الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی قائد الغر المحجلین نبینا
محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد
اللہ کے رسول ﷺزندگی کے بیسویں سال میں قدم رکھ چکے ہیں
۔مہینہ ذی القعدہ کا ہے ،اورجگہ عکاظ کا بازار ہے ، دوفریقوں کے بیچ اچانک جنگ ٹھن
جاتی ہے ۔ایک طرف قریش اور کنانہ کے قبائل تھے تو دوسری طرف قیس اورغیلان کے قبائل
، دونوںمیں خوب جنگ ہوئی ،دونوں طرف کے کئی لوگ بھی مارے گئے ،پھر لوگوں نے آپس میں
صلح کرلی ۔ اس جنگ میں اللہ کے رسول
ﷺ بھی تشریف رکھتے تھے ،لیکن کسی پر بذات خود ہاتھ
نہیں اٹھایا۔کیونکہ فریقین کافر تھے اورمسلمانوں کو لڑائی کا حکم اس لیے ہے کہ اللہ
کا بول بالا ہو۔اِس جنگ کو ”جنگ فجار“ کہا جاتا ہے ۔ اس لیے کہ اس مہینے میں حرام مہینے
کی حرمت پامال کی گئی تھی ۔
ابھی یہ جنگ ختم ہی ہوئی تھی کہ کچھ ہی دنوں کے بعد اُسی
مہینے میں ایک دوسرا واقعہ پیش آگیا ۔ یمن سے ایک آدمی مکہ میں سامان بیچنے کے لیے
آیا ہوا تھا ، عاص بن وائل نے اُس سے سامان خریدلیا لیکن قیمت نہیں دی ۔ اُس نے کئی
قبیلوں سے کہا لیکن کسی نے اُس کی طرف دھیان نہ دیا ،تھک ہار کر ابوقبیس پہاڑی پر چڑھ
گیا اور اشعارمیں اپنی مظلومیت کو بیان کیا اورآواز لگائی کہ ”ہے کوئی ہمدرد انسان
جو مظلوم کو اس کا حق دلائے ‘۔ یہ سن کر اللہ کے رسول ﷺ کے چچا زبیر حرکت میں آئے او
رچند قبائل کے لوگوں کو”عبداللہ بن جدعان “کے گھرمیں اکٹھا کرکے باضابطہ میٹنگ کی
۔ جہاں یہ عہد وپیمان لیاگیاکہ مکہ میں جوبھی مظلوم نظر آئے گا چاہے وہ مکہ کا رہنے
والا ہویا کہیں اورکا ....یہ سب اُ س کی حمایت کریں گے ۔ پھر اُس کے بعد عاص بن وائل
سے یمنی کا حق لے کر اُس کے حوالے کیا ۔ اس معاہدے کو حلف الفضول کہتے ہیں یعنی پاکیزہ
لوگوںکا معاہدہ جس میں اللہ کے رسول ﷺنے شرکت کی تھی ،ظلم کے خلاف آواز اٹھایا اورمظلوم
کو اُس کا حق دلانا اللہ کے رسول ﷺ کو اتنا محبوب تھا کہ بعثت کے بعد مدنی زندگی میں
کہا کرتے تھے :
”میں عبداللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدے میں شریک ہوا کہ مجھے اُس کے بدلے سرخ اونٹ بھی پسند نہیں ۔ اوراگرمجھے اس کےلیے دوراسلام میں بھی بلایاجاتا تو ضرور قبول کرتا “۔
جی ہاں! محسن انسایت سماجی انسان تھے ۔سماج کے کمزور انسان
کی خبرگیری اور مددآپ کی زندگی میں کوٹ کوٹ کر پائی جاتی تھی ۔ کہاں ہیں حقوق انسانی
کا دعوی کرنے والے کہ آج انسانیت ماری اور کچلی جارہی ہے لیکن ظالم کا ہاتھ پکڑنے کے
لیے کوئی تیار نہیں ۔آج دنیا عالمی گاوں بن گئی ہے بلکہ کہاجائے کہ عالمی گھر بن گئی
ہے لیکن پھر بھی ظالم دندنارہا ہے ....آخرظالموں کے خلاف حلف الفضول کیوںمنعقدنہیں
ہوتا
معزز قارئين !اللہ کے رسول ﷺبچپن ہی سے عملی زندگی میں
داخل ہوگئے تھے، آپ ﷺ کو والد سے وراثت میں جو کچھ ملا تھا اس سے کچھ ہونے جانے والا
نہیں تھا ۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بنوسعد میں تھے تو رضاعی بھائیوں کے ساتھ بکریاں
چرایاکرتے تھے ، جب مکہ آئے تو وہاں بھی چند قیراط کے عوض مکہ والوںکی بکریاں چرائیں
۔یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ بچپن میں بکریا ں چرانا انبیاءکی سنت ہے ....ایک مرتبہ آپ
نے نبوت کے بعد کہاتھا : مامن نبی الا وقد رعی الغنم ”کوئی بھی نبی نہیں گذرا مگراس
نے بکری ضرور چرائی ہے “۔
جب آپ جوان ہوگئے تو تجارت کرنے لگے ۔ کیونکہ بعض روایات
میں آتا ہے کہ آپ سائب بن ابی سائب کے ساتھ مل کر تجارت کرتے تھے ۔ آپ بہترین ساجھی
تھے ،نہ کسی سے الجھتے اورنہ بحث وتکرار کرتے ۔ معاملات میں امانت داری اور سچائی سے
اِس قدر مشہور تھے کہ لوگوں نے آپ کا نام ہی الصادق الامین رکھ دیاتھا ۔عبداللہ بن
ابی الحمساءایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ
بعثت سے پہلے میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے خرید وفروخت کا کوئی معاملہ کیاتھا ،کچھ معاملہ ہوچکاتھا ،کچھ باقی تھا ،میں نے وعدہ کیا کہ ابھی آتا ہوں، اورمیں بھول گیا،اتفاق سے تین دن تک مجھ کو اپنا وعدہ یاد نہ آیا۔ تیسرے دن جب اسی جگہ پہنچا تو دیکھتا ہوں کہ محمدﷺاسی جگہ پر انتظار کررہے ہیں۔ مجھے دیکھ کر آپ کی پیشانی پر بل تک نہ آیا،صرف اس قدر فرمایاکہ تم نے مجھے زحمت دی ،میں اسی مقام پر تین دن سے موجود ہوں۔
سبحان اللہ ،یہ تھا ہمارے نبی کا وعدہ ۔
یہی شہرت جب خدیجہ ؓ تک پہنچی تو انہوں نے آپ سے گذارش کی
کہ آپ میرے مال میں تجارت کریں ،اورہم آپ کو سب سے اچھی اجرت دیں گے ۔ آپ راضی ہوگئے
اور مال لے کر خدیجہ ؓ کے غلام میسرہ کے ساتھ ملک شام کا سفر کیا ۔وہاںخرید وفروخت
کی ،خوب نفع ہوا ،جب مکہ لوٹے تو پائی پائی کا حساب چکادیا ۔اس سفرمیں خدیجہ کو بھی
بہت فائدہ ہوا تھا ۔ میسرہ نے خدیجہ کو اللہ کے رسول کے اخلاق وکردار کے بارے میں بتایا،پھرانہوں
نے آپ کی امانت اور برکت کا حال دیکھا توانہوں نے محسوس کیا کہ اُن کو اپنا مطلوب مل
چکا ہے ،اس طرح انہوں نے اپنی ایک سہیلی کو آپ کے پاس بھیجا اور اپنی شادی کی خواہش
کا اظہار کیا ۔آپ نے تجویز پسند کرلی ، اورکیوں نہ کرتے کہ خدیجہ قریش کی مالدارترین
خاتون تھیں اور بڑے بڑے سرداروں کی درخواست نکاح کو رد کرچکی تھیں ۔ آپ نے اپنے چچاو
ں سے گفتگو کی ،انہوں نے خدیجہ کے چچا عمروبن اسد کو پیغام بھیجا ،بات طے پاگئی ،اورابوطالب
نے نکاح کا خطبہ دیا۔اس طرح شادی ہوگئی ۔اُس وقت آپ ﷺکی عمر 25 سال تھی اور خدیجہ
ؓ کی عمر چالیس سال تھی ۔
حضرت خدیجہ ؓ اللہ کے رسول ﷺ کی
پہلی بیوی تھیں ،اُن کی زندگی میں آپ نے کسی اورسے شادی نہیں کی ۔ آپ کی تمام اولاد
بھی اُنہیں سے تھی۔ صرف ابراہیم ماریہ قبطیہ سے تھے ۔آپ کی اولاد کے نام پہلے قاسم
،پھر زینب ،پھر رقیہ، پھر ام کلثوم، فاطمہ پھر عبداللہ ۔ آپ کے تمام لڑکے بچپن میں
ہی وفات پاگئے ۔البتہ آپ کی بچیوں نے نبوت کا زمانہ پایا ،اسلام لائیں اور ہجرت بھی
کیں ۔ اورسب کی سب آپ کی زندگی ہی میں انتقال کرگئیں ۔صرف حضرت فاطمہ ؓ آپ کی وفات
کے بعد چھ مہینہ زندہ رہیں ۔
محترم قارئين ! اللہ کے رسول ﷺ کی زندگی کا 35واں سال ہے
۔خانہ کعبہ تعمیر ہورہی ہے،کیونکہ کعبہ کی دیواریں زوردار سیلاب آنے کی وجہ سے پھٹ
گئی تھیں ۔ لوگ اِس کی تعمیر میں اپنی حلال کمائی ہی لگارہے تھے ،اللہ کے رسول ﷺ بھی
پتھر ڈھو ڈھو کر لارہے تھے ۔تعمیر کا کام باقوم نام کا ایک رومی معما ر کر رہا تھا
۔ جب دیوار حجراسود تک اٹھ چکی تو ہر سردار کی خواہش تھی کہ حجراسود کو اس کی جگہ رکھنے
کا شرف اُسے حاصل ہو ۔ اِس پر سخت اختلاف ہوگیا۔چارپانچ روز تک بحثیں چلتی رہیں لیکن
کچھ نتیجہ نہیں نکل رہا تھا اورقریب تھا کہ اسی کے لیے حرم میں خون خرابہ ہوجائے۔لیکن
ابوامیہ ....جو سب میں عمردراز آدمی تھا ....اُس نے کہا : چلو : مسجد حرام کے دروازے
سے جو شخص سب سے پہلے داخل ہو اُسے ہم اپنا حکم مان لیں گے ۔ وہ جو فیصلہ کرے سب کو
قبول کرنا ہوگا ۔لوگوں نے تجویز منظور کرلی ۔اللہ کی میشت دیکھیں کہ سب سے پہلے جو
شخص داخل ہوا وہ محمد ﷺتھے : قریش نے آپ کو دیکھتے ہی کہا: ھذا الامین رضیناہ ،ھذا
محمد ”یہ محمد ہیں جوکہ امین ہیں ،ہم اُن سے راضی ہیں۔ جب آپ اُن کے پاس پہنچے توآپ
کو سارا ماجرا سنایاگیا ۔ آپ ا نے اُس کا یہ حل نکالا کہایک چادر لی ،اُس میں حجراسودکو
رکھا اور سب سرداروں سے کہ اُس کا کنارہ پکڑکر اوپر اٹھائیں ۔سب نے ایسا ہی کیا۔جب
چادر حجراسود کی جگہ پہنچ گئی تو آپ نے اپنے مبارک ہاتھ سے حجراسودکو اس کی جگہ پر
رکھ دیا،یہ فیصلہ اِتنا عمدہ تھا کہ اِس پر سب خوش ہوگئے ....اورجھگڑا ٹل گیا ۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق