الثلاثاء، يوليو 31، 2012

سیرت طيبہ کی جھلکیاں 3


الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

اللہ کے رسول ﷺ کی پیدائش سے پچاس یاپچپن دن پہلے مکہ میں ایک ہولناک واقعہ پیش آیا،جانتے ہیں وہ واقعہ کیاہے؟ یہ واقعہ ہاتھی والوں کا ہے.... ابرھہ حبشی ملک حبشہ کی طرف سے یمن کا گورنر تھا، وہ عیسائی تھا، اس نے چاہاکہ مکہ کو جو مرکزیت حاصل ہے اوریہاں دوردور سے لوگ حج کرنے کے لیے آتے ہیں،اِسے یمن کی طرف پھیر دے ۔اِس کے لیے اُس نے یمن میں ایک خوبصورت چرچ بنایااورعربوںکو اُکسایا کہ بجائے مکہ کے وہ یمن کے اِس چرچ کا حج کریں ۔ لیکن اُسے اِس کام میں کامیابی نہ ملی ،بلکہ ایک عرب کو جب اِس کی خبر ہوئی تو اُس نے موقع پاکر رات کے وقت اُس چرچ میں پاخانہ کردیا ،مقصداِس فیصلے کے تئیں اپنی نفرت کا اظہار کرنا تھا ۔ ابرھہ کوپتہ چلا تو بہت غصہ ہوا ، اورمکہ پر حملہ کرکے کعبہ کو ڈھانے کا پلان بنالیا،لیکن اِس مسکین کو کیاپتہ تھا کہ یہ اللہ کا گھر ہے جسے ابراھیم اور اسماعیل علیھما السلام نے اللہ کے حکم سے بنایاتھا ۔ان اول بیت وضع للناس للذی ببکة ۔ دنیا کے بتکدوںمیں پہلا وہ گھر خدا کا ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا۔
اِس طرح ابرھہ انجام سے بے خبر کعبہ کو گرانے کا ناپاک ارادہ لے کر یمن سے نکلا ،اُس کے ساتھ میں ہاتھی بھی تھا ۔ طائف پہنچا ، تو وہاں سے اپنی قوم کے ایک آدمی کو مکہ بھیجا جو مکہ والوں کے اونٹ ہانک کرلے آیا۔ اُس جانورمیں عبدالمطلب کے بھی دو سو اونٹ شامل تھے ۔ عبدالمطلب ابرھہ کے پاس گئے ۔ ....چونکہ یہ اپنی قوم کے سردار تھے ،اس لیے ابرھہ نے ان کی عزت کی اور اپنے پاس بٹھایا۔پوچھا : کس لیے آنا ہوا ؟ عبدالمطلب نے کہا : آپ کی فوج ہمارے دوسو اونٹ ہنکاکر لے آئی ہے .... بس ....اسی اونٹ کے لیے آیا ہوں۔ ابرہہ کہنے لگا:جب میں نے آپ کو دیکھا توآپ سے بہت متاثر ہوا ،لیکن آپ کی بات سنا تو آپ کی عزت ہماری نظر سے جاتی رہی ۔ پوچھا: وہ کیسے ؟ کہا: کیاآپ کو معلوم نہیں کہ ہم کعبہ کو برباد کرنے آئے ہیں .... اِس تعلق سے بات نہ کرکے اپنے اونٹ کے بارے میں بات کررہے ہیں ۔ عبدالمطلب نے برجستہ کہا: انا رب الابل وللبیت رب یمنعہ ” اونٹوں کا....میں مالک ہوں جبکہ اِس گھر کا....میں مالک نہیں....اس گھرکا مالک اللہ تعالی ہے ،وہ خود اس گھر کی حفاظت فرمائے گا “۔
بہرکیف ابرھہ نے عبدالمطلب کے اونٹ واپس کردئیے۔ عبدالمطلب اونٹوںکو لے کر آیا اور سارے لوگوںمیں اعلان کردیا کہ سب لوگ مکہ کو خالی کرکے پہاڑوںاور گھاٹیوںمیں پناہ لے لو کہ ابرھہ کی فوج بہت زیادہ ہے ۔جب یہ لوگ وای محسر پہنچے تو عجب صورتحال پیدا ہوئی ، ہاتھی مکہ کی طرف جانے کے لیے تیار ہی نہیں ، دوسرے کسی بھی سمت لے جایاجاتا ہے تو چلنے لگتا ہے لیکن مکہ کی طرف چلایاجاتا ہے تو بیٹھ جاتا ہے ۔ اورٹس سے مس نہیں ہوتا ۔ سار ی فوج حیران ہے ۔ اب کیاکیاجائے ، اِسی بیچ اللہ پاک نے سمندرکی طرف سے پرندوں کے جھنڈ بھیج دیئے ، ہر پرندے کے پاس تین تین کنکر تھے ،.... ایک چونچ میں .... اور دو پنجومیں ،یہ کنکر چنے اور مسور کے برابر تھے ،پرندے لشکر کے اوپر آتے تو کنکر گرادیتے اور جس کو کنکر لگتا وہ پگھل جاتا،اُس کا گوشت گرنے لگتابالآخروہ مرجاتا ۔.... خود ابرہھ کا یہ حال تھا کہ.... اس کے اعضا کٹ کٹ کر گر رہے تھے ،صنعا پہنچتے پہنچتے اُس کا دل سینے سے باہر نکل آیا،اوروہ ذلیل ہوکر ہلاک ہوا ۔ اِسی واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ پاک نے سورہ الفیل نازل فرمائی:
ألم تر کیف فعل ربک باصحاب الفیل ، ألم یجعل کیدھم فی تضلیل ، وارسل علیھم طیرا ا بابیل ،ترمیھم بحجارة من سجیل ، فجعلھم کعصف ماکول ۔
 ”کیا آپ نہیں جانتے کہ آ پ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا....؟ ،کیااللہ تعالی نے ان کی تدبیر کو ناکام نہیں کردیا ۔؟.... اوراللہ تعالی نے اُن پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دئیے ،جو انہیںمٹی اورپتھر کی کنکریاںمار رہے تھے ،پس انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا ۔ اس طرح اللہ پاک نے اپنے گھر کی حفاظت کی او ردشمنوں کو ذلیل کیا۔ آج بھی کعبہ وہی ہے ،اس لیے کعبہ کے دشمنوں کو ابرہھ کے لشکر سے عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ اُن کا بھی حال ابرہھ کی فوج کا سا نہ ہوجائے ۔
محترم قارئين !آپ نے ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے بارے میں ضرور سنا ہوگا جو اپنے جگرگوشے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار تھے،لیکن کیاآپ کو پتہ ہے کہ محمدﷺ کے پیدا ہونے سے کچھ دنوں پہلے اُن کے باپ عبداللہ کواُن کے دادا عبدالمطلب ذبح کرنے کے لیے تیار تھے ....؟بس دونوںمیںفرق صرف اِتنا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اللہ کے حکم سے اللہ کے نام پر ذبح کرنے کے لیے تیار تھے،جبکہ عبدالمطلب منت مان کربُت کوراضی کرنے کے لیے ایسا کام کرنے جارہے تھے.... لیکن ایسا ہونہ سکا.... کیایہ قصہ معلوم ہے آپ کو .... آئیے سنتے ہیں ۔زمزم جو ننھے اسماعیل اورہاجرہ علیھمالسلام کے لیے جاری ہواتھا۔ہاجرہ علیھا السلام نے اُسے چاروں طرف سے گھیر دیاتھا،ایک زمانہ گذرنے کے بعد کنواں مٹی سے َاٹ گیا،جس کی وجہ سے اُس کا مقام اورجگہ بھی کسی کو معلوم نہ رہی ۔ عبدالمطلب کو اِس کی بہت فکر تھی ،کئی روز اُس نے خواب میں دیکھاکہ وہ زمزم کا کنواں کھود رہا ہے ۔جگہ کی نشاندہی بھی کردی گئی ۔ لیکن عجیب اتفاق کہ اُسی جگہ پر اساف اور نائلہ دو بُت رکھے ہوئے تھے ، عبدالمطلب جب کنواں کھودنے گئے تو قریش مانع ہوئے ،اور لڑنے کے لیے تیار ہوگئے ،عبدالمطلب نے تنہائی محسوس کی تو اُس نے نذر مانی کہ اگر اللہ نے مجھے دس بیٹے دئیے اور پانی کا چشمہ بھی نکل آیا تو ایک بیٹے کو اللہ کے نام پر قربان کردوں گا۔....بہرکیف یہ غالب رہے، زمزم کا کنواں بھی نکل آیا،اوراللہ پاک نے عبدالمطلب کو دس بیٹے بھی دئیے ۔جب سب بیٹے جوان ہوگئے تو عبدالمطلب اپنی منت پوری کرنے کے لیے اپنے سب بیٹوںکو لے کر....کعبہ میں گئے اوربھگوان ہبل کے پاس قرعہ اندازی کی ۔ اتفاق سے قرعہ سب سے چھوٹے بیٹے عبداللہ کے نام نکلا جو عبدالمطلب کو سب سے پیارا تھا ۔عبدالمطلب کو منت تو پوری کرنی ہے ، نہ چاہتے ہوئے بھی عبداللہ کو لے کر قربان گاہ کی طرف چلے ،سارے رشتے دار ایک طرف اور عبدالمطلب ایک طرف .... بالآخرعبدالمطلب کو اِس بات کے لیے راضی کرلیاگیاکہ چلو ہم سجاع نام کی ایک کاہنہ سے رائے لیتے ہیں ۔اِس طرح سب کے سب کاہنہ کے پاس آجاتے ہیں:اوراُس سے سارا ماجرا کہہ سناتے ہیں،اُس نے کہا کہ تمہار ے ہاں ایک آدمی کی دیت دس اونٹ ہے، اِس لیے ایک طرف عبداللہ کو رکھو اور ایک طرف دس اونٹ ....اور قرعہ نکالو،اگر قرعہ عبداللہ پر نکل آئے تو دس اونٹ مزید بڑھاو ،ایسے ہی ....دس دس اونٹ بڑھاتے جاو.... یہاں تک کہ اونٹوں کے نام قرعہ نکل آئے ۔ تجویز عبدالمطلب کوبھی پسندآئی کہ اِس سے عبداللہ کی جان بچ رہی تھی ۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا،لیکن ہربارقرعہ عبداللہ ہی کے نام نکلتا رہا یہاں تک کہ جب اونٹوںکی تعداد سو ہوگئی تب اونٹوں کے نام قرعہ نکل آیا۔ اِس طرح عبدالمطلب نے سو اونٹ ذبح کیے او رعبداللہ کی جان بچ گئی ۔عبداللہ کی جان بچنے کے بعد عبدالمطلب کی خوشی کی انتہا نہ رہی تھی ....عبداللہ چوبیس سال کے ہوچکے ہیں....اُسی وقت عبدالمطلب بنوزہرہ کے سردار وھب کے پاس آتے ہیں،اوراُن سے اپنی بیٹی آمنہ کا اپنے بیٹے عبداللہ کے لیے رشتہ مانگتے ہیں ....اوراتفاق رائے سے شادی بھی ہوجاتی ہے۔ لیکن افسوس.... کہ آمنہ چند مہینے ہی شوہر کے ساتھ رہ سکیں ۔ شادی کے تقریباً ڈھائی تین ماہ گذر چکے ہیں ،آمنہ امید سے ہیں،عبداللہ یثرب کے سفرپر جاتے ہیں توہمیشہ کے لیے وہیںرہ جاتے ہیں،اپنے بیٹے کو بھی دیکھ نہیں پاتے اورآمنہ بیوہ ہوجاتی ہیں ۔ یہی اللہ کی مشیت تھی کہ عبداللہ قربان ہونے سے بچ جائے ،شادی ہو،آمنہ امید سے ہوجائیں ،جب ذمہ داری پوری ہوگئی.... تو اللہ پاک نے.... عبداللہ کو.... اٹھا لیا 

ليست هناك تعليقات: