الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی قائد الغر المحجلین نبینا
محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد
۹ یا
بارہ ربیع الاول عام الفیل 571 عیسوی سوموار کے دن فجر کے وقت زمین پر عجیب معاملہ
پیش آیا،شیطان کو رجم کیاگیا،آسمان کی نگرانی کی گئی ،کہاجاتاہے(جوصحیح نہیں) ایوان
کسری کے 14 کنگرے گرگئے اورفارس کا آتش کدہ بجھ گیا۔صحیح روایت ہے :حسان بن ثابت کہتے
ہیں : اللہ کی قسم میں سات یاآٹھ سال کا بچہ تھا ،مجھے اچھی طرح یادہے ،میں نے ایک
یہودی کوٹیلے پر بلندآواز سے پکارتے ہوئے سنا : اے یہودیوں کی جماعت!اے یہودیوں کی
جماعت!جب سب اکٹھا ہوگئے تواس نے کہا: تیری ہلاکت ہو: طلع اللیلة نجم احمد،آج کی رات
احمد کا ستارہ طلوع ہوگیا ۔ جی ہاں! یہ تھی انسانی تاریخ کی سب سے بڑی پیدائش ....کس
کی پیدائش ؟ محسن انسانیت رحمة للعالمین کی پیدائش ....آمنہ کہتی ہیں : جب میں امید
سے ہوئی تو خواب میں دیکھا کہ میرے اندر سے ایک نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے
۔ اللہ اکبر .... اس ساعت سے بڑھ کر کونسی ساعت ہوگی جس میں عبداللہ کے یتیم اورآمنہ
کے جگرگوشہ پیدا ہوئے اللھم صل وسلم وبارک علی محمدوعلی آلہ وصحبہ وسلم
پیدائش کے فوراً بعد عبدالمطلب کو خبر دی گئی ،عبدالمطلب
خوشی سے پھولے نہ سمارہے تھے ،دوڑے دوڑے گھر آئے ، پوتے کو لیااور کعبہ میں گئے ،دعائیں
کیں اور لاکر ماں کی گودمیں رکھ دیا ، اورنام رکھا ”محمد“ جی ہاں! محمد! تاکہ ساری
انسانیت ان کی تعریف کریں ....سب سے پہلے آنحضرت ﷺ کو.... آپ کی والدہ نے ،اوردوتین
روز کے بعد ثویبہ نے دودھ پلایاجو ابولہب کی لونڈی تھیں ۔
شرفائے مکہ کا دستور تھا کہ دودھ پینے والے بچوںکو دیہات
وقصبات میں بھیج دیتے تھے تاکہ ان کے پٹھے مضبوط رہیں اور اُن میں فصاحت کا جوہر پیدا
ہو ۔ اِسی روایت کے مطابق دودھ پلانے والی عورتوں کی کھوج شروع ہوگئی۔
قبیلہ ہوازن کی چندعورتیںدودھ پیتے بچے ڈھونڈنے کے لیے
....مکہ آئی تھیں ،لیکن کسی نے محمدا کا رخ نہیں کیا کہ بچہ یتیم ہے ....تحفے تحائف
کیاخاک ملیںگے ....اس طرح سب کو بچے مل گئے....لیکن حلیمہ سعدیہ کو کوئی بچہ نہ مل
سکا .... تھک ہار کرشوہر سے مشورہ کرتی ہیں اور آمنہ کے گھر آکرمحمداکو لے کر چلی جاتی
ہیں ....حلیمہ کو کیاپتہ تھا کہ اُس کی گودمیں محسن انسانیت پلنے جارہے ہیں....بچے
کو لینے کے بعد اُس پر برکتوںکا ایسا دروازہ کھلا کہ دنیا حیرت زدہ رہ گئی ، حلیمہ
کا بیان ہے کہ وہ جب آئی تو قحط سالی کا دورتھا ،اُس کے پاس اِتنی کمزور گدھی تھی کہ
قافلے میں سب سے پیچھے رہتے تھی ، ایک اونٹی تھی جو ایک قطرہ دودھ بھی نہ دیتی تھی
،حلیمہ کا اپنا بچہ بھوک سے بلکتا رہتا ،مگرجب آپ ا کو لے کر ڈیرے پر آئیں اور گودمیں
رکھا تو سینے دودھ سے بھر گئے ،حتی کہ آپ انے بھر پیٹ پیا اورحلیمہ کے بچے نے بھی پیا
....اور دونوں آرام سے ....سوگئے ،.... ادھر شوہر اونٹنی کے پاس گیا تو دیکھتا ہے کہ
اُس کا تھن دودھ سے لبالب ہے ،دونوںنے دودھ دوہااور شکم سیر ہوکر پئے اورآرام سے سوگئے
،۔
مکہ سے واپسی میں حلیمہ اُسی گدہی پر سوار ہوئیں جو اب اِس
قدر تیز چلنے لگی کہ قافلہ والے دم بخود تھے ....قافلے کا کوئی گدہا اُس کا ساتھ نہ
دے پا رہا تھا۔ حلیمہ کا وطن بنوسعد قحط زدہ تھا ....لیکن حلیمہ کی بکریاں چرنے جاتیں
تو ُان کے تھن دودھ سے بھرجاتے جبکہ دوسروں کی بکریوں کے تھن سوکھے ہوتے تھے ۔اِس طرح
میاں بیوی خوب برکتوں سے لطف اندوز ہوتے رہے .... اب دوسال ہوچکا تھا .... مدت رضاعت
پوری ہوچکی تھی ....حلیمہ نے آپ کا دودھ چھڑا دیا ۔ حلیمہ کا دستور تھا کہ ہر چھ مہینہ
بعد محمد اکو مکہ لاتیں اور گھر والوں سے ملاقات کراکر.... پھر لے جاتیں ....جب دوسال
مکمل ہوگئے تو لے کر آئیں ....اُس نے جو خیروبرکت دیکھا تھا اِس بنیادپر آمنہ سے گذارش
کی کہ دوسال اور ہمارے پاس رہنے دیں ....اصرار کرتی رہیں ،منت سماجت کرتی رہیں یہاں
تک کہ آمنہ نے اُن کو اجازت دے دیا ۔
اِسی مدت میں آپ ا کا پیٹ چاک کئے جانے کا واقعہ پیش آتا
ہے ....انس ؓ کہتے ہیں : آپ ا بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ حضرت جبریل امین تشریف
لائے اورآپ کو لٹاکر سینہ چاک کیا ،پھرآپ کا دل نکالااوراس میں سے ایک لوتھرا نکال
کر فرمایاکہ ”یہ تم سے شیطان کا حصہ ہے “ پھر دل کو سونے کی طشت میں زمزم کے پانی سے
دھویا اوراسی جگہ پلٹا دیا....اورسلائی کردی ....آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ دنیا
کا سب سے پہلا کامیاب آپریشن تھا ۔ادھر بچے جو محمدا کے ساتھ کھیل رہے تھے ....ڈرے
ڈرے حلیمہ کے پاس پہنچے اور خبر کی،....وہ لوگ جھٹ پہنچے، ....جب تک سارا معاملہ ختم
ہوچکا تھا،چہرے پر دیکھا تو رنگ اُترا ہوا ہے ۔ انس ؓ کا بیان ہے کہ.... میں نبی اکرم
اکے سینے پر سلائی کا نشان دیکھا کرتا تھا ۔
اس واقعے سے حلیمہ ڈر گئیں اور فوراً محمدﷺکو ماں کے پاس
پہنچادیا۔ آپ اپنی ماں کے سایہ میں پلنے لگے .... دو سال ماں کے ساتھ رہے ،اب چھ سال
کے ہوچکے تھے ، آمنہ کو خیال آیا کہ بچے کو یثرب گھما دیاجائے ، جہاں والد کی قبربھی
تھی اوردادا کا ننھال بھی ....اس طرح آمنہ ‘ دادا ،اورام ایمن کو ساتھ لے کر ےثرب کا
سفر کیا ۔مدینہ میں ایک ماہ رہ کر مکہ کے لیے واپس ہوئے تو راستہ میں آمنہ بیمار ہوگئیں
،اورابوا ءپہنچ کر دنیاسے چل بسیں ....چھ سال کا یتیم بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی باپ
کے سایہ سے محروم ہوچکا تھا ....چھ سال کی عمر ہے کہ ماں بھی چل بستی ہیں ....ماں کو
اپنے سامنے مرتے ہوئے دیکھتا ہے ....اللہ اکبر! تصورکیجئے ....کیا گذرا ہوگا ننھے محمد
پر....ماں ماں سے محروم بچہ مکہ آتا ہے ،بوڑھے عبدالمطلب کو بھی اُس کا بیحد احساس
تھا ،آپ کے لیے اُن کے دل میں ایسی رقت پیدا ہوئی کہ خود اپنے بیٹوںکے لیے بھی ویسی
رقت نہ تھی ....عبدالمطلب کا خاص فرش بچھایاجاتا جس پر کوئی بچہ بیٹھ نہ سکتا تھا
....اگر بیٹھنے کی اجازت تھی تو ننھے محمد کو ....فداک ابی وامی یا رسول اللہ ....عبدالمطلب
آپ کو بہت پیار کرتے ، پیٹ پر ہاتھ پھیرتے اورآپ کی نقل وحرکت دیکھ کر خوش ہوتے اورکہتے
:” آئندہ آپ کی ایک نرالی شان ہونے والی ہے “۔ ابھی آپ کی عمر آٹھ سال دومہینے اوردس
دن ہوئی تھی کہ عبدالمطلب بھی دنیا سے چل بسے ۔
دادا کی وفات کے بعد آپ کے سگے چچا ابوطالب آپ کی کفالت
شروع کردیتے ہیں ۔ دادا ہی کے جیسے ابوطالب آپ کو پیار کرتے اور قریب رکھتے تھے ۔
جب آپ ﷺ12برس کے ہوئے تو ابوطالب نے کاروبارکے لیے شام جانے
کا ارادہ کیا،آپ ﷺکو ان کی جدائی برداشت نہ ہوئی تو ساتھ لے لیا، جب ملک شام کے حدود
میں پہنچے اوربصرہ کے قریب ٹھہرے تو بحیرا نام کا ایک راہب اپنے گرجا گھر سے نکل کر
آیا ،قافلے کے پاس پہنچا اور محمدﷺ کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا : ”یہ دنیا کے سردار ہیں
، اللہ کے رسول ہیں ، اللہ پاک انہیں رحمة للعالمین بناکر بھیجے گا “ ۔لوگوں کو بہت
تعجب ہوا....کہ یہ راہب کبھی اپنے گرجاگھر سے نکلتا نہیں ہے آج نکل کر ایسی ایسی باتیں
بول رہا ہے ....لوگوں نے پوچھا : آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا ؟ اس نے کہا : دیکھو ! تم
لوگ جب گھاٹی سے ظاہر ہوئے تو کوئی پتھر یادرخت ایسا نہ بچا جو سجدہ کے لیے جھک نہ
گیاہو،اوریہ دونوں چیزیں نبی کے علاوہ کسی اور کو سجدہ نہیں کیا کرتیں،پھر دوسری بات
یہ بھی ہے کہ میں اِنہیں مہر نبوت سے پہچانتا ہوں جو اِن کے کندھے کے نیچے نرم ہڈی
کے پاس سیب کی طرح ہے اورہم انہیں اپنی کتابوںمیں بھی پاتے ہیں ۔جی ہاں! اس راہب نے
آپ کو پہچانا تھا اپنی کتابوں کے ذریعہ ....الذین آتیناھم الکتاب یعرفونہ کما یعرفون
ابنائھم ہم نے جن لوگوں کو کتاب دیا ہے یعنی یہودونصاری وغیرہ یہ آپﷺکو ایسے ہی پہچانتے
ہیں جیسے وہ اپنے بچوں کو پہچانتے ہیں ۔ اِسی پر بس نہیں اُس نے پورے قافلے کو کھانا
کھلایااور ابوطالب سے تنہائی میں کہا: دیکھو!انہیں ملک شام مت لے جاو ، واپس بھیج دو
،مجھے ڈر ہے کہ یہوداِن کو نقصان نہ پہنچائیں ۔ یہ سن کر ابوطالب نے آپ ﷺکو مکہ بھیج
دیا ۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق