یہ کہ وہابی ادب نے جدوجہد آزادی میں اہم کردار ادا کیا جوکہ ایک تاریخی حقیقت ہے اورجس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ وہابی ادب ایک قومی وملی سرمایہ ہے جس کی بہرطور حفاظت کی جانی چاہےی۔ افسوس اس وقت ہوتاہے جب جدوجہد آزادی کے حوالے سے اس محسن وطن وانسانیت تحریک اوراس کے ادب کا تذکرہ نہیں ہوتا۔ ارباب حکومت ،دانش گاہوں اوردیگر ادبی وتحقیقی اداروں کو اس جانب بھی اپنی توجہ مبذول کرنی چاہيے۔


ليست هناك تعليقات: