الجمعة، نوفمبر 14، 2014

{جامعہ امام ابن تیمیہ کی عظیم الشان مسجد میں درس بخاری کا انعقاد}

آصف تنویر تیمی

بانی جامعہ کی مبارک تشریف آوری کی وجہ سے جامعہ خوشیوں سے نہا رہا ہے.جامعہ کے جملہ متعلقین میں عجب قسم کی امنگیں دیکہنے کو مل رہی ہیں.ہر طرف سے علم وہنر کی باد بہاری چلتی محسوس ہورہی ہے.متنوع قسم کے علمی اور ثقافتی پروگراموں کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے.درس قرآن، درس حدیث اور خطاب عام سے جامعہ کی کل فضا معطر ہے.
اسی سلسلے کی ایک کڑی گزشتہ کل کا درس بخاری بہی ہے.جو کہ جہاں ایک طرف محترم بانئی کے لیے صدقہ جاریہ ہے تو وہیں طلبہ جامعہ کے ایک انمول علمی سرمایہ.اس درس میں جامعہ کےآخری سال کے تمام طلبہ اور طالبات نے حصہ لیا.قرآن مجید کے بعد دنیا کے سب سے صحیح کتاب "بخاری شریف"کی پہلی اور آخری حدیث کا سبق اپنے مربی اور عالم اسلام کے معروف عالم دین ڈاکٹر محمد لقمان السلفی حفظہ اللہ سے اخذ کیا.تقریبا تیس سے زائد طلبہ اور طالبات نے یک بعد دیگرے بخاری شریف کی پہلی یا تو دوسری حدیث کو پڑہا. ڈاکٹر موصوف پوری تن دہی سے سبہوں کی قرات سنتے رہے اور حسب ضرورت اصلاحات بہی کیں.
ویسے تو اس درس کے اصل مخاطبین اس سال جامعہ سے فارغ ہونے والے طلبہ اور طالبات ہی تہیں مگر درس کی اہمیت اور اس کی افادیت کی خاطر وسیع وعریض مسجد اساتذہ جامعہ اور طلبہ جامعہ سے اٹی ہوئی تہی.
حدیثوں کی خواندگی کے بعد ڈاکٹر موصوف نے اپنے خاص علمی انداز میں درس کا آغاز کیا، چونکہ وقت کافی گزر چکا تہا اس لیے انہوں نے اختصار کو اپنے سامنے رکہتے ہوئے اپنے طلبہ(بیٹے) طالبات (بیٹیوں) کو حدیث سے مستفاد چند نہایت قیمتی باتیں بتلائیں.انہوں نے کہا:ہر چہوٹے بڑے نیک عمل اور عبادت کے لیے نیت صالحہ کا پایا جانا ضروری ہے.بلکہ حدیث کی زبانی تمام تر اعمال کا دار مدار نیت کی سلامتی پر ہے.اس لیے امام بخاری نے اپنی کتاب کے اندر پہلی جو حدیث نقل کی وہ نیت کی اصلاح سے متعلق ہے جس کے ذریعہ وہ لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ بلا نیت کسی عمل کا کوئی شمار وقطار نہیں.خاص طور سے طلبہ اور دعاة اپنے فرائض کی انجام دہی میں نیت کی پاکی کا خاص خیال رکہیں.
اس کے بعد آخری حدیث کی شرح میں بہت سارے علمی وفنی حقائق کا انکشاف کیا. جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مسلمان کو اپنی زندگی کو عمل سے آباد رکہنی چاہیے، عبادات سے کبہی غفلت اختیار نہیں کرنی چاہیے.اور اگر آدمی حسن نیت کے ساتہہ عمل پیہم کرتا رہے تو ان شاء اللہ وہ اللہ کی رحمت اور توفیق سے جنت کا حقدار ہوسکتا ہے جیسا کہ امام بخاری کی حدیث سے پتا چلتا ہے.
خاص طور سے ذکر و اذکار اور توبہ واستغفار سے بندے کا کوئی پل خالی نہیں ہونا چائے کیونکہ اس کے ذریعہ ایک مسلمان کو وہ چیزیں حاصل ہوتی ہیں جس کی اسے امید بہی نہیں ہوتی.اس ضمن میں قرآن وحدیث کے نصوص کے علاوہ ڈاکٹر موصوف نے امام احمد (رحمہ اللہ) کی زندگی کا ایک سبق آموز واقعہ بہی ذکر کیا.
ایک مرتبہ امام احمد(رحمہ اللہ) کہیں جارہے تہے، رات ہوگئی، رات گزارنے کی خاطر پرانے زمانے کے مطابق قریب کی ایک مسجد کا رخ کیا. مسجد کا متولی کچہہ بد اخلاق اور جاہل قسم کا تہا.نماز کے بعد جب اسے امام موصوف کے ارداے کا پتہ چلا تو وہ اس امر پر راضی نہ ہوا کہ وہ مسجد میں ٹہریں، کہینچ کر اس بدبخت نے امام احمد(رحمہ اللہ) کو مسجد سے باہر نکال دیا.اسی درمیان ایک شخص کا گزر ہوا اس نے یہ سارا ماجرا قریب سے دیہکا اسے امام صاحب پر بڑا ترس آیا (واضح رہے کہ یہ شخص اور نہ مسجد کا متولی امام صاحب کا پہچانتا تہا، اور نہ امام احمد (رحمہ اللہ) نے اپنے بارے میں کچہہ بتایا تہا) اس نے امام صاحب کو اپنے ساتہہ چلنے پر آمادہ امام صاحب کو تو رات گزارنی تہی تیار ہوگئے.آپ کو لے جانے والا شخص پیشے کے اعتبار سے ایک نان بائی تہا.وہ بڑی محبت کے ساتہہ اپنے ساتہہ لے کر گیا، اپنی دکان جہاں وہ کام کرتا تہا آپ کی راحت کا سارا انتظام کیا،اور اپنے کام میں مصروف ہوگیا.
آپ نے(امام صاحب) دیکہا کہ ان کا میزبان(نان بائی) روٹی بیلتا ہے، آگ میں ڈالتا ہے، نکالتا ہے.اور اپنے ہر عمل کے ساتہہ کثرت سے"استغر اللہ"کا ورد کرتا ہے.امام احمد(رحمہ اللہ) دیر تک اس کا جائزہ لیتے رہے اور اخیر میں سوال کیا، اے میرے بہائی! ذرا یہ تو بتلاو جو یہ تم بار بار "استغر اللہ"پڑہہ رہے کیا اس کا فائدہ بہی تمہیں ہوا ہے؟ اس نے کہا اے مسافر آدمی سنو! میرے اس کثرت استغفار کی وجہ سے اب تک میں نے جو دعائیں اللہ سے کی ہیں ساری قبول ہوئیں سوائے ایک خواہش کے.امام صاحب نے پوچہا وہ خواہش کون سی ہے؟ تو اس نے بتلایا میں نے اللہ سے دعا کی ہے کہ:میری موت اس وقت تک نہ آنے جب تک ان آنکھوں سے میں امام احمد بن حنبل (رحمہ اللہ) کو نہ دیکہہ لوں.
جب امام موصوف نے یہ بات سنی تو ان کی آنکہیں چہلک پڑہیں اور کہا لو یہ خواہش بہی تمہاری پوری ہوگئ.پہر تفصیل سے بتلایا کہ میں ہی امام احمد بن حنبل(رحمہ اللہ) ہوں.قربان جائے آدمی اس عالی مرتبت امام کی تواضع اور خاکساری پر.
اس واقعہ کے ذریعہ ڈاکٹر موصوف سامعین کو عمل صالح اور اوراد وظائف پر ابہارنے کی کوشش کررہے تہے، ساتہہ ہی انہوں نے اپنی پوری تقریر کا خلاصہ اور پیغام اس واقعہ کو قرار دیا.
اس کے بعد ہمارے ممدوح ڈاکٹر صاحب حفظہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کی زندگی کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی، علم حدیث کے باب میں ان کی لازوال قربانیوں اور خاص طور سے شہر بخاری کی پریشانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی آنکہیں ڈبڈبا گئیں.انہوں نے برملا اپنے اس خیال کا اظہار بہی کیا کہ اسلاف کے تذکرے اور سوانح حیات کے مطالعے سے مجہے یہ اندازہ ہوا کہ صحابہ کے بعد اس دنیا میں اب تک امام بخاری(رحمہ اللہ) سے بڑا انسان نہیں گزرا (انہوں نے اس کو محض اپنی ایک ذاتی رائے سے تعبیر کیا)
اس کے علاوہ انہوں نے سفیان ثوری(رحمہ اللہ) اور دیگر محدثین عظام اور فقہائے کرام کی خدمات حدیث و فقہ کی طرف بہی اشارہ کیا.
اس طرح دعاوں کے ساتہہ اس عظیم الشان کتاب کا شاندار درس پایہ تکمیل کو پہنچا، طلبہ نے اپنے مربی اور استاذ سے ملاقات کی، مصافحہ کیا، اور خبر وخیرت کی دریافت کے ساتہہ علم وعرفان کے پروانوں کا یہ قافلہ اپنے اپنے نشیمن تک جاپہنچا.
اللہ تعالی جملہ مشارکین کو حسن عمل کی توفیق بخشے اور ہم سب کے مربی اور گارجین محترم ڈاکٹر موصوف کو اللہ صحت وایمان کے ساتہہ لمبی عمر عطا کرے تاکہ دیر تک ہم ان سے خوشہ چینی کرسکیں.
سدا آباد رہے چمن یہ ہمارا.

ليست هناك تعليقات: