الاثنين، نوفمبر 10، 2014

رئیس جامعہ امام ابن تیمیہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی حفظہ اللہ کے ایک پر مغز خطاب کا خلاصہ


آصف تنویر تیمی

دنیا ایک اندھیری کوٹھری سے عبارت تھی، انسانیت روشنی کے لیے پریشان تھی.ہر کسی کو انتظار تھا ایسی روشنی کا جو انہیں قعر مذلت سے نکال سکے،اندازہ لگائیے اگر ایک تاریک کمرہ ہو،کہیں سے کسی شعاع تک کا گزر اس کے اندر ممکن نہ ہو، کوئی کھڑکی یا روشن دان بھی موجود نہ ہو.اور سیکڑوں افراد اس کمرے میں ہوں،بھلا اس کوٹھری کا کیا حال ہوگا۔

کچھ ایسا ہی حال طلوع اسلام سے قبل اس دنیا کا تھا.حیوان کیا اس سے بہی بدتر زندگی لوگ گزار رہے تہے.عقائد، عبادات اور معاملات تمام شعبوں میں لوگ افرا تفری کے شکار تھے.

ایسے تاریک زمانے میں اللہ نے اہل دنیا پر رحم کیا، اور ہادی عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قرآن کی شکل میں روشنی عطا کرکے سارے عالم کے لیے مینارہ نور بنادیا.ان کے ذریعہ ہمیں ایسا ٹارچ ملا جس سے کائنات کا اکثر حصہ منور ہوگیا، ظلمت چھٹ گئی، روشنی ہر جگہ عام ہوگئ.جس کے سبب لوگوں نے اپنے آپ کو پہچانا، اپنے رب کو جانا، اپنے نبی کے حقوق کو سمجہا.

ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم مسلمان ہیں، صاحب ایمان ہیں.ہمیں روشنی کا ایسا پاور ہاوس حاصل ہے جس سے دنیا کے بہت سارے لوگ محروم ہیں.یہودیوں کو اس حقیقت کا اعتراف تھا کہ دین اسلام میں ہر مرض کا علاج موجود ہے، مسئلہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کا مناسب حل مل سکتا ہے تو فقط دامن اسلام میں، جیسا کہ حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) اور ایک یہودی کے مکالمے میں موجود ہے.
میرے بھائیوں اور میرے بچوں! قرآن وحدیث کا علم ہی حقیقی علم ہے، اس کے علاوہ سارے علوم مجازی ہیں.
وہ علم ہی کیا جو رب کا عرفان اور رسول کی معرفت نہ دے سکے.آپ بڑے سے بڑے یہودی عیسائی ڈاکٹر انجینئر یا ان کے علماء سے پوچھ لیجئے ان کو غسل اور آب دست تک کا علم نہیں ہوتا، آخر ان کو اس کا علم ہو بھی کیسے جبکہ ان کو یہ چیزیں سکھائی ہی نہیں جاتیں.یہ علم النفس اور دیگر دنیاوی علوم جس میں بسا اوقات قرآن وحدیث سے عاری شخص اپنے کمال کا دعوی کرتا ہے بھلا وہ اس ذات سے زیادہ نفسیات کے راز کو کیسے جان سکتا ہے جس نے اس نفس کو پیدا کیا، جی نہیں، نہیں جان سکتا، ان کی اکثر باتیں تو غلط ہوتی ہیں اور جو تھوڑی بہت مبنی بر حقیقت ہوتی ہیں وہ یا تو کتاب وسنت سے ماخوذ ہوتی ہیں یا اس کی اصل ہمارے پاس وحی الہی یا احادیث رسول کی شکل میں موجود ہوتی ہے جس کے لیے ان ناپاک لوگوں کی تحقیق کی ہمیں چنداں ضرورت نہیں.

علمائے کرام! اللہ نے آپ کو نورانی کتابوں (علم قرآن، علم حدیث) کی تعلیم وتعلم کے لیے چن لیا ہے، اور واضح رہے علم حقیقی یا علم شرعی صرف چند کتابوں کی ورق گردانی کا نام نہیں.بلکہ پورے طور پر ان نورانی کتابوں کے حوالے اپنے آپ کو کردینے کا نام ہے.خاص طور سے عقائد اور عبادات میں کوتاہی سے علم شرعی کا نور حاصل نہیں ہوسکتا.امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے تعلق سے آتا ہے کہ جب کبھی انہیں کوئی مسئلہ نہیں سمجھ میں آتا تو کسی ایسی مسجد کا رخ کرتے جہاں لوگ کم آیا جایا کرتے تھے،وہاں جاکر امام صاحب کبھی اپنے دائیں اور کبھی بائیں گال کو مٹی سے رگڑتے اور دعا کرتے"یا معلم ابراہیم علمنی"اے ابراہیم (علیہ السلام) کے معلم مجھے بھی سکھلا۔
کیا کبھی ہم نے بھی ایسا تجربہ کیا ہے؟ اپنے رب کے حضور اس انداز میں تذلل کے ساتھ کہڑے ہونے کی کوشش کی ہے؟ آپ کے کمروں کے اندر بھی ایسی جگہ مختص ہونی چاہیے جہاں آپ رات کی تاریکی میں اٹھ کر اپنے رب کی عبادت کرسکیں، سنن ونوافل کا اہتمام کرسکیں، یقین جانیے یہ نبوی طریقہ اور سلف صالحین کا وطیرہ رہا ہے۔
علم شرعی کا راستہ کامیابی اور سرفرازی کا راستہ ہے.اللہ نے اس راہ کا راہی ہمیں بنایا ہے تو ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ پورے انہماک اور محنت سے اس نور کو حاصل کریں جس سے دنیا کے شرک وبدعت کی تاریکی کا ہم خاتمہ کرسکیں،دعوت وتبلیغ کا فریضہ بخوبی انجام دے سکیں، قرآن کی لذت اور حدیث کی چاشنی کو ہم محسوس کرسکیں۔
امام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق عربی کا اتنا درک جس سے آدمی کے اندر قرآن وحدیث کی فہم آ سکے واجب ہے.
اس کے علاوہ رئیس وموسس جامعہ ( ڈاکٹر محمد لقمان سلفی حفظہ اللہ ) نے آج فجر کی نماز کے بعد جامعہ کی وسیع وعریض مسجد میں موجود اساتذہ اور طلبہ کو بہت ساری قیمتی نصیحتیں کیں، ان سے ملاقیں کیں، طلبہ گرمجوشی سے کافی دیر تک مصافحہ کرتے رہے اور رئیس جامعہ مسکراتے ہوئے سب کی خبر خیریت دریافت کرتے رہے.
اللہ موصوف کی عمر اور علم میں مزید برکت دے تاکہ جامعہ کا ذرہ ذرہ ان سے اسی طرح استفادہ کرتا رہے.

نوٹ: سابقہ سطور میں ان کی پر مغز تقریر کی محض ادنی ترجمانی کی کوشش کی گئی ہے.اگر اس میں کسی طرح کی کوئی معنوی یا لفظی غلطی ہو تو وہ میری جانب سے تصور کی جائے گی.

هناك تعليق واحد:

Safat Alam Taimi يقول...

اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ آپ علماء کی قدر پہچانتے ہیں، افسوس کہ اس حوالے سے ہماری جماعت میں خشکی پائی جاتی ہے۔