الأربعاء، أكتوبر 29، 2014

غزل
ساگر تیمی
وہ جو کہدے وہی ایمان نہیں ہو سکتا
کوئي قول نبی قرآن نہیں ہو سکتا
تیرے چہرے پہ تعجب کی لکیریں ہیں غلط
تو بھی اس بات سے انجان نہیں ہو سکتا
اتنی خوبی سے اجالے کو اندھیرا لکھا
ہوگا انسان وہ شیطان نہیں ہو سکتا
اور اک بات کی چاہیں  تو ضمانت لے لیں
لینے والا کبھی ذیشان نہيں ہو سکتا
 چاند کے بن بھی یہ  رات چمک سکتی ہے
ہاں مگر صبح کا امکان  نہيں  ہو سکتا  
بس اسی آس میں برسات کا موسم گزرا
مینہ برس جائے گا نقصان نہیں ہو سکتا
اور اک بات ہے ساگر کہ دعا لگ جائے
ہاں مگر ہر کوئي دھنوان نہیں ہو سکتا


ليست هناك تعليقات: