سیف الرحمن حفظ الرحمن تیمی
جامعہ
ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی
مبارک ہو مسلمانوں مہ رمضان آیا ہے
خدائے پاک کا بھیجا ہوا مہمان آیا ہے
خدا نے مرتبہ کتنا دیا اس ماہ اقدس
کو
ہدایت کے لئے اس ماہ میں قرآن آیا ہے
ایک
بارپھر ماہ رمضان، ماہ رضوان وغفران ،ماہ تلاوت قرآن، ماہ رحمت رحمان اور نیکیوں
کا سراپا چمنستان ہمارے اوپر جلوہ فگن ہورہا ہے ،کہ جس کے آتے ہی نیکیوں کا بہار
آجاتا ہے ، تقوی وپرہیزگاری ،زہدوقناعت ،خشیت وانابت ،عبادت وتلاوت ،شب بیداری
وتہجد گزاری ،رب کی اطاعت وتابعداری ،رب کے حضور گناہوں پر شرمندگی اور الحاح وزاری
،باہمی تعلقات میں استواری اور صدقات وخیرات کی مارا ماری کا ایسا سماں بنتا ہے کہ
یہ زمین جنت نشان بن جاتا ہے ، انسان کے اندر ملکوتی صفات کے مناظر جھلکنے لگتے ہیں
، ماہ رمضان صبح وشام روحانی ماحول پیش کرتا ہے ،راتوں کی حالت مزید دیدنی ہوتی
ہے، بالخصوص قدر کی راتوں میں آسمانی قمقے، ربانی جلوے اور روحانی جلوہ طرازی کی ایسی
روح افزا فضا قائم ہوتی ہے کہ ہر لب کا تبسم ہیرا اور ہر آنکھ کا آنسوبن جاتا ہے۔
ماہ
رمضان رحمت و مغفرت اور رب کی قربت کا ابر باراں لئے ہمارے سروں پہ سایہ فگن ہے،
ہر قلب پریشاں اب شاداں ہے کہ ماہ رمضان مبارک ہر غم وہم سے نجات دلانے اور خالق
حقیقی سے رشتہ استوار کرانے کے لئے ہمارے سامنے ہے،اس کے دن ا طاعت الہی سے منور
اور رات ذکر الہی سے معطر ہوتے ہیں،کیوں نہ ہو کہ اس ماہ کا ہر دن مرد مومن کے
صلوة و قیام سے مشرف ہوتا اور ہر رات تہجدوقیام سے سر فراز ہوتی ہے،صحابی رسول
عبداللہ بن مسعود ؓ سے دریافت کیا گیا ”کیف کنتم تستقبلون شھر رمضان“ آپ لوگ ماہ
رمضان کا استقبال کیسے کیا کرتے تھے؟” قال ما کان احدنا یجر و ان یستقبل الھلال وفی
قلبہ مثقال ذرة حقد علی اخیہ المسلم“آپ نے جواب دیا ہم میں سے کوئی آدمی یہ جرات
نہیں کرتا تھا کہ وہ ہلال رمضان کو دیکھے او ر اس کے دل میں اپنے مسلمان بھائی کے
تئیں ذرہ برابر بھی حقد وحسدہو ۔
اس
ماہ مبارک آتے ہی نارو نیران کے دروازے بند اور بہشت و جنان کے دروازے وا ہوجاتے ہیں،
حدیث رسول ہے: اذا کان اول لیلة من رمضان فتحت ابواب الجنة فلم یغلق منھا باب
وغلقت ابواب جھنم فلم یفتح منھا باب، وصفدت الشیاطین وینادی مناد یا باغی الخیر
اقبل ، ویا باغی الشر اقصر ، وللہ عتقاءمن النار وذالک فی کل لیلة،،
یعنی
جب ما ہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور اس کا
کوئی دروازہ بند نہیں ہوتا، جہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں اور اس کا کوئی
دروازہ کھولا نہیں جاتا،شیاطین جکڑ دئے جاتے ہیں، منا دی یہ نداءلگاتا ہے کہ اے خیر
کے خواہاں آگے آ، اور اے بدی کے طلب گار باز آجا،اور اس ماہ کی ہر شب کو اللہ (کچھ
بندوں ) کو جہنم سے نجات کا پروانہ عطا کر تا ہے۔
ہماری
خوش قسمتی کہیے کہ ہمیں وہ با بر کت ماہ پھر نصیب ہورہا ہے جس کے گزر جانے پر سال
گذشتہ ہمیں سخت صدمہ پہنچا تھا، ہم افسردہ و غمگین اور نالاں وحزیں تھے کہ خدا
جانے پھر یہ ذریں موقع نصیب ہوپائے یا نہیں۔
چنانچہ
اس بار ہمیں اپنی کو تا ہیوں سے دامن جھاڑ کر مکمل عزم کے ساتھ اپنا محاسبہ کرنا
چاہئے کہ ہم سال رواں اس ماہ غنیمت کو اپنے نیک اعمال کا ذخیرہ بنا ئیں گے یا پھر
اس بار بھی بدستور اسے رائیگاں جانے دیں گے اور پھر حسرت و ندامت کرنے پر مجبور
ہوں گے۔
رحمت
و برکت ، احسان و مغفرت اور انعام و نعمت والے اس مبارک مہینہ کی ایک عظیم ترین
خصوصیت یہ کہ ہر ماہ کے بالمقابل اس ماہ میں روزہ ایک ایسی مشروع عبادت ہے جس کا
ثواب اللہ نے بے حساب دینے کا وعدہ کیا ہے۔”الا الصوم فانہ لی و انا اجزی بہ یدعی
شھوتہ وطعامہ من اجلی“گویا روزہ کا ثواب بے حساب اس لئے ہے کہ انسان روزہ محض اللہ
کی خوشنودی اور اسی کی رضا جوئی کے لئے رکھتا ہے ، کھانا پینا تج دیتا ہے، شہوت و
عشرت سے باز رہتا ہے اور صرف رضائے الہی کے لئے صبح تا شام بھوک وپیاس کی شدت
وحرارت برضا ورغبت برداشت کرتا ہے۔
اس
منا سبت سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ وہ کون سے مفید وموثر طریقے ہیں جن کے ذریعہ ہم
خوش اسلوبی کے ساتھ اس ماہ کا مکمل فائدہ اٹھا سکتے اور اسے اپنے حق میںبنا سکتے ہیں
؟ تو عرض ہے کہ اس ما مبارک کے پس منظر میں ہر مسلمان کوافراط و تفریط سے بچتے
ہوئے اعتدال و مداومت کی راہ اپناتے ہوئے ہر پل نیکی اور رضا جوئی کے کام میں صرف
کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ، اور اس راہ میں باہم مسابقت کا جذبہ بھی کار فرما ہونا
چاہئے ، اللہ کے اس قول کا یہی مطلوب ہے، ”وفی ذلک فلیتنافس المتنافسون“ باہم سبقت
کرنے والوں کو اس راہ میں سبقت کرنا چاہیے۔
حدیث رسول ہے :
افعلوا
الخیردھرکم، وتعرضوا لنفحات رحمة اللہ،فان للہ نفحات من رحمتہ یصیب بھا من یشاءمن
عبادہ ،وسلوا اللہ ان یستر عوراتکم و یومن ورعاتکم یعنی کہ بھلائی تو ہمیشہ کرو
تاہم رحمت الہی کے حصول کے لئے کوشاں رہو، اس لئے کہ رحمت الہی کے بعض ایسے جھونکے
ہیں جن سے اللہ اپنے چنیدہ بندوں کو سرفراز کرتا ہے ،اللہ سے دعا کرو کہ اللہ تیرے
گناہوں کی پردہ پوشی کرے اور تمہیں مامون ومحفوظ رکھے۔
اس
نعمت عظمی کی بازیابی پر ہمیں درج ذیل چندامور کا بالخصوص لحاظ رکھنا چاہیے اور
انکا اہتمام کرنا چاہیے ۔
۱- دعا:سلف
صالحین کا یہ طریقہ کاررہا ہے کہ اللہ سے دعا کرتے کہ اللہ انہیں ماہ رمضان کی رؤیت
نصیب فرمائے ، اور پھر یہ دعا کرتے کہ اللہ اس ماہ کے اعمال وافعال کو قبول
فرمائے۔
چنانچہ
ہمیں بھی ہلال رمضان کا استقبال نبوی طریقہ اور سلف کے منہج کے مطابق اس دعا سے
کرنا چاہیے کہ :
اللھم
اھلہ علینا بالامن والایمان والسلامة والاسلام ربی ربک اللہ
اے
اللہ ! تو امن وایمان اور سلامتی واسلام کے ساتھ اس چاندکو ہمارے اوپر طلوع فرما،
میرا اور تیرا رب اللہ ہی ہے ۔
۲- حمدوشکر
:امام نوی کتاب الاذکار میں رقمطراز ہیں :”اعلم انہ یستحب لمن تجددت لہ نعمة ظاھرة
او اندفعت عنہ نقمة ظاھرة انا یسجدشکرا للہ او یثنی بما ھو اھلہ“ جان رکھو کہ جس
شخص کو بھی کوئی نعمت نصیب ہوئی یا اس سے کوئی بلاءومصیبت دور ہوگئی تو اس کے لئے
مستحب ہے کہ وہ اللہ کے حضور سجدہ شکر بجالائے یا اس کے شایان اس کی حمدسرائی کرے۔
نقطہ
فکر ہے کہ کتنے ایسے لوگ ہیں جوایک سال قبل اس ماہ مبارک میں صیام وقیام شب بیداری
اور تراویح جیسے عبادات میں ہمارے پہلو بپہلو ہوتے تھے لیکن آج وہ قبر کی اندھیرکوٹھری
میں اپنے کئے کا انجام حاصل کررہے ہیں۔
۳- فرح وسرور
:نبی کریم ﷺسے ثابت ہے کہ رمضان کی آمدپر آپ صحابہ کرام کو بشارت ومبارکبادی دیاکرتے
تھے:
”جاءکم
شھر رمضان، شھر رمضان شھر مبارک“ ماہ رمضان آگیا ، ماہ رمضان مبارک مہینہ ہے ،
صحابہ کرام ، تابعین عظام تبع تابعین اور اسلاف کا بھی یہی طرز عمل رہا ہے کہ ماہ
مبارک کا خاص اہتمام کرتے ، اس کی آمد پر خوش ہوتے ایک دوسرے کو مبارکبادکہتے اور
بھلارمضان سے زیادہ کون ماہ اس کا مستحق ہوسکتا ہے ۔
۴- اس مبارک
مہینہ کو غنیمت جان کر نیک اعمال سے اسے آبادرکھنے کا عزم صادق :جو شخص اللہ کے
وعدہ کو پورا کرتا ہے اللہ بھی اس سے اپنے وعدہ کی تکمیل کرتا اور نیک اعمال میں
اس کی مددکرتا ہے ”فلوصدقوا اللہ لکان خیرالھم“ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم رمضان کا
استقبال کرتے ہوئے اپنے دل میں یہ عزم وارادہ رکھیں کہ معاصی سے ہم اجتناب کریں،
ہر قسم کے گناہوں سے توبہ کر کے دوبارہ ان کے ارتکاب کی جرات نہیں کریں گے ، اس
لئے کہ یہ مہینہ ہی توبہ وانابت اور عفو ومغفرت کا مہینہ ہے اگر اس میں بھی ہم
تائب نہیں ہوئے تو بھلا توبہ کا اور کون ذریں موقع ہوسکتا ہے :”وتوبوا لی اللہ جمیعا
ایھا المومنون لعلکم تفلحون“اے مومنوں تم سب ملکر اللہ سے توبہ کروشاید کہ تم کامیاب
ہوجاؤ
”ان
اللہ یحب التوابین ویحب المتطھرین“گویا محبوب الہی بننے کے لئے توبہ وانابت اور
قربت وعبادت از بس زیادہ ضروری ہے
مختصر
یہ کہ اخلاص نیت کے بعداللہ کی رضا جوئی کی خاطر عبادت وریاضت ،تہجد وتلاوت اور دیگر
نیک اعمال وحسنات کے دست بدست مسلمانوں کے ساتھ شرح صدر،بشاشت طبع، خوش روئی اور
نرم مزاجی کے ساتھ حسن معاملات کرنا ہے، ان کی ضروریات میں انکا شریک ہونا اور
عبادت خالق کے ہمراہ خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہو کر مبارک مہینہ کے مبارک ساعات
کو گزار لینا ہی مرد مؤمن کی کامیابی ہے۔
وہ دیکھ چراغوں کے شعلے منزل سے
اشارہ کرتے ہیں
تو ہمت ہارے جاتا ہے ہمت کہیں ہارے
جاتے ہیں
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق