الأربعاء، أكتوبر 22، 2014

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم: ہندو دانشوروں کی نظر میں


محمد ابراهيم سجاد التيمي 

کائنات انسانی کا وہ مقدس ترین گروہ جس کا انتخاب، رب کائنات نے اپنے پسندیدہ دین ومذہب اسلام کی تبلیغ وتشہیر کے لئے فرش گیتی پر بودوباش کرنے والے تمام انسانوں کے دلوں میں نظر ڈالنے کے بعد کیا، وہ بے شک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ہی گروہ تھا۔ وہ پاکیزہ ترین انسانی جماعت جس کو خالقِ کائنات نے دنیا کے بتکدوں میں توحید الٰہی کی شمعیں روشن کرنے کے لئے چنا، وہ جماعت یقینا صحابہ کرام کی تھی۔ وہ تقدس مآب کاروانِ حق جس نے مخلوق کا رشتہ خالق سے استوار کیا، جہالت ونادانی کی کمین گاہوں کو علم وفن کے گل کدوں میں تبدیل کردیا، شرک وبت پرستی کی آماجگاہوں کو وحدانیت باری تعالی کی قرارگاہوں میں بدل دیا، مظلوم ومقہور انسانیت کے خارزاروں کو عدل وانصاف کا گلستاں بنادیا اورپہلی بار عالمی سطح پر رب کریم کی معرفت ووجدان کا پیغام عام کیا، وہ صحابہ کرام کے کاروانِ حق کے علاوہ بھلا اور کون تھا؟ وہ قافلہ انسانی جس نے فساد وبدامنی کے آتش کدوں کو امن وآشتی کا چمن زار بنادیا، اوہام پرستی کے طوفان بلا خیز کا رخ موڑدیا، کاشغر،سے لے کر اقصائے چین تک کلیساں، ہیکلوں، آتش کدوں اوربت گاہوں میں اذانیں دیں اور جس نے صحرائے افریقہ اورمرغزارِ یورپ وآسٹریلیا میں نمازیں پڑھیں، وہ بے شک صحابہ کرام ہی کا قافلہ تھا۔ انسانوں کی وہ ٹولی جس نے نفرتوںکی جگہ محبتیں تقسیم کیں، عداوت ودشمنی کے خاروں کو الفت کے پھولوں کی ادائیں دیں، بغض وحسد کے جوالا لکھی کو رافت ورحمت کی گھٹاوں سے ٹھنڈاکیا، تکلف وتصنع اور بے مروتی کو حق گوئی وبے باکی اور صدق مقالی ومروت کا بانکپن دیا اوراپنی بے پناہ تواضع و خاکساری، صبر وشکیبائی، حق پرستی وامانت داری، شجاعت وبہادری، زہد ورع، حُب الٰہی وحب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں فنائیت، اخلاقِ فاضلانہ وکردارِ کریمانہ میں یکتائی، راہِ حق میں فدائیت اور رب کریم سے کامل وفاداری جیسے اوصافِ حمیدہ کی قیمت پر”رضی اللہ عنہم“ کی دستارِ فضیلت حاصل کی، وہ صحابہ کرام کی ٹولی کے علاوہ کوئی اورانسانی ٹولی بلاشبہ نہیں تھی اورنہ ہوسکتی تھی۔بہ الفاظِ دیگر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس بے مثال اوربرترمعاشرہ کی تشکیل فرمائی تھی، اس کا اولین نمونہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی تھے۔ یہ ایسے افراد تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضِ صحبت سے شرفِ انسانی کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ جن کا ہرفرد تقوی وطہارتِ قلبی، عدل ودیانت اوراحسان وخوفِ الٰہی کا پیکر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خود رب کائنات نے قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر متعدد پیرایوں میں ان کی مدح سرائی فرمائی بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ قرآن کریم کی جس بھی آیت کریمہ میں مومنین کی تعریف وتوصیف کی گئی ہے، اس کا مخاطب اول اور جہاں کہیں بھی جزاءحسن کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے، اس کا حقدارِ اولین وہی صحابہ کرام ہی تھے۔
یہ اور بات کہ اغیار توخیر سے اغیار تھے اور ہیں لیکن خود مسلم امت کی آستینوں میں ہر دور اور ہر زمانہ میں ایسے سانپ پلتے رہے اورآج بھی پل رہے ہیں جنہوں نے، انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد کائنات ہستی کے پاکباز ترین گروہِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جسدِ عدالت وثقاہت اورجسم عفت وپاکبازی میں ڈنک مارتے رہے اورماررہے ہیں۔ تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے موجود ہ دور میں بھی یہ دھرتی ایسے حق پرستوں سے خالی نہیں ہے جن کے دلوں میں صحابہ کرام کی محبت والفت اورعقیدت کی جوتی روشن ہے۔ وہ سیدنا ومولانا محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کی لائی ہوئی شریعت کے پیروکار نہ ہونے کے باوجود، ان کی عظمت ورفعت کو دل کی گہرائیوں سے قبول کرتے اوران کی اتباع وپیروی کو وقت کی سب سے بڑی ضرورت قرار دیتے ہیں۔ ذیل کی سطور میں ہم چند ایسے ہی ہندو دانشوروں کے خیالات واقوال بغیر کسی توضیح اورتبصرہ کے نقل کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں جن کی روشنی میں صحابہ کرام کی رفعت مقامی واضح ہوکر سامنے آجائے گی:
-1ہفتہ واری ہندی اخبار”چوتھی دنیا“ کے مدیر مسل اورسابق ممبرپارلیامنٹ سنتوش بھارتیہ کہتے ہیں: آج ہم مشکلات و مسائل سے چاروں طرف سے گھرے ہوئے ہیں، کسی پر یقین واعتماد کے لئے مصیبت کی گھڑی ہے، کسی کا کسی پر بھی بھروسہ نہیں ہے تو ہم کیسے جانیں کہ اچھے دن آئیں گے؟ سماج ومعاشرہ میں بزرگوں کی قدر وعزت نہیں، نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہا ہے اور عورت اپنا حصہ نہیں پارہی ہے جس کی وجہ سے انسانیت کے بنیادی اصول وقوانین بھی خواب جیسے لگنے لگے ہیں۔ ایسے وقت میں جن لوگوں کی سیرت وتعلیمات یاد آتی ہےں، ان میں پیغمبر محمدصلی اللہ علیہ وسلم سب سے اہم ہیں۔ میں مسلمان نہیں ہوں لیکن مجھے اسلام سے انسانیت کی خوشبو نکلتی دکھائی دے رہی ہے۔ جب ہم محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اوران کے عظیم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں کو دیکھتے ہیں تو پاتے ہیں کہ انہوںنے اوران کے ساتھیوں نے نوجوانوں کو اس بات کی ٹریننگ دی کہ وہ مذہبی اوردیندار بنیں، انسانیت کے خیر خواہ بنیں، اپنے فرائض ایمانداری کے ساتھ ادا کریں، ذمہ دار بنیں اور سماج کی فلاح وبہبود میں مشغول رہیں۔
2- شوبھت یونیورسٹی کے پروچانسلر جناب کنور شیکھر وجیندر لکھتے ہیں کہ پیغمبر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اوران کے صحابہ کرام نے تعلیم کی اہمیت وافادیت کو اجاگر کرنے پر خصوصی توجہ صرف کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی اسلامی مملکت کے حکمراں کے طور پر انہوں نے تمام لوگوں -بلااختلافِ مرد وزن-پر تعلیم حاصل کرنا فرض قرار دیا۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ تعلیم کو عام کرنے کے لئے انہوںنے مدینہ میں دنیا کی پہلی مخلوط حکومت قائم کرنے کے بعد یہ اہم اعلان کیا اورمدینہ میں ان کی حکمرانی کے دوسرے سال ہی سے اس اعلان پر عمل در آمد شروع ہوگیا۔
پیغمبر محمدصاحب(صلی اللہ علیہ وسلم) کے انتقال کے بعد ان کے عظیم صحابہ کرام نے تعلیمی امور پر خصوصی توجہ صرف کرنے کے معاملے میں ان کی پوری طرح اتباع وپیروی کی ۔ تاریخ گواہ ہے کہ پیغمبر محمد صاحب کے کچھ عظیم ساتھی ہندوستان کے مالابار کے علاقہ میں پیغمبر صاحب کی زندگی ہی میں آئے اوروہاں تعلیم کی روشنی پھیلانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ ابتدائی تعلیم بلکہ اعلیٰ تعلیم کے معاملے میں بھی کوششیں کیں اورکچھ عالمی سطح کے تعلیمی مراکز بھی قائم کئے۔ کیرل کے پُنانی اوردوسرے مقامات پران کے کھنڈرات اب بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
پیغمبر محمدصاحب اوران کے ساتھیوں کے لئے تعلیم، انسانی سماج کی نجات اورجہالت ونادانی اوردوسری سماجی برائیوں میں ملوث انسانی سماج کو بچانے کا ایک اثردار ذریعہ ووسیلہ تھی۔ پیغمبر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے اصحاب نے جس تعلیم کو عام کرنے کی کوششیں کیں، اس کا مقصد اولین ایک آدمی کو مکمل طور پر مثالی انسان بنانا تھا۔ ان کی نظرمیں تعلیم کی غایت شرفِ انسانی کی بنیاد پر ذاتی اخلاق وخصائص کو بلند وبالا کرنا تھی، ان کی تعلیم جس چیز سے عطر بیز ہوتی اورسمت وجہت حاصل کرتی تھی، وہ مکمل طور پراصولِ تعلیم ہی تھا۔ کاملیت کا یہ اصول، ان کی تعلیمات کا اہم ترین مقصد تھا جس سے ایک مثالی انسان کی تعمیر ہوتی تھی۔ پیغمبر محمد صاحب کے عظیم صحابیوں کی اتباع وپیروی کرتے ہوئے پورے انسانی معاشرہ کو صحیح طریقے سے ایسے تعلیم دی جائے جو مکمل ہو، ایسا کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
3- تنظیم ” ایودھیا کی آواز “کے منتظم کار جناب یُگل کشور شاستری کہتے ہیں کہ اسلام دھرم کے پیغمبر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے اصحاب کی اچھائیوں اور حسنِ اخلاق کا مطالعہ کریں تو ہمیں تمام طرح کی اچھی ترغیب ملتی ہے۔ محمدصاحب تختِ نبوت ورسالت پر متمکن ہونے سے پہلے ہی اچھے، نیک اوردریادل عظیم انسانوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ ان کی نظر میں نہ کوئی بلند وبالاتھا اور نہ نیچ۔ بچپن سے ہی ان کا اخلاق سب کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا۔ انہوںنے تجارت میں بھی نیکی اورسچائی کی راہ نہیں چھوڑی، وہ لین دین کے معاملات میں بھی نہایت کھرے تھے۔ ان کی اوران کے عظیم صحابیوں کی سیرت ہمیں خوش مزاج اورانسانیت پر مبنی زندگی گزارنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ان کے تئیں محبت وعقیدت رکھنے اور ان کی اتباع وپیروی کرنے سے زندگی کی ساری برائیاں ختم ہوجائیں گی۔
4- مشہور ومعروف آریہ سماجی جناب سوامی اگنی ویش جی کہتے ہیں کہ میں اسلام کے پیغمبر اوران کے ہرصحابی کا معتقد ومرید ہوں۔ میں محمد صاحب کو اس لئے یاد کرتاہوں کہ انہوںنے توحید کی دعوت دی جو دینا کی تمام برائیوں کو ختم کرسکتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اسلام کے قوانین اوراصولوں پر عمل کرنے کے لئے پوری دنیا بے قرار وبے تاب ہے۔ اصحاب محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسی توحید کی دعوت پوری دنیا کودی اورپورے انسانی معاشرہ کے عروج وترقی کے لئے اپنی بیش قیمت زندگیاں کھپادیں۔ آج انہیں عظیم انسانوں کے خلاف دوہرے پن کا کھیل کھیلا جارہا ہے جسے ختم کرنا بے حد ضروری ہے۔
5- جین دھرم کے گرو جناب پروفیسر انیاکانت جی کہتے ہیں کہ پہلے میں سمجھتا تھا کہ عدمِ تشدد کا سبق دنیا والوں کو صرف جین دھرم نے ہی پڑھایا ہے لیکن جب میں نے قرآن اورحدیث کا مطالعہ کیا تو میری یہ رائے ختم ہوگئی۔ محمدصاحب(صلی اللہ علیہ وسلم) کے اقوال وارشادات کو پڑھنے کے بعد مجھے معلوم ہو اکہ اسلام دھرم سراپا عدمِ تشدد کا دھرم ہے بلکہ عدم تشدد کا سب سے بڑا مبلغ یہی اسلام ہے۔ اسی عدم تشدد کے عقیدہ کو لے کر محمدصاحب کے عظیم صحابہ اٹھے اورپوری دنیا کو عدم تشدد کا سبق پڑھایا۔
6- سوامی اومکارانند شنکر اچاریہ جی کہتے ہیں کہ اسلام دھرم لوگوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتا بلکہ جوڑتا ہے۔ قرآن کسی مخصوص ذات برادری یاکسی مخصوص مذہب کے لوگوں کا نہیں بلکہ دنیا کے ہرانسان کا مقدس گرنتھ ہے۔ جو بھی قرآن کا گہرا مطالعہ کرکے اس کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا زیور بنائے گا، وہ دیکھ لے گا کہ اسلام جوڑتا ہے توڑتا نہیں۔ اسلام میں تشدد کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ محمد صاحب (صلی اللہ علیہ وسلم) کے عظیم صحابیوں نے اسی مقدس قرآن کی روشنی میں پوری دنیا کو عدمِ تشدد کا پیغام دیاتھا جو موجودہ دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
7- پنڈت این کے شرما صاحب کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تذکرہ ویدویاس میں بھی موجود ہے۔ کس طرح صحابہ کرام انسانیت کے عروج وترقی کے لئے اپنی جانیں قربان کریںگے، کس طرح انسانی سماج ومعاشرہ کو تباہ وبرباد ہونے سے بچائیں گے اوربرائیوں کی طاقتوں کو ختم کریں گے، ان سب چیزوں کا تفصیلی ذکر، وید ویاس میں ۰۰۲۴سال پہلے ہی کردیا گیاتھا جو آج بھی موجود ہے۔ ویدوں کی رِچاوںمیں، شری مَدبھگوت گیتا کے شلوکوں اورچھندوں میں اورہندودھرم کے دیگر گرنتھوں میں انسانیت کی ترقی، عروج اورفلاح وبہبود کے لئے ان کے ذریعہ انجام دیئے گئے کاموں کا ذکر ملتا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید سچائی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے اعمال کے ذریعہ ایک ایسی تہذیب وثقافت کی بنیاد رکھی، اپنی سیرت وکردار کی صورت میں ایسا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوںنے انسانی معاشرے کی خدمت میں اپنی بے شمار جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ بڑے بے وقوف ہیں وہ لوگ جو صحابہ کرام جیسی پاک روحوں پر تشدد پھیلانے کا الزام لگاتے ہیں۔ میں تو پورے وثوق واعتماد کے ساتھ کہتا ہوں کہ جمہوریت کا وردان دنیا والوں کوانہیں صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) نے دیا ہے۔
8- سرودھرم سمبھاوتنظیم کے صدر جناب ایم ایم ورما صاحب رِگ وید کے ایک شلوک''The truth is one, devided into many faces''”سچ ایک ہے جو مختلف صورتوں میں منقسم ہے“ کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مذہبِ اسلام ہی نے توحید کی حقیقی شکل وصورت پیش کی ہے اور اسلام کے پیغمبر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اور ان کے عظیم صحابہ کرام نے یہی پیغام پوری دنیا کو دیا ہے، توحید کا یہ مقدس نظریہ سرودھرم سمبھا وکا اصلی سرچشمہ ہے۔ قرآن یہ نہیں کہتا کہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلمکی عزت وتوقیر کرو بلکہ کہتا ہے کہ سب کو قدر وعزت دو۔
9- جناب جے کے جین کہتے ہیں کہ تمام ہندوستانیوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ شانتی کے پیغمبر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کے صحابیوں کو یاد کریں اوران کے نقوشِ قدم پر چل کر اپنے وطن عزیز کو ترقی کے بام عروج پرلے جائیں۔ صحابہ کرام نے بالخصوص محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خلفاءاربعہ ابوبکر، عمر، عثمان اورعلی رضی اللہ عنہم نے پوری دنیا کو انسانیت کا درس دیا۔ انہوںنے اپنے اعمالِ خیر کے ذریعہ یہ ثابت کردیاکہ اسلام کے معنی واقعی امن اورشانتی کے ہیں اور اسلام میں صبر، مساوات اورکثرت میں وحدت کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
 -10مشہور دانشور جناب ہرش راوت جی کہتے ہیں کہ صحابہ کرام انسانی دنیا کے لئے بہترین اسوہ ونمونہ تھے۔ انہوںنے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نقوشِ قدم پر چل کر ایسی تہذیب وثقافت کی بنیاد رکھی جس کا سرچشمہ قرآن وحدیث کی مقدس تعلیمات تھیں۔ انہوںنے انسانی سماج کی خدمت اورتعلیم کو عام کرنے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کردیں، اس کے علاوہ ،صحت، ماحولیات، صفائی ستھرائی اوردوسرے سماجی میدانوں کو ترقی دینے میں قابلِ ذکر حصہ داری نبھائی۔ حقیقت میں ان کی عظمت ورفعت لاثانی ہے۔
یہ ہیںچند اقوال وآراءجوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میںہندو دانشوروں کی فکرورائے کا مظہر وآئینہ دار ہیں، ایسے تمام مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں جنہیں صحابہ کرام کی عظمت ورفعت کا صحیح ادراک نہیں اور ان نام نہاد مسلمانوں کے گال پر زناٹے دار طمانچہ ہیں جو نہایت بے شرمی وبے حیائی کامظاہرہ کرتے ہوئے ان پر زبان طعن ودشنام طرازی دراز

 کرتے اور ان کی عدالت وثقاہت اورعفت وپاکبازی کی رداءکو تار تار کرنے کی ناروا کوشش کرتے ہیں:

دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو!

ليست هناك تعليقات: