الجمعة، نوفمبر 14، 2014

{ DML PUBLIC SCHOOL کا دوسرا سالانہ تعلیمی کانفرنس }



{آصف تنویر تیمی}

آج بتاریخ 12/نومبر 2014 کو جامعہ امام ابن تیمیہ بہار کے زیر اشراف چل رہے DM L PUBLIC SCHOOL کے وسیع وعریض آنگن میں یک روزہ دوسرے تعلیمی کانفرنس کا شاندار افتتاح اسکول کے ہی ایک طالب علم زاہد انور کی تلاوت کلام پاک سے ہوا.اس کے بعد نازیہ نے اپنی سہیلیوں کے ساتہہ اسکول کا ترانہ بڑے ہی خوبصورت اور اچہوتے انداز میں پیش کیا.پہر یک بعد دیگرے ڈاکٹر ارشد مدنی حفظہ اللہ نے خطبہ استقبالیہ، مولانا ظفیر عالم سلفی نے تعیلم کے میدان میں جامعہ اور اس کے جملہ شعبہ جات کی کارکردگی کی ایک جہلک، ماسٹر مشتاق احمد شیدا نے انگریزی زبان میں DLM کا تعارف، شیخ مصطفی مدنی نے جونیئر ماڈل اسکول کا تعارف پیش کیا.
اس کے بعد اسکول کے بعض طلبہ نے اردو، انگریزی، ہندی اور سنسکرت زبانوں میں اپنی اپنی نمائندہ تقاریر سے سامعین کو محظوظ کیا.جن طلبہ نے اس میں حصہ لیا ان میں نوشاد، عبد اللہ، شازیہ، عقیل طارق، انچل کماری، عاصم پرویز، سندیش کمار، مریم شاہین وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے.
اس موقع سے علم کی اہمیت وافادیت پر مبنی دو ڈرامے بہی سٹیج کیے گئے، جسے لوگوں نے کافی پسند کیا.پہلے ڈرامہ میں یہ دکہانے کی کوشش کی گئی تہی کہ اگر آدمی جاہل اور ان پڑہہ ہو تو اس کو زندگی کے مختلف مراحل میں کن کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طور سے نوکری اور دوران سفر کی پریشانیاں بڑی تکلیف دہ ہوتی ہیں.دوسرے ڈرامے کا لب لباب یہ تہا کہ بچیوں کی تعلیم بہی بچوں کی تعلیم کی طرح اہم اور ضروری ہے.ہوسکتا ہے بسا اوقات گہر کے افراد بہی غلط فہمی کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت کریں.مگر ان کو اگر علم کی اہمیت باور کرائی جائے تو وہ بہی حصول علم کے لیے تیار ہوسکتے ہیں.
اس کے بعد اس پروگرام میں شامل مہمانوں نے اپنے اپنے تاثرات کا کہل کر اظہار کیا.جناب پون کمار جیشوال، جناب نوشاد عالم صاحب نے صاف لفظوں میں ڈاکٹر محمد لقمان سلفی حفظہ اللہ کی جملہ کوششوں کو سراہتے ہوئے ان کی جم کر تعریفیں کیں، اور جامعہ اور اس سے منسلک تمام شعبوں کی مدد کی کامل یقین دہانی کرائی.انہوں نے پوری وضاحت سے کہا کہ ملک کو اس جیسے اور اسکولوں اور یونیورسیٹیوں کی ضرورت ہے تاکہ بہارت کا پچہڑا ہوا یہ علاقہ تعلیم کے میدان میں ترقی کرسکے.سامعین نے ان کی باتوں کی تائید میں اپنے ہاتہوں کو لہراتے اور تالیوں سے حوصلہ بخشتے رہے.اس کانفرنس میں تشریف لائے سینئر تیمی اور "ہمارا سماج"اردو کے اڈیٹر جناب ڈاکٹر خالد برکت اللہ تیمی نے بہی زور دار انداز میں بانی جامعہ کی تاریخی قربانیوں کا جذباتی انداز میں تذکرہ کیا، اور اس بات پر افسوس کا بہی اظہار کیا کہ اس عالمی شخصیت کو اب تک اپنی قوم، علاقے اورملک سے وہ پزیرائی نصیب نہیں ہوئی جس کے وہ حقدار تہے یا ہیں.
کانفرنس کے اخیر میں اپنے صدارتی کلمات کے ساتہہ بانی جامعہ جناب ڈاکٹر محمد لقمان سلفی حفظہ اللہ مائک پر حاضر ہوئے.ان کی تشریف آوری پر پنڈال کے طول وعرض میں بیٹہے بزاروں لوگوں نے تالیوں کی گڑ گڑاہٹ کے ساتہہ ان کا شایان شان استقبال کیا.اس عبقری شخصیت نے اپنی باتوں کی ابتدا حمد وصلاة سے کی اور مختصر وقت میں دو تین اہم باتوں کی طرف اشارہ کیا جس کی تفصیل کے لیے وقت درکار ہے.موصوف نے اپنی زندگی کا نچوڑ بیان کرتے ہوا کہا کہ ہزاروں کتابوں کے مطالعے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ علم ہی انسان کی بلندی اور ترقی کا راز ہے.علم انسان کو عزت وقار عطاکرنے کے ساتہہ ساتہہ اس کے اندر تہذیب وتمدن بہی پیدا کرتا ہے.پہر ڈاکٹر موصوف نے اپنی باتوں کی تائید میں امریکہ کے پہلےصدر ابراہیم لنکن کی زندگی کے کئی سنہری واقعات پیش کیے. جنہیں سامعین ہمہ تن گوش سماعت فرماتے رہے.اس کے علاوہ بہی انہوں نے بہت ساری قیمتی نصیحتیں طلبہ وطالبات اور عام سامعین کو کیں.
اس طرح یہ بے مثال کانفرنس پوری کامیابی کے ساتہہ اپنی انتہا کو پہنچی. نائب رئیس جامعہ جناب ڈاکٹر ارشد فہیم مدنی نے اس کانفرنس کے اختتام کا اعلان کیا.
واضح رہے کہ اس پورے پروگرام کی نظامت برادرم ابراہیم سجاد تیمی نے شروع سے اخیر تک انگریزی زبان میں کی.اور اس کانفرنس کو کامیابی کی سیڑہیوں تک پہنچانے میں جن ہستیوں نے رات دن ایک کیا ان میں ہمارے دو بہائیوں کا نام سر فہرست ہے اس سے میری مراد جنرل ڈائرکٹر آف جامعہ امام ابن تیمیہ اور DLM PUBLIC SCHOOL جناب عبد الرحمن تیمی اور ان کے مضبوط بازو عربی وانگریزی کے ساتہہ ہندی واردو کے باکمال ادیب جناب اسد الرحمن تیمی صاحبان ان دونوں کی جتنی بہی تعریفیں کی جائیں کم ہیں.ہم لوگوں کو جو کچہہ دیکہنے اور سننے کو ملا وہ انہی دونوں کے خوابوں کی خوبصورت تعبیر تہی.اللہ انہیں سلامت رکہے، اور ان کے تمام مصاحبین اور کارکنان کو بہی.
نوٹ: میں نے پروگرام کی یہ مختصر رپورٹ اپنے ان بہائیوں کے لیے تیار کی ہے جو جامعہ کے ایک ایک اینٹ سے محبت کرتے ہیں، اس کی تعمیر وترقی کے لیے ہمہ وقت دست بدعا ہوتے ہیں مگر خوشی کے اس قسم کے لمحات سے کسی وجہ سے وہ محروم رہتے ہیں.

ليست هناك تعليقات: