الثلاثاء، مارس 04، 2014

بدلاؤ کی بحث

ثناءاللہ صادق تیمی
 جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی ۔ 110067
                
مارچ 2014 میں مشہور فلم ایکٹر عامر خان اپنے کامیاب ٹی وی شو ستی میو جیتے کے دوسرے شیشن کے ساتھ جب ایک مرتبہ پھر ٹی وی اسکرین پہ نمودار ہوئے ہیں  تو یہ بات بڑے زور شور سے دہرائی جانے لگی ہے کہ آخر ان کے پہلے شو کے بعد سماج میں  کیا تبدیلی رونما ہوگئی ہے ۔ یہی بات اس وقت بھی سامنے آئی جب اروند کیجریوال سیاست میں آئے اور انہوں نے کرپشن کے خلاف مورچہ سنبھالا ۔ یہ سوال اب بھی باقی ہے اور پوچھنے والے یہ سوال پوچھتے رہیںگے ۔ سچی بات یہ ہے کہ اس قسم کے سوال کے پیچھے کوئي خاص شعور کام نہیں کرتا ۔ در اصل یہ ایک شکست خوردہ ذہنیت کی علامت ہوا کرتا ہے ۔ عام طور سے اپنے آپ کو اچھی تبدیلی سے دور رکھنے والے لوگ اسی قسم کی باتیں کرتے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ ایسے لوگ جذباتیت اور سطحی سوچ کے مالک ہوتے ہیں ۔ انہیں تبدیلی تب سمجھ میں آتی ہے کہ جب تبدیلی مادی شکل میں نمودارہو۔ اس قسم کی تنقید سے انسان در اصل اپنی کمزوریوں کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتا ہے ۔
          اگر عامر خان یا اروند کیجریوال یہ دعوی کریں کہ انہوں نے سماج بدل دیا ہے یا پھر یہ کہ ان کی تحریک اور شو کے بعد اب سماج میں برائی رہی نہیں تو ظاہر ہے کہ یہ دعوی غلط ہے اور اس کی غلطی اتنی واضح ہے کہ اس کی مزید وضاحت وقت ضائع کرنے جیسی ہی ہے ۔ لیکن اس بات سے تو کوئي انکار نہیں کر سکتا کہ عامر کے شو اور کیجریوال کی تحریک کا اثر ہوا ہے ۔ لوگوں کے اندر کہیں نہ کہیں بیداری آئی ہے۔ اپنے حقوق اور فرائض کے تئیں وہ حساس ہوئے ہیں ۔ بعض تبدیلیاں نظر آتی ہيں جبکہ بعض دیگر تبدیلیاں نگاہوں سے اوجھل رہتی ہیں ۔ نظر آنے والی تبدیلیاں لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں جبکہ نہ نظر آنے والی تبدیلیوں کو دیکھنے کی بصیرت صرف بیدار عقلوں کو حاصل ہوتی ہے ۔ اسے افسوسناک ہی کہیےکہ آج بھی ہندوستان میں بالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم ان بیدار اور اہل بصیرت لوگوں کی کمی پائی جاتی  ہے ۔ جس طرح کی صورت حال سے ہمارا دیش ان دنوں دوچار ہے ۔ ویسے میں تبدیلی کی بات کرنافطری بھی ہے اور ضروری بھی ۔ اروند کیجریوال نہیں تو کوئي اور عامر نہيں تو کوئي اور لیکن منظر نامہ ایسا ہے ہی کہ تبدیلی کی بات مانی جائے ۔ جہاں عورتیں محفوظ نہ ہوں ،بچیاں پیداہونے سے قبل ماردی جائيں ،بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں کی جاتی ہوں ،قدم قدم پہ کرپشن کا دیو منہ پھاڑے کھڑاہو ، لوگ مذہب ، علاقہ ، زبان اور تہذيب کے نام پر ایک دوسرے کی جان لے رہے ہوں اور جہاں منافقت انسانی زندگی کے سب سے مضبوط اور واضح نقش کے طور پر سامنے آتی ہو وہاں تبدیلی کی بات نہ کرنا حماقت اور کہیں نہ کہيں انسانیت دشمن ہونے کی دلیل ہے اور جو لوگ ایسی کوششیں کررہے ہوں انہيں ان کی اچھی کوششوں پر نہ سراہنا بھی مریضانہ ذہنیت کا گواہ ہے ۔ البتہ یہ سوال اہم بھی ہے اور ضروری بھی کہ اروند کیجرویوال ہوں یا عامر خان ان کا جو طریقہ عمل ہے وہ کس حد تک کارگر اور مفید اور بہتر تبدیلی لانے والا ہے ۔ اس نقطے پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ میں پچھلے دو تین سالوں سے اس قسم کی خبروں اور واقعات پر نظر رکھ رہاہوں ۔ مجھے جہاں یہ بتانے میں  خوشی ہو رہی ہے کہ کیجریوال یا عامر کی کوششوں کو میں اچھی نگاہوں سے دیکھتاہوں وہیں مجھے اس کے اظہارمیں بھی کوئي باک  نہيں کہ ان دونوں کے طریقہ عمل میں بعض بڑی خامیاں ہیں ۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر ان خامیوں کو ٹھیک سے درست کرلیا جائے تو زيادہ بہتر نتائج رونما ہوسکتے ہیں ۔
            عامر خان کے شومیں  بالعموم اس بات کو فراموش کردیا جاتا ہے کہ جہاں مسائل ہیں وہیں ان کے اسباب ہیں اور ان اسباب کا سد باب ضروری ہے ۔ آپ چند لوگوں کو صورت حال کی نزاکت دکھلا کر تھوڑی دیر کے لیے ایموشنل تو کرسکتے ہیں لیکن کوئي پائیدار حل نہيں تلاش کرسکتے ۔ ہمارے دیش کا نیچر مغرب سے بہت الگ ہے ۔ ہمارے اندر آج بھی مذہبی  تصورات کا عمل دخل ماشاءاللہ اچھا خاصا ہے ۔ اس لیے سماج کو بدلنے کی ہر صورت اگر دین کے راستے نہ آئے تو وہ اپنا اتنا اثر نہیں ڈال سکتی ۔ جہاں چیزیں سماجی تناظر میں پیش کی جاتی ہیں وہيں اگر وہ دینی تناظر بھی لے لے تو اس کی تاثیرت میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔  جنگ آزادی میں یہی نسخہ گاندھی جی  اور مولانا ابوالکلام آزاد نے استعمال کیا تھا اور وہ دونوں اپنے اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے تھے ۔ البتہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دین کے آفاقی ، اخلاقی اور انسانیت نواز ہدایات کا سہارا لیا جائے نہ کہ اختلافی امور کو چھیڑنے کی غلطی کی جائے ۔  یہاں اس بات کو نظر میں  رکھنا بھی ضروری ہے کہ انسان بحیثيت انسان اچھا واقع ہوا ہے ۔ اگر ایک انسان کے اندر کے انسان کو جگانے کی کوشش کی جائے تو کوئي وجہ نہیں کہ وہ سماج کو بہتر سمت دینے کی کوشش میں اپنا رول نہ ادا کرنے لگے ۔ ہمارے یہاں برائي سے زیادہ برے لوگوں سے نفرت کی جاتی ہے جبکہ برائي برائي ہی رہے گی اور برے لوگوں کو کوشش کرکے اچھے انسانوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ کیجریوال کے یہاں مختلف مواقع سے ایک قسم کی ضد کا احساس پایا جاتا ہے جو کہیں نہ کہیں ان کی سنجیدگی کو کمزور کرتا ہے ۔ کیجریوال کا آوٹ لک اچھا ہے ۔ ان کی گفتگو کی نرمی بھی اچھی ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ نظام حکومت کو اسی قدر چھیڑنے کی کوشش کی جائے تو بہتر ہو جتنے میں کام چل جائے ۔ ایسی کوشش جس سے انارکی پھیلنے کے خدشات پیدا ہوجائيں وہ اس بڑے ملک کےلیے گھاتک ہی ثابت ہوگی ۔
                لیکن ساتھ ہی اس بات کو بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ سب کچھ بدل نہیں سکتا ۔ انسان کے اندر جہاں اچھائیوں کے عناصرہیں وہيں برائیوں کے عناصربھی موجود ہیں ۔ ہم یہ کوشش کر سکتے ہیں اور کرنی بھی چاہیے کہ اچھائیوں کے عناصر کو مضبوط کیا جائے اور برائیوں کو پنپنے سے روکا جائے ۔ یہ توقع کرنا کہ سب کچھ مکمل طور پر بدل جائیگا عقلمندانہ روش نہيں ہاں جوشیلا اور جذباتی طرز عمل ضرور ہے ۔  یہاں مجھے اس کے اعتراف میں بھی کوئی باک نہیں کہ بعض دفعہ اگر یہی جذباتیت اچھے رخ کی طرف مڑ جائے تو بہتر رزلٹ دے دیتی ہے ۔ لیکن یہ ہمیشہ تخیلاتی عناصر سے بھر پور ہوتی ہے اس لیے جب وہ خواب پورے نہيں ہوتے تو بوکھلاہٹ کا تناسب دائرے سے نکلنے لگتا ہے ۔
       ایک بات اور بھی اہم ہے کہ خاموش رہنے یا برائي کا ساتھ دینے سے بہر حال بہتر ہے کہ انسان اچھائی کا ساتھ دے نہ تو کم ازکم اسے سراہے ضرور ۔ یوں جس حد تک اس کی رسائی ہے وہ تو اپنا کام کر ہی سکتا ہے ۔  ساحر لدھیانوی کے بقول
                   مانا کہ اس زمیں کو نہ گلزار کر سکے
                   کچھ خار کم تو کرگئے گزرے جدھر سے ہم
     حالات کاتقاضہ ہے کہ میدان عمل میں آیا جائے ۔ سماج کو بہتر سمت دینے کی کوشش کی جائے ۔ برائیوں اور بھلائیوں کی کشمکش  جاری رہے گی لیکن سوال یہ اہم ہوگا کہ ہمارا رخ کدھر تھا۔ کیجریوال کو اگریہ  بتلانے کی ضرورت ہے کہ کرپشن کا مقابلہ تبھی ہو سکتا ہے جب فرقہ واریت کا مقابلہ بھی کیا جائے تو انہیں یہ ضرور بتلایا جائے اور دلائل و براہین سے ثابت کیا جائے کہ ایسا کرنا ضروری کیوں ہے لیکن وہیں اس بات کو نہ فراموش کیاجائےکہ کرپشن جس سطح پر بھی پایا جاتا ہے اسے ختم کرنے کی ہم اپنی کوشش ضرور بروئےکار لائیں ۔ اندھیروں سے سمجھوتہ کرناعقلمندی  نہیں روشنی پیداکرکےاندھیروں کا خاتمہ کرنا ہی ہوشیاری ہے ۔ اس لیے کہ بہرحال اندھیرا اندھیرا ہے اور روشنی روشنی ۔
                   کچھ بڑھ گئے جو اندھیرے تو کیا ہوا

                 مایوس تو نہیں ہیں طلوع سحر سے ہم

ليست هناك تعليقات: